Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Gul Bakhshalvi
  4. Qaumi Salamti Ka Ijlas Aur Tajzia Nigar

Qaumi Salamti Ka Ijlas Aur Tajzia Nigar

قومی سلامتی کا اجلاس اور تجزیہ نگار

پاکستان میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے ایک نئے عزم اور ولولے کا اعلان کیا ہو۔ سانحہ جعفر ایکسپریس کے بعد دہشتگردی کے بڑھتے واقعات کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان اور عزم استحکام کی حکمتِ عملی پر فوری عمل درآمد پر زور دیا گیا ہے۔ اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، غلام وزیر اعظم پارلیمانی کمیٹی بے زبان ارکان، خود پرست سیاسی قائدین، تنخوا داروفاقی وزرا اور فوج او ر ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام شریک تھے۔

اس اجلاس میں پاکستان کی سب سے بڑی قومی سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف اور قوم پرست جماعتوں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی شریک نہیں تھیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کا مطالبہ تھا کہ عمران خان قومی سلامتی کے اجلاس میں شرکت کے لئے پیرول پر رہا کیا جائے۔ لیکن غلام حکمران جماعت یہ مطالبہ پورا نہیں کر سکی۔

اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس کے اعلامیے پر سائرہ بانو کے حوالے سوشل میڈیا پر کسی صحافی کے سوال پر کہ قومی سلامتی کے اجلاس میں کیا بریفنگ دی گئی تو خاتون نے جواب میں کہا، رات سونے سے پہلے دروازے کی کنڈی بند کر دیں کھلے برتن ڈھک دیں، گیس کے والو ضرور بند کیا کریں اور دوائیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھا کریں۔

جبکہ ممتاز کالم نگار وسعت اللہ خان اپنے کالم میں لکھتے ہیں ایک بات تو ماننا پڑے گی کہ ہماری موجودہ جرنیلی کلاس سابقین سے زیادہ پالشڈ ہے جبکہ سیاستدانوں کی حاضر کھیپ اپنے پرکھوں کے مقابلے میں یا تو کم پڑھی لکھی ہے یا پھر اس نے اپنا علم و فضل خفیہ رکھا ہے اور فوٹوکاپی سوچ پر گزارہ ہے۔ ان کا مجموعی رویہ یہ ہے کہ تسی دسو اسی کی کرنا اے (آپ بتائیں ہمیں کیا کرنا ہے)۔

آرمی چیف کو پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کھل کے کہنا پڑا کہ مسلح افواج آخر کب تک انتظامی خامیوں سے جنم لینے والے خلا کو اپنی قربانیوں اور شہدا کے خون سے بھرتی رہیں گی۔

جنرل صاحب تو بس اتنا کہہ کر چلے گئے مگر مجھ جیسے پترکاروں کو وختہ پڑ گیا کہ سافٹ اور ہارڈ سٹیٹ کیا بلا ہوتی ہے؟ جس کا لبِ لباب یہ ہے کہ سافٹ سٹیٹ ایک طرح کی طوائف الملوکی ہے۔ قوانین تو کاغذ پر ہوتے ہیں مگر عمل کوئی نہیں کرتا۔ کرپشن کی وجہ سے ریاستی عمل داری کھوکھلی ہو جاتی ہے۔ ہر طاقتور فرد، جماعت اور ادارہ خود کو پھنے خان سمجھتا ہے چنانچہ اس ریاست کی اپنی آبادی اور علاقے پر گرفت ڈھیلی پڑتی جاتی ہے۔ یوں ریاست بالاخر غریب کی جورو میں تبدیل ہو کر سب کی بھابی بن جاتی ہے۔

قومی سلامتی کے اس اجلاس پر آزاد مبصرین اور تجزیہ نگار حقائق کی روشنی میں بہت کچھ لکھ رہے ہیں جب کہ غلام وہ ہی کچھ لکھ رہے ہیں جو انہیں لکھنے کے لئے کہا گیا یا کہا جارہا ہے۔

سوال پیدا ہواتا ہے کہ آخر کب تک ہم پاک فوج کے جوانوں اور شہریوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے جب بھی دہشت گردی کا کوئی المناک سانحہ ہوتا ہے، قوم لاشیں اٹھاتی ہے تو قومی سلامتی کا اجلاس طلب کرکے ا یسا ہی کوئی اعلامیہ جاری کر دیا جاتا ہے حالانکہ اعلامیہ جاری کرنے والے جانتے ہیں کہ جب تک قوم اور ادارے ایک پلیٹ فارم پر نہیں ہوں گے تو مکار دشمن کو ویسے آسمان کے تارے نہیں دکھائے جا سکتے جیسا کہ 1965 میں دکھائے تھے۔

لیکن ایسی سوچ وہ سوچتے جو قوم، دیس اور دیس کی عوام کا سوچتے ہیں، قومی سلامتی کے اجلاس میں حکمران جماعت اور ان کے جو درباری بیٹھے تھے وہ جانتے ہیں کہ وہ قوم کے منتخب نمائندے نہیں رجیم کے تنخوا دار ہیں۔ قوم کے منتخب نمائندے تو پاکستان بھر کی جیلوں میں منتخب نمائند ے ہونے کے جرم کی سزا بھگت رہے ہیں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan