Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Kalam Karo Ta Ke Pehchane Jao

Kalam Karo Ta Ke Pehchane Jao

کلام کرو تاکہ پہچانے جائو

کھٹی میٹھی دھمکیوں، طعنوں اور ا لزامات کی موسلادھار بارش جاری ہے، موسم، اس کے بارے میں ہمارے شاعر دوست عزیز اعجاز کہتے تھے "موسم تو آدمی کے اندر ہوتا ہے"۔ اندر کا موسم گڑبڑ ہے، اس گڑبڑی میں گھٹالے کی توقعات بھی کی جارہی ہیں اور انہونی کی بھی۔

یہ سطور لکھنے سے چند لمحے قبل شیخ رشید کو سنا وہ کہہ رہے تھے "ایک سال صبر نہ کرنے والے دس سال لائن میں لگیں گے"۔ پچھلے چند گھنٹوں سے کچھ صلح صفائی کی باتیں بھی چل رہی ہیں۔ حزب اختلاف اپنی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے پُرامید ہے مگر ان کے ہمدردوں کی صفوں سے یہ سوال بار بار اچھالا جارہا ہے کہ کیا 5سال پورے کروانے کا وعدہ کرنے والے پیچھے ہٹ رہے ہیں؟ وعدہ کیا کس نے۔

کہتے ہیں کہ، جناب نوازشریف نے لندن روانگی سے قبل کیا تھا۔ عرض کیا وعدہ تو مولانا فضل الرحمن سے ان کے دھرنے کے وقت بھی کیا گیا تھا، "آپ گھروں کو چلے جائیں مارچ میں مارچ کروادیں گے"۔

گزشتہ کالم پر ایک عزیز نے کہا کہ آپ کی باتیں درست ہیں مگر کبھی تھڑوں پر بنے چائے خانوں حجام کی دکانوں اور لاری اڈوں پر لوگوں کی گفتگو سنیں۔ ہمارا عمومی مزاج ہی بدزبانی سے عبارت ہے۔ درست کہا انہوں نے مگر کیا بدزبانی پر احتجاج ریکارڈ کروانے میں کوئی امر مانع ہے؟ خان صاحب (وزیراعظم عمران خان) نے گزشتہ روز لوئردیر میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا "میری جنرل باجوہ سے بات ہوئی انہوں نے مجھے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل نہ کہا کریں، میں نے کہا یہ نام تو عوام نے رکھا ہے"۔

پچھلی شب اس گفتگو پر دھانسو مارکہ دانش کے موتی رولے جاتے رہے۔ اس پر بھی بات ہوئی کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ، غیرجانبدار تو جانور ہوتا ہے۔ یاد آیا وزیراعظم کبھی کرکٹ کھیلتے تھے تب انہوں نے نیوٹرل ایمپائر کی مانگ کی تھی۔ آج بھی وہ اس کی ستائش وصول کرتے ہیں۔

لیکن سیاست میں وہ نیوٹرل ایمپائر کے قائل نہیں ہم بھی کیا کریں سکیورٹی اسٹیٹ کو گاہے گاہے غلطی سے جمہوری ریاست سمجھ لیتے ہیں۔ شکر ہے کہ مطالعے مشاہدے اور تواتر کے ساتھ مکالمے کی بنا پر اتنی بات سمجھ میں آگئی ہے کہ سکیورٹی اسٹیٹ میں طقباتی جمہوریت کے لاڈ اٹھائے جاتے ہیں اس لاڈ پیار میں گالیاں جمہوریت کو پڑتی ہیں۔

جمہوریت آئی کتنے دنوں کے لئے اس ملک میں؟ کبھی وقت نکالیں اوراق الٹیں سوال کا جواب تلاش کریں خود مسلم تاریخ نامزدگیوں سے عبارت ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ ہر دور میں فیصلہ کن حیثیت کے مالک رہے۔ ہم بھی تو آسمان سے گرے اور کھجور میں اٹکے ہوئے لوگ ہیں۔ ارے کھجور سے اتارو تو کوئی۔ لیکن کون اتارے گا۔

عمران خان کی یہ بات درست ہے کہ پہلے ججوں کو فون کرکے فیصلے لئے جاتے تھے لیکن یہ آدھا سچ ہے۔ باقی آدھا سچ یہ ہے کہ اب فیصلے واٹس ایپ پر موصول ہوتے ہیں۔ یہ واٹس ایپ والے فیصلے کون لکھتا ہے۔ اس سوال کا جواب مل سکتا ہے اگر یہ پتہ چل جائے کہ نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ کن "دو صاحبان" نے تحریر کیا تھا۔

چھوڑیئے یہ ہم کس طرف نکل لئے۔ اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس کے جواب میں شائستگی کے ساتھ موقف صرف علیمہ خان نے پیش کیا۔ (یہ اور بات ہے کہ ان کا موقف تاریخی طور پر درست نہیں ہے) باقی مراد سعید سے شہباز گل تک جو بولے گھولے اس پر کیا بات کرنا۔

تحریک عدم اعتماد لائے جانے کے بعد سے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ فی الوقت گلی محلوں، چائے خانوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کے مسافروں کا پسندیدہ موضوع یہی ہے۔ سوشل میڈیا پر محمود غزنوی اور صلاح الدین ایوبی کے جعلی اقوال کی بھرمار ہے۔

ان دنوں ہر شخص ایک دوسرے سے یہی پوچھ رہا ہے، کیا ہوگا؟ ہمدردان بنی گالہ کہتے ہیں، خان انہیں چھوڑے گا نہیں وہ کرے گا کہ یہ یاد رکھیں گے۔ اپوزیشن کے حامی بھی اس سے ملتی جلتی باتیں اور دعوے کرتے ہیں۔ باتوں اور دعوئوں کے بیچوں بیچ اگر کوئی چند لمحے نکال کر ہفتہ کی صبح سے دوپہر تک دیئے گئے شیخ رشید اور فواد چودھری کے بیانات سن لے تو کچھ کچھ بات سمجھ میں آسکتی ہے۔

اچھا ویسے خان نے "نیوٹرل کو جانور" کیوں کہا؟ یہ ایک سوال ہے اور جواب ہزار مگر اپنے فقیر راحموں کی طرح ہمیں بھی اس ایک سوال سے ہزار جواب سے کوئی دلچسپی نہیں۔ مجھے دو ہزارہ اٹھارہ کے انتخابی عمل سے قبل (ان دنوں میں "دی فرنٹیئر پوسٹ" لاہور کا ایڈیٹر تھا) کی ایک ملاقات یاد آگئی۔ ایک بڑے صاحب سے ہوئی اس ملاقات میں دلچسپ تبادلہ خیال کے بعد انہوں نے دریافت کیا، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں کیا ہوگا؟

عرض کیا تھا "آج جو زبان سیاسی عمل میں شریک لوگوں کے خلاف استعمال ہورہی ہے کل وہ آپ کے خلاف برتی جائے گی اس کے علاوہ کچھ نہیں ہونا"۔ ان دنوں یہی ہورہا ہے اور بات مزید بڑھے گی۔ اسے بڑھنے سے کون روکے گا؟ یہ اصل سوال ہے۔ خیر ذرا دھول بیٹھ جائے۔ تازہ ہوا میں سانس لینے کا موقع ملے تو آپ سب اس پر غور ضرور کیجئے گا کہ تہذیب و شائستگی کو رواج کیونکر دیا جاسکتا ہے۔

ہم تو فقط یہی عرض کرسکتے ہیں کہ جو بیج بویا جائے اس کی نقد آور فصل اٹھانا واجب ہوجاتا ہے۔ اب اس فصل کو جلانا ہے یا رزق بنانا ہے یہ وہ سوچیں جنہوں نے فصل بوائی تھی۔ "سانوں کی"۔ البتہ اگلے دو تین دن میں نئی صف بندیاں ہوں گی۔ نفیس لوگوں کو پرانے القابات سے یاد کیا جائے گا۔ چودھری بھی زد میں آئیں گے۔

بہت زیادہ دماغ کھپانے کی ضرورت نہیں اصل مسئلہ بارے سوچیں۔ ایک خوفناک سفارتی تنہائی مسلط ہے۔ بات کو سمجھنے کے لئے امریکی کانگریس کے رکن سکاٹ بیری کے اس پاکستان مخالف بل کا متن حاصل کرکے مطالعہ کیجئے، انشاء اللہ اٹھارہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ "پاکستان کو دہشت گردی سے روکو" کے عنوان سے کانگریس میں ابتدائی مختصر بحث اور رائے شماری کے بعد خارجہ امور کی کمیٹی کو بھجوائے گئے اس بل کا متن الگ معاملہ ہے البتہ جواب طلب سوال یہ ہے کہ کیا نیوٹرل جانور ہوتا ہے، والی منطق کا روس یوکرائن معاملے پر بھی اطلاق ہوگا؟

ایک بات البتہ عرض کئے دیتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم ایک نئی تقسیم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے لوئر دیر میں پھر کہا، "ڈیزل، شوباز، ڈاکو، 3چوہے میرا شکار کرنے نکلے ہیں ایک ہی یارکر سے تینوں کی وکٹیں گرادوں گا"۔ اپنے مخالفین کے لئے سستے القاب اچھالنے کے بعد یہ توقع کرنا کہ دوسرے انہیں حمدونعت سنائیں گے کچھ عجیب سا لگتا ہے۔

اگلے دو تین دنوں میں اپوزیشن گھر کے پرانے بھیدیوں کے ذریعے چند معاملات کو اچھالے گی تو تب ممکن ہے یہ احساس ہو کہ"آگ دامن کو لگ جائے گی"۔ فی الوقت تو یہ ہے کہ بازار کا بھائو تائو جاری ہے اصول پسندی کا وعظ کرنے والے وزیراعظم نے گزشتہ روز لاہور میں (ن) لیگ کے چھ باغی ارکان سے ملاقات کی اور ان کی حب الوطنی کی تعریف بھی کی۔ مطلب جو حکومت کا ساتھ دے گا وہ محب وطن اور باقی "چور ڈاکو شوباز، ڈیزل لٹیرے اور غدار؟"

ساڑھے چار دہائیوں کی قلم مزدوری کے اس سفر میں طالب علم کو ایک بات روزانہ ایک سے زائد بار یاد آئی۔ وہ بات ہے سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا یہ ارشاد گرامی "کلام کرو تاکہ پہچانے جائو"۔

ہمارے سکول کے زمانے کے استادِ محترم مرحوم سید محمد عباس نقوی نے یہ ارشاد گرامی سکول کے مین گیٹ پر لکھوارکھا تھا۔ تب سے ذہن پر ایسا نقش ہے کہ بھلائے نہیں بھولا۔ حرفِ آخر یہ ہے کہ امریکی گرین کارڈ ہولڈرز نے وقت پڑنے پر پتلی گلی سے نکل جانا ہے اس لئے لازم ہے کہ سیاسی ماحول کی گرماگرمی کو اپنے سماجی مراسم پر اثرانداز نہ ہونے دیں۔

Check Also

Netherlands

By Zaigham Qadeer