Sunday, 16 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Gul Bakhshalvi
  4. Purani Kahani, Naye Adakar

Purani Kahani, Naye Adakar

پرانی کہانی، نئے اداکار

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو آج برملا کہہ رہے ہیں، کہ عمران خان تو ایک بہانہ ہے امریکہ کی نظر پاکستان کی ایٹمی قوت پر ہے۔ یہ وہ سچائی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

تحریکِ انصاف کی حکومت گِرنے سے پہلے گذشتہ برس تحریکِ انصاف کے قائد اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے 27 مارچ 2022 کو ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ایک کاغذ نکال کر لہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ ان کی حکومت گرائے جانے کی سازش کر رہا ہے اور انہیں تحریری دھمکی دی گئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا بھی حوالہ دیا تھا جنہوں نے 46 برس قبل کہا تھا کہ ان کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک کے پیچھے امریکہ ہے جو انھیں اقتدار سے نکالنا چاہتا ہے۔

امریکہ کو ایبسلوٹلی ناٹ کہنے کے جرم میں عمران خان آج قیدی نمبر 804 ہیں آج کے سیاسی منظر نامے میں دنیا وہ ہی کچھ دیکھ اور سن رہی ہے، جو ذوالفقار علی بھٹو کے اس دور حیات میں دیکھا اور سنا گیا تھا جب وہ جیل میں تھے، عمران خان آج بھی جیل میں اپنے پائوں پر کھڑے ہو کر کہہ رہے ہیں، میں کسی بھی ڈیل میں جیل سے باہر نہیں آئوں گا اور نہ ہی بنی گالہ میں نظر بند نہیں رہنا چاہتا میں اپنے کیسز کا سامنا کروں گا۔ اگر کوئی میری رہائی چاہتا ہے تو پہلے تحریکِ انصاف کے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ نو مئی اور 24، نومبر کے واقعات کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، عمران خان جانتے ہیں کہ غیر آئینی حکومت اور تحریکِ انصاف کے مابین مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا اس لئے کہ نام نہاد اپوزیشن منافقانہ روش اپنائے ہوئے نوارا کشتی میں قوم کو گمراہ کر رہی ہے۔ جہاں تک امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر کے بیانات ہیں ان پر عمران خان اور تحریکِ انصاف کے رہنما کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں، اس لئے کہ انہیں جمی کارٹر کے مگر مچھ کے آنسو یاد ہے جب اس نے کہا تھا "ہمارے دیرینہ دوست بھٹو کے ساتھ بہت برا ہوا"۔

بی بی سی کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ 1976 اور 1977 میں جب بھٹو کی حکومت کے خلاف پی این اے کی تحریک چل رہی تھی تو امریکہ میں جمی کارٹر صدر بن چکے تھے اور ہینری کیسنجر کی جگہ سائرس وینس وزیرِ خارجہ تھے۔ بہت سے سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ حزبِ اختلاف کی تحریک کو امریکی حمایت حاصل تھی۔ امریکی صدر جمی کارٹر پی این اے کی تحریک کو انسانی حقوق کی تحریک قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ بھٹو اس تحریک کو کچلنا چاہتے ہیں۔ پی این اے کو تحریک کو امریکہ کی مالی مدد حاصل تھی۔ اصل میں سارا معاملہ پاکستان کے جوہری پروگرام سے ہی متعلق تھا۔

بھٹو کے قریبی دوست علی جعفر زیدی کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب بتاتے پھر رہے تھے کہ خدا کے لیے اس تحریک کو سمجھو اس کے پیچھے امریکہ ہے۔ یہ تحریک اس لیے شروع ہوئی ہے کیونکہ میں نیوکلیئر پروگرام کو ختم کرنے سے انکار کر رہا ہوں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے پانچ سالہ اقتدار کے اواخر تک پہنچ چکے تھے۔ انھوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شعلہ بیان تقریر میں کہا تھا امریکہ پاکستانی حکومت کے خلاف مداخلت کر رہا ہے اور اپوزیشن کے ذریعے مجھے ہٹانا چاہتا ہے۔ ذوالفقار بھٹو نے اس سے قبل راولپنڈی میں ایک خط کو امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر کی دھمکی، قرار دے کر عوام کے سامنے لہرایا تھا۔ اُس وقت ذوالفقار بھٹو کا یہ بیانیہ تھا کہ میرے خلاف عالمی سازش ترتیب دی گئی ہے، جس کو امریکہ نے مالی مدد بہم فراہم کی اور میرے سیاسی مخالفین کو سازش میں مہرہ بنایا گیا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ یہ ایک بہت بڑی عالمی سازش ہے جسے امریکہ کی مالی مدد حاصل ہے تاکہ میرے سیاسی حریفوں کے ذریعے مجھے نکال دیا جائے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے بھٹو نے کہا کہ ویتنام میں امریکہ کی حمایت نہ کرنے اور اسرائیل کے مقابلے میں عربوں کا ساتھ دینے پر امریکہ انھیں معاف نہیں کرے گا۔

انھوں نے امریکہ کو ایک ہاتھی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بھولتا ہے نہ معاف کرتا ہے۔ بقول بھٹو امریکہ کی سازش کامیاب ہوئی اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پی این اے کی تحریک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل ضیاالحق نے پانچ جولائی 1977 کو ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔

صدر کارٹر کے لیے پانچ جولائی 1977 کی یادداشت میں کہا گیا: پاکستان میں شہر پُرسکون ہیں۔ مبینہ طور پر کوئی امریکی یا دوسرے غیر ملکی متاثر نہیں ہوئے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران نے فوجی قبضہ پر کچھ حد تک سکھ کا اظہار کیا ہے اور جمی، کارٹر نے لکھا: ہمارے دیرینہ دوست بھٹو کے ساتھ بہت۔۔

ذوالفقار علی بھٹو پر نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا۔ عدالت میں اپنے بیان میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے ساتھ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ انھوں نے پاکستان کو ایک جوہری طاقت بنانے کا عزم کر لیا تھا اور امریکہ کے وزیرِ خارجہ ہنری کیسنجر کے خبردار کرنے کے باوجود جب انھوں نے جوہری پروگرام سے پیچھے ہٹنے سے انکار کیا تو ہنری کیسنجر نے انھیں دھمکی دی "تمہیں ایک خوفناک مثال بنا دیا جائے گا"۔ امریکی وزیرِ خارجہ کا یہ مبینہ جملہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آج بھی گونج رہا ہے اور پاکستان آج جن حالات کا سامنا کر رہا ہے اس میں اس دھمکی اور اس کے نتائج کا بہت بڑا کردار ہے۔

تاہم اس کے گواہ صرف ذوالفقار علی بھٹو ہی ہیں جو اپنے اقتدار کے آخری دنوں اور گرفتاری کے بعد بھی مسلسل چیخ چیخ کر یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان کے خلاف امریکہ سازش کر رہا ہے اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں اور پاکستان کے مقامی صنعتکار جن کی صنعتیں قومی تحویل میں لی گئی تھیں اس سازش میں شامل ہیں۔ بھٹو نے اپنے مقدمے میں لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ کے سامنے، جس کی سربراہی مولوی مشتاق کر رہے تھے، یہ بات کہی کہ انھیں امریکی وزیرِ خارجہ ہینری کیسنجر نے دھمکی دی تھی۔

17 ستمبر کو ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلائے جانے کا اعلان کیا ہے اور کہا کہ اس مقدمے کا فیصلہ 18 اکتوبر کے انتخابات سے پہلے سنایا جائے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری اور جنرل ضیائی کا ان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے اعلان کے ساتھ مارشل لا انتظامیہ اور سابق وزیر اعظم بھٹو کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذ آرائی نے فیصلہ کن موڑ لے لیا ہے یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ انتظامیہ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی حمایت سے خوفزدہ ہے اور وہ کسی نہ کسی طریقے سے یہ یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو پاکستان میں کبھی دوبارہ کوئی عوامی عہدہ حاصل نہ کر سکیں۔

اٹھارہ مارچ 1978 کو صبح 8 بجے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مشتاق حسین نے بنچ کے دیگر ججز، جسٹس ذکی الدین پال، جسٹس گلباز خان اور جسٹس ایم ایچ۔ قریشی کے ساتھ نواب محمد احمد خان قصوری کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ ذوالفقار علی بھٹو، میاں محمد عباس، رانا افتخار احمد، ارشد اقبال اور غلام مصطفیٰ کو سزائے موت سنائی گئی جبکہ سلطانی گواہوں مسعود محمود اور غلام حسین کو معاف کر دیا گیا اور دنیائے اسلام کے عظیم لیڈر پاکستان کے سابق صدر اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو چار اپریل 1979 کو پھانسی دے دی گئی۔

آج کے سیاسی منظر نامہ میں قوم دیکھ رہی ہے دنیا محسوس کر رہی ہے کہ پاکستان کے ایک اور محب وطن عوا م دوست لیڈر کے خلاف ڈرامے کی کہانی پرانی ہے البتہ اداکار نئے ہیں۔

Check Also

Pehla Ghair Mulki

By Ashfaq Inayat Kahlon