Ghair Janibdari Ke Janwar Se Scott Perry Ke Bill Tak
غیرجانبداری کے جانور سے سکاٹ پیری کے بل تک
وزیر اعظم عمران خان جس وقت لوئر دیر میں الیکشن کمیشن کے منع کرنے کے باوجود جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اپنے مخالفین کے لتے لے رہے تھے فقیر راحموں کہنے لگے شاہ جی یہ آپ کے محبوب وزیراعظم کو کیا ہو گیا ہے؟
عرض کیا محبوب کی ہربات درست ہوتی ہے تلخی کو گلاب جامن سمجھنا چاہئے اس " رولے " کے دوران ہمارے کانوں میں وزیراعظم کی بات پڑی کہ غیر جانبدار صرف "جانور" ہوتا ہے یہ سنتے ہی یاد آیا کہ پچھلے دوہفتوں سے وزیراعظم اور ان کے رفقا ہم سے سادہ لوح پاکستانیوں کو سمجھا رہے ہیں کہ پاکستان روس یوکرائن تنازع میں غیر جانبدار ہے۔
وزیراعظم نے دورہ روس کے بعد کئی مواقع پر جانبداری کے نقصانات گنوائے میلسی کے جلسہ میں چوکے چھکے مارتے ہوئے سوال بھی کیا " ہم کیا تمہارے غلام ہیں کہ تم حکم کرو اور ہم سوچے سمجھے بغیر منہ اٹھا کے جی حضور تابعدار کہہ دیں "یہ بھی کہا ہم غیر جانبدار ہیں اب غیرجانبداری کی جو نئی تعریف انہوں نے لوئر دیر میں بیان کی اس کے بعد سوال بنتا ہے حضور وزیراعظم صاحب اب ہم بائیس کروڑ کیا ہوئے؟
تمہید کچھ طویل ہوگئی ہم اپنے چوہتر سالہ محبوب دوست امریکہ کی خبر لیتے ہیں جہاں ایک بار پھر پاکستان کے خلاف رونق میلہ دیکھنے میں آرہا ہے، یہ رونق میلہ ہماری غیرجانبداری کا کمبل یا جانور چرانے کی سازش ہے یا کچھ اور لیکن ہوا یہ ہے کہ امریکی ایوان نمانئدگان کے رکن سکاٹ پیری نے کانگریس میں ایک بل جمع کروایا اس بل میں پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرست ریاست قرار دینے کے ساتھ پاکستان کی بیرونی امداد بند کرنے اور دفاعی سازوسامان کی فروخت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
8مارچ کو پیش کئے گئے اس بل پر گزشتہ روز مختصر بحث کے بعد "پاکستان کو دہشت گردی سے روکو" نامی بل کو خارجہ امور کی کمیٹی کو بھجوادیا گیا ہے۔ سکاٹ پیری کا پاکستان مخالف بل منظوری کی صورت میں ایکٹ کے طور پر نافذ ہوگا جس کے 30دن کے اندر امریکی وزیر خارجہ بل میں پاکستان پر لگائے گئے الزامات کی توثیق کریں گے۔ گو بل کے ایکٹ بننے میں ابھی کئی مراحل باقی ہیں مگر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بل کانگریس میں پیش کرنے اور ابتدائی رائے شماری کے بعد خارجہ امور کی کمیٹی کو بھجوانے کے فیصلے کا وقت خاصا اہم ہے۔
مذکورہ بل کے ایکٹ بننے کی صورت میں پاکستان کے لئے امریکی امداد بند ہونے کے ساتھ دفاعی برآمدات اور فروخت اور مالیاتی لین دین پر پابندیاں نافذالعمل ہوجائیں گی۔ بل پر ابتدائی رائے شماری اور اسے پیش کرنے کا وقت موجودہ عالمی منظرنامے کے حوالے سے خاصی اہمیت کا حامل لگتا ہے۔
بظاہر یہ محسوس ہورہا ہے کہ یوکرائن روس تنازع میں امریکہ اور مغرب کے شدید دبائو کے باوجود وزیراعظم پاکستان کی طرف سے غیرجانبدار رہنے کا اعلان امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو پسند نہیں آیا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ دو اڑھائی برس قبل جب امریکی کانگریس کی ہی ایک کمیٹی نے بھارت اور داعش کے درمیان مالیتی معاملات کے ساتھ داعش کو افرادی قوت فراہم کرنے کے ٹھوس شواہد پر کمیٹی نے بھارت کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی تو امریکی انتظامیہ نے اس رپورٹ کو سردخانے میں ڈال دیا تھا لیکن مفروضوں پر مبنی الزامات پر مشتمل سکاٹ پیری کے بل کو امور خارجہ کی کمیٹی میں بھجوانے کی منظوری دے دی گئی۔
سامنے کی حقیقت بہر طور یہی ہے کہ سکاٹ پیری کے پاکستان مخالف بل کو یوکرائن تنازع پر امریکہ کی درباری ریاست کا کردار ادا نہ کرنے کی سزا ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ابھی بل کی حتمی منظوری اور نفاذ کے لئے کئی مراحل طے ہونے ہیں لیکن جس طرح دو دن کے اندر ابتدائی رائے شماری کرائی گئی اس سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ بل کے ذریعے پاکستان کو دبائو میں لانا مقصود ہے۔
امریکی سینیٹ میں بھی گزشتہ برس افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد ایک بل پیش کیا گیا تھا جس میں طالبان پر پابندیوں کا دائرہ وسیع کرکے اسے پاکستان تک بڑھانے کی سفارش کی گئی تھی۔ پاک امریکہ تعلقات میں در آئی سردمہری کی ایک سے زائد وجوہات ہیں۔ بدقسمتی سے امریکہ نے پاکستان کے ساتھ ہمیشہ نامناسب برتائو کیا۔
1948ء میں کئے گئے دفاعی سازوسامان کی فروخت کے معاہدے کی بھارت نواز شق سے لے کر سکاٹ پیری کے امور خارجہ کمیٹی کو بھجوائے گئے بل تک کے درمیانی عرصہ میں پابندیوں اور دوستی کا کھیل ہمیشہ جاری رہا۔
امریکہ کے حالیہ انتخابات کے بعد امریکی انتظامیہ میں بھارتی نژاد خاتون کے نائب صدر کے طور پر شمولیت کے بعد اس بات کا خطرہ محسوس کیا جارہا تھا کہ امریکہ میں بھارت نواز لابی مزید مضبوط ہوگی اور وہ پاک امریکہ تعلقات پر اثرانداز ہونے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے آزمائے گی۔ کانگریس میں پاکستان مخالف بل پیثش کرنے والے رکن سکاٹ پیری امریکہ میں بھارت نواز لابی کے مربی و متحرک معاون سمجھے جاتے ہیں۔
ان کی جانب سے "پاکستان کو دہشت گردی سے روکو" کے عنوان سے پیش کیا گیا بل ایک بڑی طاقت کی باج گزاری سے انکار کی سزا تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ یہ خطے میں عدم توازن برپا کرکے بھارت کو فیصلہ کن حیثیت دلوانے کی سازش بھی ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے پاکستان نے اپنی بساط سے بڑھ کر امریکی کیمپ کا ساتھ دیا۔
افغان جہاد اور پھر 9/11 کے بعد شروع ہوئی انسداد دہشت گردی کی جنگ میں شرکت کے فیصلوں کا تعلق گو ہمارے ہاں امن پسندی اور عالمی برادری کے ساتھ کھڑا ہونے کی سوچ کو بالادست اشرافیہ کی جانب سے ملکی مفاد مبنی قرار دیا جارہا تھا لیکن اس کا جو خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑا وہ کسی سے مخفی نہیں۔
ایک ایسی ریاست جس نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے عالمی برادری کے شانہ بشانہ بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے مجموعی طور پر چار سے ساڑھے چار کھرب ڈالر کی معاشی ابتری کا بوجھ برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ ایک لاکھ افراد کی قربانی بھی دی ہو، اسے دہشت گردی کی سرپرست ریاست قرار دلوانے کے لئے قانون سازی کے عمل کی ابتداء حیران کن ہونے کے ساتھ افسوسناک بھی ہے۔
گو یہ پہلا موقع نہیں جب امریکہ نے طوطا چشمی کا مظاہرہ کیا ہو مگر موجودہ حالات میں اس بل کا پیش کیا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی حکام عالمی سیاست میں صرف اپنے احکامات کی بجاآوری چاہتے ہیں۔ سی پیک منصوبہ پر امریکی دبائو کے باوجود پاکستان اپنے موقف پر قائم رہا۔
روس یوکرائن تنازع پر غیرجانبدارانہ موقف اپناتے ہوئے امن و مذاکرات کو کرہ ارض کے مفاد میں بہتر سوچ قرار دیا۔ امن و انسانیت کے تحفظ کے لئے دی گئی معاشی اور جانی قربانیوں کا صلہ سکاٹ پیری کے بل کی صورت میں آج سب کے سامنے ہے۔
یہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ آج کی دنیا میں اپنے قومی وقار، آزادی اور خودمختاری کے ساتھ اپنے ملکی وقار کا تحفظ اور خارجہ پالیسی میں غیرجانبدارانہ پالیسی اپنانا کس قدر مشکل ہے۔
پاکستان کے پالیسی سازوں اور ارباب سیاست کو اسے محض ایک بل ہی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اسے پیش کرنے کے وقت کے ساتھ داخلی، علاقائی اور عالمی صورتحال کے تناظر میں امریکی عزائم کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہوگی۔
یقیناً اس معاملے پر پاکستانی دفتر خارجہ کے ذمہ داران امریکہ سے بات چیت کریں گے لیکن بنیادی ضرورت یہ ہے کہ اس وقت پوری قوم اور خصوصاً سیاسی قیادت اور حکومت تمام اختلافات بھلاکر متحد ہوں تاکہ امریکہ کی بااثر بھارت نواز لابی کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جاسکے۔
اس ساری تفصیل کے عرض کرنے کے بعد جو سوال ذہن میں آرہا ہے وہ یہی ہے کہ ہمارے وزیراعظم نے گزشتہ روز کہا ہے کہ غیرجانبدار تو جانور ہوتا ہے، اب یہ وہی بتاسکتے ہیں کہ روس یوکرائن تنازع میں غیرجانبداری کے اعلان کے بعد امریکہ اور دنیا ہمیں کیا سمجھیں ؟