Chingari Bujhti Nahi
چنگاری بجھتی نہیں
پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی آواز پر سراپا احتجاج آزاد اور خود مختار پاکستان کے شیدائی دوسری مرتبہ دارالحکومت اسلام آباد میں سابق خاتون اول بشرہ بی بی کی قیادت میں اٹک سے اسلام آباد تک رکاوٹوں اور بھر پور مزاحمت کے باوجود ڈی چوک پہنچ گئے۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے قافلوں میں شریک جنوں کے سامنے وزیر داخلہ کی ہر رکاوٹ ریت کی دیوار ثابت ہوئی اسلام آباد میں داخل ہوتے ہی اسلام آباد اور راولپنڈی میں قافلوں کی آمد کا منتظر جنون بھی باہر نکل آیا تو تختِ اسلام آباد کو بچانے کی آخری کوشش میں محسن نقوی نے فوج طلب کر لی ہے۔
بشرہ بی بی پہلی بار عملی سیاست میں آئیں وہ ریلی کی قیادت کر رہی تھیں، بشرہ بی بی نے قافلے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا جب تک خان ہمارے پاس نہیں آئیں گے مارچ ختم نہیں ہوگا۔ بشرہ بی بی نے قافلے سے وعدہ لیتے ہوئے کہا بات صرف عمران خان کی رہائی کی نہیں اس ملک، خوبصورت، آزاد اور جمہوری مستقبل کی ہے۔
احتجاجی ریلی کا بڑا حصہ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان سے اسلام آباد پہنچا تھا۔ پہلی ریلی میں خیبر پختون خواہ تنہا تھا اس مرتبہ بلوچستان کے بلوچ بھی وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اور بشرہ بی بی کے ساتھ قافلے میں کنٹینرز، پولیس کے ناکوں، خندقوں اور آنسو گیس کی شیلنگ کے باوجود اسلام آباد کے ڈی چوک میں محسن نقوی کی فورس کے مقابل پہنچے تھے۔
نقاب پوش مارشل لاء کا دفاع کرنے والے تختِ اسلام آباد کے ترجمانوں کا کہنا تھا کہ سندھ اور پنجاب سے لوگ عمران خان کے لئے نہیں نکلے، لیکن وہ یہ نہیں بتا رہے تھے کہ ہم نے قیدی نمبر 804 کے خوف سے پورے پنجاب کی شاہرا ہوں پر خندقیں کھود کر کنٹینرز لگا کر ہر شہر کے شہریوں کو ان کے شہر تک محدود کر دیا ہے۔
شاہراہوں اور شہروں میں شادی ہال، ریستوران، ہوٹل، فروٹ اور سبزی منڈیاں بند ہیں، یہ جھوٹ ہے کہ لوگ نہیں نکلے تھے، لوگ نکلے تھے لیکن انہیں اسلام آباد جانے نہیں دیا گیا اس کے باوجود تحریک انصاف کی قیادت اور بڑی تعداد میں کارکن غیر معروف راستوں سے اسلام آباد پہنچ چکے تھے جو پنجاب اور سندھ میں محصور ہوکر رہ گئے تھے وہ شاہرا ہوں سے رکاوٹیں ہٹوائے جانے کے منتظر تھے۔
اسلام آباد کے بلیو ایریا تک قافلے پہنچے تو محسن نقوی کی فورس نے ان پر تاریخ کی بد ترین شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی لیکن قافلے آگے بڑھتے رہے اور پھر پاک فورس نے انہیں اپنے گھناونے منصوبے کے مطابق ڈی چوک تک جانے کا راستہ دیا، قافلے والوں نے پاک فورس کو گلے لگایا لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے!
بشرہ بی بی نے ڈی چوک میں خطاب کرتے ہوئے پاک فورس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہم پاکستانیوں پر ربڑ کی گولیاں کیوں چلاتے ہو لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ محسن نقوی جبر و فسطائیت کی تاریخ رقم کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں آج رات کو ربڑ کی گولیاں نہیں بارود سے بھری گولیاں چلیں گی، رات اندھیری ہوگئی ڈی چوک کی روشنیاں بجھا دی گئیں اور پھر وہ ہوا جس کی پاک فورس سے توقع ہی نہیں تھی۔
رجیم کی فورس نے نواز شریف کے دورِ وزارت اعلیٰ کی وہ یاد تازہ کردی جب بے نظیر بھٹو کے جیالوں کو لاہور میں براہِ راست گولی کا نشانہ بنایا گیا تھا راقم بھی پولیس کی گولی کا نشانہ بنا تھا اور آج تختِ اقتدار میں پاک فورس نے بابڑہ کی خونی تاریخ کی وہ یاد تازہ کردی جب اگست 1948 کو آزادی کی پہلی سالگرہ سے دو روز قبل خیبر پختون خوا کے شہر چارسدہ کے گاؤں بابڑہ میں 600 سے زیادہ خدائی خدمت گاروں کو شہید کر دیا گیا تھا اس لئے کہ وہ خدائی خدمت گار خان عبدالغفار خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے۔
پاک فورس نے قیدی نمبر 804، کی رہائی کے لئے سراہ پا احتجاج پاکستانیوں پر براہِ راست گولی چلائی، معصوم نہتے پاکستانیوں کو شہید کیا، قافلے کی قائد بشرہ بی بی کو زندہ جلانے کے لئے ان کے کنٹینر کو آگ لگائی گئی لیکن خوش قسمتی سے وہ کنٹینر میں نہیں تھیں۔
دینا جانتی ہے ایسے حالات اور واقعات تو پاکستان میں مظلوموں کے خون سے لکھی تحریر میں قوم کی لکھی تاریخ ہے، جب بھی کوئی خدا دوست آزاد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حق اور صداقت کی آواز بن کر اٹھتا ہے تو اس کو اور اس کی سوچ کو کچلنے کے ایسے ہیں فسطائی حربے استعمال ہوتے ہیں، لیکن ایسے ظلم و جبر میں تحریکیں وقتی طور پر فسطائیت کی راکھ میں چنگاری دب تو جاتی ہے لیکن بجتی نہیں، اس لئے کہ رات جس قدر بھی تاریک ہو صبح کا اجالا اس کا مقدر ہے۔