Sir Syed Ahmed Khan Ke Mazhabi Aqaid
سر سید احمد خان کے مذہبی عقاٸد

سرسید احمد خان اپنے زمانے کا ایک نابغہ روزگار کردار تھے۔ انھوں نے زندگی کے تقریباً ہر موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے، لیکن زمانے کو تب سے اب تک ان کے اکثر نظریات سے انکار رہا ہے۔ تاہم اس کے باوجود ان کی تحریروں کی اہمیت و افادیت اب تک برقرار ہے۔ سرسید سے اتفاق یا اختلاف کرنے کے لیے قاری کو علمی لحاظ سے کم سے کم ان کا ہم پایہ ہونا ضروری ہے۔ سرسید سے اکثر وہ لوگ اختلاف کرتے آئے ہیں جنھوں نے اپنی تمام تر زندگی تقلید کو وقف کر رکھی ہے۔ زیر نظر تحریر میں ان کے خیالات اور اسلوب کو نہایت اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور ان خیالات سے قارئین کا اتفاق ضروری نہیں۔
سرسید خدا کے شخصی تصور کے خلاف تھے اور ان کے نزدیک خدا علت العلل ہے، معلول نہیں۔ وہ جبرئیل کو فرشتے کے بجائے ایک الہامی ودیعت اور وحی کو ریاضت کا الہامی نتیجہ قرار دیتے تھے۔ ان کے نزدیک پیغمبر سے مراد وہ شخص ہے جو الہامی ودیعت اور ریاضت کی صفات سے متصف تھا اور وہ قرآن کو اسی الہامی ودیعت اور ریاضت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ وہ قرآن کو جسمانی امراض کے بجائے روحانی امراض کے لیے شفا قرار دیتے ہیں۔ ان کا عقیدہ تھا کہ انسان مذہب کے لیے نہیں، بل کہ مذاہب انسانوں کے لیے ہونے چاہیے۔
اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ سبع سمٰوات کا ذکر قرآن میں ہے، مگر سبع ارضین کا ذکر قرآن میں کہیں نہیں اور زمین صرف ایک ہی ہے۔ ان کی نظر میں عبادت وہ نہیں جو عام طور پر مسلمان کرتے ہیں، لیکن عبادت سے مراد خدائی تخلیقات پر غور کرنے سے انسانوں کی خدمت اور انسانی زندگی کو آسان تر بنانا ہے۔ نیکی کے متعلق کہتے ہیں کہ نیکی اس لیے نہیں کرنی چاہیے کہ خدا راضی ہو، لیکن نیچر کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں نیک ہونا چاہیے۔ وہ شیطان کو کوئی نوری مخلوق نہیں، بل کہ برائی سے متعلق افکار و اوہام گردانتا ہے اور ملائکہ کو بھی نوری مخلوق کے بجائے کائنات میں رونما ہونے والے واقعات کی سائنسی توجیہہ قرار دیتے ہیں۔ وہ ہاروت و ماروت کو فرشتے نہیں انسان سمجھتے ہیں۔ وہ معجزوں پر یقین نہیں رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ معجزہ وجود نہیں رکھتا اور یہ وہ واقعات ہیں جن کا اب تک انسانوں پر سائنسی سبب کھلا نہیں ہے۔ عرش سے ان کی مراد زمین و آسمان کی تخلیق کے بعد خدائی حکم، جلوہ، امر اور خدائی قوانین کا کل کائنات میں جاری ہونا ہے۔
سر سید احمد خان کا خیال ہے کہ قیامت، جنت، جہنم، معاد وغیرہ کی وقوع پزیری مجسم صورت میں نہیں، بل کہ حالت رویا میں ممکن ہے۔ واقعہ معراج اور شق صدر کے بارے میں بھی ان کا عقیدہ ہے کہ یہ واقعہ حالت رویا میں ہوا ہے نہ کہ مجسم حالت میں۔ نفخ فی الصور سے ان کی مراد ستاروں، سیاروں اور کائنات کی تباہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وجود سے روح مقدم ہے جیسا کہ مشین کی ایجاد سے پہلے بجلی یا انرجی کا ہونا۔ ان کا ایقان ہے کہ دعاؤں سے نیچر کے قوانین تبدیل نہیں ہوتے اور نہ ہی کائنات کو تخلیق کرنے اور اس کے اصول متعین کرنے کے بعد خدا دوبارہ ان متعین شدہ اصولوں میں مداخلت نہیں کرتا، لہٰذا دعا مانگنے سے بہتر ہے عمل کو اہمیت دی جائے۔
وہ قرآن شریف میں ناسخ و منسوخ پر یقین نہیں رکھتے، بل کہ وہ کہتے ہیں کہ اسے مراد گذشتہ ادیان کی قرآنی آیات کے ذریعے منسوخی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ طوفان نوح ساری زمین پر نہیں آیا تھا، بل کہ ایک محدود جغرافیے یعنی صرف قوم نوح پر آیا تھا۔ تعدد ازواج کی بابت ان کی رائے ہے کہ تعدد ازواج بامر مجبوری نسواں جواز رکھتا ہے نہ کہ بامر مجبوری مرداں۔ حضرت موسیٰؑ کی خدا سے باتیں کرنے کے متعلق لکھتے ہیں کہ کلیم اللہ ہونے سے مراد ان کی ریاضت اور مجذوبیت کا عالم ہے نہ کہ حقیقت میں مجسم طور پر باتیں کرنا۔ حضرت عیسیٰؑ کی بابت لکھتے ہیں کہ وہ بن باپ کے پیدا نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی وہ آسمانوں پر چلے گئے ہیں، بل کہ عیسیٰؑ یوسف کے بیٹے تھے جن کی پیدائش حضرت مریم پر خدائی بشارت اور یوسف سے خطبہ یعنی نکاح ہونے کے بعد ہوئی تھی، مگر خطبہ کے بعد یوسف کی شادی حضرت مریم سے نہیں ہوئی۔ انھوں نے حضرت عیسیٰؑ کے معجزات کو بھی عقل اور دانش کی کھسوٹی پر پرکھا ہے اور معجزات کے وجود سے انکار کیا ہے اور وہ خلافت اور امامت کے حق میں بھی نہیں تھے۔
سر سید احمد خان کا دعویٰ ہے کہ حجر اسود کو جبرئیلؑ نے بہشت سے نہیں لایا ہے، بل کہ یہ ایک عام پتھر ہے جو حضرت ابراہیمؑ نے مذبح خانے اور طواف کے شروع اور ختم ہونے کی نشانی کے بطور نصب کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ قبل اسلام اور ایک دفعہ عبداللہ بن زبیر کے دور میں کعبے کو آگ لگنے سے یہ پتھر کالا ہوگیا اور دوسری دفعہ آگ لگنے سے یہ پتھر تین حصوں میں ٹوٹ گیا، جسے بعد ازاں ابن زبیر نے اس کے گرد چاندی کا حلقہ چڑھایا۔ وہ آب زم زم کی تقدیس کے قائل ہیں، مگر اس پانی کو شفا اور صحت یابی کے لیے استعمال کے خلاف ہیں۔ اسی طرح اصحاب فیل کے واقعے کے متعلق ان کی رائے ہے کہ ابرہہ کا لشکر چیچک کی بیماری کی وجہ سے تباہ ہوا نہ کہ پرندوں کے پتھر برسانے کی وجہ سے۔ وہ صحاح ستہ اور صحاح سبعہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ کتابیں اکثر نامعتبر، بے ہودہ اور متناقض روایتوں سے بھری ہوئی ہیں جو صحیح اور کامل غور و فکرکے بجائے صرف مذہبی جوش و حرارت کی بنا پر لکھی گئی ہیں۔ اشہر حرم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اسلام میں صرف چار معروف مہینے اشہر حرم نہیں، بل کہ بارہ کے بارہ مہینے ایک جیسے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ سورت توبہ کی متعلقہ آیت کی نحوی ترکیب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ فیھن کی ضمیر اثنا عشر شہراً کی طرف راجع ہے نہ کہ اربعتہ کی طرف۔
سر سید نے غزوہ بدر میں مسلمانوں کی مدد کے لیے مجسم فرشتوں کے آنے کی تردید کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ قرآن میں ملائکہ، جنود اور سکینہ سے مراد انسانی قوائے اندرونی یعنی قوائے غیر مرئیہ جیسے ہمت، بہادری، شجاعت، صبر اور استقلال کو دلوں میں پیدا کرنا اور جوش میں لانا ہے۔ یعنی خدا مسلمانوں کے دلوں کو ہزار آدمی کے لشکرکے برابر تقویت اور بہادری عطا کرے گا۔ اسی طرح ان کا عقیدہ ہے کہ آپﷺ کی پشت پر دراصل مہر نبوت نہیں تھی، بل کہ وہ ایک سیاہ غدود سے تھا، جس پر بال تھے اور اس وقت لوگ اس غدود کو متبرکاً اور استعارتاً مہر نبوت سے موسوم کیے ہوں گے اور آپﷺ نے کبھی اس مہر کو بہ طور نبوت کی نشانی نہیں دکھائی جس طرح کہ حضرت موسیٰؑ نے ید بیضا کو دکھایا تھا۔ وہ مذید لکھتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ کے لیے لفظ فارقلیط درست نہیں، بل کہ درست لفظ پیریکلیوطاس ہے، جس کے معنی روح القدس، معلم، مالک اور واعظ ہیں۔
وہ اپنے مافی الضمیر کو سیدھے اور صاف الفاظ میں بیان کرتے تھے اور نمائش، ریا اور دکھاوے سے پرہیز کرتے تھے۔ ان کی تحریروں میں عربی فقرات، قرآنی آیات، احادیث مبارکہ، تورات اور انجیل کے حوالے، فارسی اشعار، ضرب الامثال اور محاورات بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ وہ مغربی تہذیب کا دل دادہ اور مشرقی تہذیب سے مایوس تھے۔ ان کی تحریروں میں خطیبانہ انداز، دل سوزی، خلوص، وعظ و نصیحت اور حکیمانہ باتیں بھی شامل ہیں۔ انھوں نے مختصر جملوں کا استعمال کم اور طویل فقرات کا استعمال زیادہ کیا ہے۔ عقلی دلائل اور منطقی براہین ان کے مضامین کی شان ہیں۔ وہ بسا اوقات اپنی قوم کی پستی، فلاکت اور ضعیف الاعتقادی کو اپنی تحریروں کا موضوع بناتے ہیں۔ وہ خوشامد، کاہلی اور تشدد اور احتجاجی سیاست سے بے زار تھے۔
سر سید نے اے ڈی یا ایس ٹی کے فرضی اسماء سے بھی کئی اصلاحی اور تنقیدی مضامین لکھے ہیں۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں "وقفے" کے بجائے "اور" کا استعمال بہت کیا ہے۔ وہ مدور "ه" کے بجائے دوچشمی "ھ" زیادہ لکھتے تھے اور اپنی تحریروں میں اسماء کی متغیر حالت کو نظرانداز کرکے سالم حالت ہی میں لکھتے تھے۔ انگریزی الفاظ، مترادفات اور مقفیٰ و مسجع عبارت ان کے اسلوب کا خاصہ ہے۔ ان کی تحریریں معرب و مفرس ہیں۔ مذہبی مضامین لکھتے وقت ان کا انداز مناظرانہ ہے اور کئی متروک الفاظ بھی ان کی تحریروں کی پہچان ہیں۔ اردو مضمون نگاری کی ابتدا سر سید نے کی ہے اور انھوں نے اردو میں کئی نئی اصطلاحات بھی متعارف کیے ہیں۔ انھوں نے کئی انگریزی مضامین کے خلاصے اردو زبان میں لکھے ہیں۔ علمی مقالہ نویسی اور اردو انشا پردازی میں بھی وہ یکتا تھے۔
من حیث المجموع، سر سید احمد خان ایک عالم فاضل شخصیت تھے۔ انھوں نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی سماجی فلاح و بہبود، سیاسی خوش حالی اور معاشی ترقی کے لیے عمر بھر قلمی جہاد کیا۔ ان کی جاندار عملی زندگی اور عقل پر مبنی تحریروں کی وجہ سے وہ رہتی دنیا تک زندہ و جاوید رہیں گے۔
(مضمون کا دامن محدود نہ ہوتا تو ان کے مذید عقائد پر بھی روشنی ڈالتا۔)

