Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Fazal Tanha Gharshin
  4. Professor Faiz Muhammad Shahzad, Adhoori Muhabbat Aur Puri Mazahmat Ka Shayar

Professor Faiz Muhammad Shahzad, Adhoori Muhabbat Aur Puri Mazahmat Ka Shayar

پروفیسر فیض محمد شہزاد، ادھوری محبت اور پوری مزاحمت کا شاعر

پروفیسر فیض محمد شہزاد حاجی عبدالکریم کے ہاں بابو محلہ پشین بازار میں 1964 کو پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق توبہ کاکڑی احمد خیل کاکڑ قبیلے سے ہے اور ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں سے حاصل کی۔ انھوں نے 1980 میں میٹرک ماڈل ہائی سکول پشین سے، 1982 میں ایف ایس سی سائنس کالج کوئٹہ سے، 1984 میں بی ایس سی سائنس کالج کوئٹہ سے، 1986 میں بلوچستان یونیورسٹی سے ایم ایس سی جیولوجی اور 1988 میں ایم اے اردو کیا۔ وہ اردو میں گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ ان کی شادی 1984 میں ہوئی۔ وہ پانچ بیٹوں اور تین بیٹیوں کے والد ہیں اور ان کی ساری اولاد اعلی تعلیم یافتہ ہے۔

1986 سے 1992 تک وہ بلوچستان یونیورسٹی میں اکاؤنٹس آفیسر رہے۔ 1992 میں بلوچستان پبلک سروس کمیشن سے اردو لیکچررشپ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ہرنائی، نوشکی، کوئٹہ اور پشین میں اپنی تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ پھر ایک موزی مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے وقت سے پہلے 2023 میں ریٹائرمنٹ لے لی۔ اب وہ ایک آزاد، مگر اداس زندگی گزار رہے ہیں۔ جب بھی اور جہاں بھی ہماری آپس میں ملاقات ہوتی ہے تو ہم ایک دوسرے سے دیر تک یوں چمٹ جاتے ہیں گویا ہم دونوں میں سے ایک ابھی ابھی پرواز کرنے والا ہے۔

ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ان کو 1999 میں خیبر ایوارڈ، 2009 میں صوبائی ادبی ایوارڈ اور 2022 میں تعلیمی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ پروفیسر مجتبی حسین، پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی، ڈاکٹر فاروق احمد اور پروفیسر شرافت عباس ان کے اساتذہ رہے ہیں۔ ان کو احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، عارف افتخار، پروین شاکر اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے ملاقاتوں کا شرف بھی حاصل ہوا ہے۔

وہ زمانہ طالب علمی میں بہت سرگرم اور ترقی پسند سیاسی کارکن تھے۔ عزیز ماما ایڈوکیٹ، ڈاکٹر خدائیداد خان، سائیں کمال شیرانی اور عبدالرحیم مندوخیل ان کی پسندیدہ سیاسی شخصیات ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں کی پاداش میں ضیاء الحق کے دور میں وہ 14 مہینے مچھ جیل، دو مہینے ہدہ جیل کوئٹہ، آٹھ دن سٹی تھانہ جیل کوئٹہ، پانچ دن بجلی تھانہ جیل کوئٹہ، چار دن صدر تھانہ جیل کوئٹہ، چھے دن سریاب تھانہ جیل کوئٹہ اور تین دن سرکی روڈ تھانہ جیل کوئٹہ میں قید رہے ہیں۔

وہ اب بھی مختلف سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں اور اسی کی پاداش میں ابھی جولائی میں وہ ایک بار پھر صوبائی حکومت کے زیر عتاب آئے اور اپنے ماہانہ پنشن سے محروم ہو گئے۔ وہ جنگ اخبار کوئٹہ، جنگ میگزین لاہور، اعتراف رسالہ کراچی، جرس کراچی، الفت مجلہ پشاور، لیکوال مجلہ پشاور اور لیکنہ مجلہ کوئٹہ میں اپنے مضامین شائع کراتے تھے۔ اکاؤنٹس آفیسری سے لیکچرشپ کی طرف آنے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ علم کا بوجھ اٹھانے والے لوگ دنیا کے کسی اور بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہتے۔

ان کی مطبوعہ تصانیف میں آئینہ بلوچستان اور ھغہ سپین سپیسلی خلگ شامل ہیں، جب کہ غیر مطبوعہ میں مضامین شہزاد، شعری مجموعہ پشتو، شعری مجموعہ اردو، تنقیدی مقالات اور خاکے شامل ہیں۔

پروفیسر فیض محمد شہزاد صاحب 2016 سے 2023 تک گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج پشین میں میرے ہم پیشہ و ہم مضمون رہے۔ وہ نہایت ملنسار، حلیم الطبع اور درویش صفت انسان ہیں۔ جب میری تعیناتی پہلی بار ڈگری کالج پشین میں ہوئی تو سب سے پہلے انھوں نے مجھے وصول کیا، میری خاطر تواضع کی اور تمام تر کاغذی کاروائی میں میرے شانہ بہ شانہ رہے اور حتی کہ میرے لیے کرایہ مکان ڈھونڈنے کے لیے بھی وہ میرے ساتھ پشین میں محلہ بہ محلہ اور کوچہ بہ کوچہ گھومتے رہے۔

پروفیسر شہزاد صاحب میں وہ تمام تر خوبیاں موجود ہیں جو ایک معتدل انسان میں ہونی چاہیے۔ انسان فرشتہ نہیں بن سکتا اور اگر فرشتہ بنتا ہے تو پھر انسان کہلانے کا مستحق نہیں رہتا۔ میں چوں کہ ادب اور تدریس کے شعبے میں نو وارد تھا، اس لیے قدم قدم پر ان سے مشاورت کرنی پڑتی تھی۔ وہ دیگر پروفیسروں کے ساتھ صرف سیاسی مباحثہ کرتے تھے، جبکہ سیاست میں کوڑھ مغز ہونے کی وجہ سے میں ان کے ساتھ صرف ادبی بحث میں شریک ہوتا تھا۔ ہماری جب آپس میں بہت زیادہ نبھی تو ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنے کلام کا تبادلہ اور اس پر بحث مباحثہ کرنا شروع کیا۔ میں پشتو بحور و عروض سے واقفیت نہیں رکھتا، البتہ جب وہ اپنا اردو کلام مجھ سے بہ غرض اصلاح شریک کرتے تو مجھے بہت خفت ہوتی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میں نے ان کو اپنا اردو کلام یک جا کرنے کا مشورہ دیا تو انھوں نے اپنی گرتی ہوئی صحت کے تناظر میں معذرت چاہی اور صرف گنتی کی چند نظمیں، غزلیں اور نثری آثار میرے حوالے کیے۔

پروفیسر شہزاد صاحب کی شاعری ادھوری محبت اور پوری مزاحمت کی آمیزش ہے۔ عموماََ لوگ محبت کی تکمیل کے لیے مزاحمت کا خون کرتے ہیں، مگر انھوں نے مزاحمت کی تکمیل کے لیے محبت کی تنصیف پر سمجھوتا کرنا ایک دانش مندانہ فیصلہ سمجھا۔ مزاحمت اور محبت میں اعتدال رکھنا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے، لیکن شہزاد صاحب نے اس اعتدال کو ہاتھ سے جانے دیا ہے۔ وہ سمجھوتے کے فن سے پناہ مانگتے ہیں۔ اسی لیے کبھی سرکار اور کبھی دلدار کے عتاب کا شکار ہوجاتے ہیں۔

جو لوگ وطن اور حسن میں شرک کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں وہ اپنے جذبات و احساسات کو نقاب اوڑھانا قطعا پسند نہیں کرتے اور ان کو اپنے جذبات پر قابو بھی نہیں رہتا۔ وطن دوستی اور حسن پرستی ان ادبی مخفی توانائیوں میں سے ہیں جس کی حدت نفی جان سے شروع ہو کر قبول جہان تک پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔ اس سفر کے دوران میں محبوب کی آہ غیر کی واہ سے اور وطن کی جونپڑی اجنبیوں کے محلات سے زیادہ معتبر ثابت ہوتی ہے۔ اس قبیل کے شعرا کا سفر صرف یہاں پر ختم نہیں ہوتا، بلکہ وہ غیر کی واہ اور اجنبی کے محلات کے اسباب و محرکات کے پیچھے بھی یہاں تک پڑ جاتے ہیں جب تک اپنی آہ کو واہ میں اور جھونپڑی کو محل میں تبدیل نہ کرسکیں۔ اسی طرح شہزاد صاحب کی شاعری بھی آمر کی آمریت اور رقیب کی رقابت کے خلاف اعلان جنگ ہے۔

پروفیسر فیض محمد شہزاد نے تقدیر کو تدبیر کے ماتحت کیا ہے، خوابوں کی تکمیل کے لیے احساسات کو عذابوں کا لبادہ اوڑھایا ہے، حیاتیاتی المیے کو طربیہ میں تبدیل کرنے کے لیے زندگی کو عقوبت خانہ بنایا ہے اور دل لبھانے کے لیے منحوس ساحرہ کی رنگین یادوں سے مستقل دوستی کرلی ہے۔ اردو شاعری کی طرح ان کی پشتو شاعری بھی ادھوری محبت اور پوری مزاحمت کا استعارہ ہے۔

فنی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ان کے کلام میں روانی، لفظی شگفتگی، شعری حسن اور صوتی آہنگ کے مطابق لفظوں اور مصرعوں کی شکست و ریخت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ ان کا کلام موزوں کم اور مخیل زیادہ ہے۔ غزلوں کے سوا ان کا اکثر کلام نثری اور معری نظموں پر مشتمل ہے۔ انھوں نے بحوری مقیاسات اور عروضی پیمانوں کو خاص درخوراعتنا نہیں سمجھا ہے، جو یقیناََ ادبی محاکمے کی دوڑ میں ان کے کلام کے لیے Achilles Heel ثابت ہوگا۔ کیا اچھا ہوتا جو خیال اور وزن میں اعتدال ہوتا!

آخر میں مجھے بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اپنا زیادہ تر کلام ضائع کرکے پروفیسر فیض محمد شہزاد صاحب ادبی لغزش کا مرتکب ہوئے ہیں اور تاریخ کبھی بھی ان کی یہ لغزش معاف نہیں کرے گی!

جی میں آتا ہے مے کشی کرلوں
اپنے هر غم سے دوستی کرلوں

یہ تو ممکن نہیں تمھارے بنا
اپنی پوری میں ہر کمی کرلوں

بے حسی دیکھ کر فقط ان کی
آدمیت کی میں نفی کرلوں

زندگی کیوں نہ هو آسان مری
اس میں شامل جو سادگی کرلوں

پیٹ کی بهوک مٹانے کے لیے
قتل هو جاٶں خودکشی کرلوں

ہر طرف تیرگی کا عالم ہے
گهر جلا کر میں روشنی کرلوں

اب یہی دل میں ہے مرے ہمدم
تجھ پہ واری میں زندگی کرلوں

جب رضا ہوجائے شامل ان کی
پهر میں شهزاد بندگی کرلوں

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz