Shayar, Shagird Aur Shayari
شاعر، شاگرد اور شاعری

دنیائے علم و ادب کی نمائندہ عالمی تنظیم قلم قافلہ پاکستان کا مرکز کھاریاں شہر ضلع گجرات پاکستان میں ہے اور دنیا بھر میں جہاں جہاں اردو ادب کے قدر دان ہیں، وہ قلم قافلہ پاکستان کے ممبر اور خیر خواہ ہیں۔ 1984 سے، قلم قافلہ کے زیر اہتمام، شاعری انتخاب کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے، شاعری انتخاب اشاعت کے بعد شعرائی و شاعرات قومی اور علاقائی کتاب گھروں کو اعزازی ارسال کیا جاتا ہے لیکن اب یہ سلسلہ "ای کتاب" تک محدود کر دیا گیا ہے، شاعری انتخاب کی اشاعت کا بنیادی مقصد آج کی شاعری کل کے لئے محفوظ کرنا ہے، میں گل بخشالوی شاعر نہیں لیکن اردو ادب میں شاعری کا قدر دان ضرور ہوں اور یہ ہی میری اردو ادب میں پہچان ہے۔
دنیائے اردو ادب میں میرا کوئی ادبی گروپ نہیں، میرے لئے ہر وہ سخنور قابل صد احترام ہے جو اردو ادب میں شاعری کی شان ہے، میرے لئے دنیائے اردو ادب میں شاعری کے اساتذہ قابل صد احترام ہیں، سینئر ترین شعرا کی جھرمٹ میں نوجوان شعرا اور شاعرات کی حوصلہ افزائی کے لئے ان کا شعرا اور شاعرات کا کلام شامل انتخاب کیا جاتا ہے جو اپنی شاعری میں اساتذہ سے رہنمائی لیتے ہیں۔ البتہ اساتذہ کو بھی سوچنا ہے کہ گذشتہ کل وہ بھی شاعری کے بچپنے میں تھے وہ بھی شاعری کی پچپن سے لڑکپن جوانی اور بزرگی تک کے سفر میں اساتذہ کی شاگردی میں رہے ہیں۔
اساتذہ سے رہنمائی لینا ہی خوبصورت شاعری کا بنیادی اصول ہے، لیکن اگر کوئی استاد شاعر اپنے شاگر کو یہ کہہ کر شرمندہ کرے کہ تمہیں تو کچھ آتا ہی نہیں تو یہ نہ صرف شاگرد کے جذبات اور احساسات کی بلکہ اپنے مقام شاعری کی بھی توہین ہے استاد اگر شاگرد کی سوچ اور تخیل کی پرواز کو اپنے مقام شاعری کی سطح پر سوچتا ہے تو شاگرد کے لئے ایسا ناممکن ہے، اس لئے شاگرد شاعری میں نوخیز پودا ہے وہ محبت خلوص اور احترام میں اپنی آبیاری چاہتا ہے، لیکن اگر اساتذہ اصلاح دیتے ہوئے سخت لہجہ اپناتے ہیں، تو شاگرد کی انا مجروح ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی شاعری سے کنا رہ کش ہو جاتا ہے۔
میں گل بخشالوی، بنیادی طور پر پختون ہوں، آٹھویں جماعت تک تعلیم یافتہ ہوں، غم روزگار میں اساتذہ کو پڑھنے اور پڑھ کر سیکھنے کا موقع نہیں ملا، پختون اردو سے محبت کرتے ہیں لیکن ہر پختون احمد فراز بھی نہیں ہوتا، وہ شاعری کے اوزان تو سیکھ لیتے ہیں، رموز شاعری جانتے بھی ہیں لیکن لفظوں کی ادائیگی میں لفظ کی پہچان اور اوزان نہیں جانتے۔
میں اپنا کوئی بھی کلام اساتذہ سے مشورہ لئے بغیر اپنے کسی قریبی دوست کو بھی نہیں سناتا اس لئے کہ ادب دوست جانتے ہیں۔ میں شاعری کرتا نہیں، مجھ سے شاعری ہو جاتی ہے، بعض اوقات لفظوں کی موزونیت میں مادری زبان اور میری علمی نا قابلیت آڑے آ جاتی ہے، میں نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ میں ایک اچھا شاعر ہوں اور مجھے ایسا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔
میں جانتا ہوں شاعری کے لئے پہلا عنصر مصرعے کا وزن میں ہونا، دوسرا عنصر خیالِ حقیقت، یعنی خیال کو موزوں الفاظ کے سانچے میں ڈالنا ہی سخنوری کا کمال ہے۔ شاعری انسان کے وجود میں جذبات اور احساسات کی عکاسی کا نام ہے، شاعری ان منظم جذبات اور احساسات کی عکاسی ہے جو خودپر نازل ہوتے ہیں شاعری وہ ہے جو ہو جائے اور اگر کرنی پڑے تو اسے شاعری نہیں تک بندی کہتے ہیں شاعری کے حسن کے قدر دان کہتے ہیں کہ شاعری ایک خدا داد صلاحیت ہے لیکن اس صلاحیت میں آفاقی سچائیوں کی باریکی کا علم ہونا بھی ضروری ہے۔

