Muhabbat Ka Naqeeb Aur Jamhuriat Ka Talib, Habib Jalib
محبت کا نقیب اور جمہوریت کا طالب، حبیب جالب

حبیب جالب 24 مارچ، 1928 کو صوبہ پنجاب کے ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ آزادی کے بعد کراچی میں آبسے۔ ایوب خان اور یحییٰ خان کے دور میں متعدد بار سلاخوں کے پیچھے رہے۔ مارشل لاء کے سخت مخالف تھے۔ شعر و شاعری ان کا کل اثاثہ ہے۔ اس مرد حر نے 65 سال کی عمر میں 1993 کو ہمیشہ کے لیے ہمیں الوداع کہا۔
حبیب جالب کی غزلیں اور نظمیں فکری بنیاد پر دو الگ الگ صلیبیوں پر رقص کناں ہیں۔ عام لوگوں کو صرف ان کی مزاحمتی نظموں کے متعلق محدود آگاہی ہوگی اور اس حقیقت سے مطلق ناآشنا ہیں کہ حبیب جالب نے محبت بھری شاعری بھی کی ہے۔ حبیب جالب بنیادی طور پر دو دلوں کے مالک تھے: ایک دل اپنے محبوب کے ہاں سپرد کیا تھا اور دوسرا دل اپنے مظلوم و مجبور ہم وطنوں کے نام کیا تھا۔ ان دو دھاروں میں منقسم حبیب جالب کو ان کی تخلیقات کے سوا کہیں اور ڈھونڈنا سراب کے سوا کچھ نہیں۔
حبیب جالب نے حسین پنگھٹیں، شاداب وادیاں، گیتوں بھری بستیاں، گل پوش راہیں، برکھا رت، گھنی چھاؤں اور انگوری پیڑوں کے سایے چھوڑ کر محبوب کی تلاش اور شوق آوارگی میں شہر در شہر اڑتے پتوں کی طرح صبحیں اور شامیں گزاریں، لیکن حسرت ہے کہ کوئی غنچہ ان کو پیار سے دیکھتا یا کوئی پھول ان کو دل سے لگاتا۔ عشقِ غم کے مارے حبیب جالب پر شبنمی صبح پھوٹ پھوٹ کے روتی ہے اور اور چاندنی شام لوٹ لوٹ کے ہنستی ہے۔ اس شہر میں جالب کو سوغات میں سلگتی یاد، چمکتا درد اور فروزاں تنہائی کے سوا کچھ نہیں ملا۔
جب سورج کے ساتھ ساتھ محبوب کے ملنے کا امکان بھی ڈوب جاتا ہے تو شاعر دیارِ نغمہ و شباب، کشور غزل اور طرب کے اجنبی دیس میں پناہ گزین ہوتا ہے اور دل زار سے شکوہ کناں ہوتا ہے کہ کیوں دل سی دولت یوں بےکار لٹاتے ہو؟ کیوں اس اندھیاری بستی میں پیار کی جوت جگاتے ہو؟ کیوں ان گلیوں میں جاکر پگ پگ ٹھوکر کھاتے ہو؟ جب کہیں سے کوئی جواب نہیں ملتا تو کلیوں سے، کومل پھولوں سے اور دمکتے چاند تاروں سے مخاطب ہوکر اپنی زیست کے ظلمت کدوں کے متعلق درگاہ الہٰی میں سوال کرتا ہے کہ داورِ محشر دشمن کو بھی ایسے دن اور ایسی راتیں نہ دکھائے، جو نزہت مہتاب کے غم اور نازشِ خورشید کے ماتم کو رونق حیات اور حسن کائنات میں تبدیل کرتا ہے۔
عاشق اور رقیب کی چشمک اردو شاعری کی روحِ رواں ہے، مگر جالب نے اس روح کو نئے سرے سے متعارف کرایا ہے۔ حبیب جالب کے لیے ان کی محبوب کی گلی کے لوگ کسی دردِ سر سے کم نہیں۔ جالب کی ہاں ان کا محبوب رنگ ہے، پھول ہے، رونق حیات ہے، پیکر وفا ہے اور مجسم خلوص ہے، جب کہ اس کی گلی کے لوگ غبار ہیں، شرار ہیں، بدنام روزگار ہیں، آسمان آشکار ہیں اور ان کی نظروں پہ بار ہیں۔ جالب کو محبوب کی گلی میں سبھی کم نظر ملے۔ اسی وجہ سے جالب نے کبھی محبوب سے کھل کے دل کی بات نہیں کی۔ اپنی اس سوختہ بختی پر شام و سحر سوزاں ہے۔ ان کی زندگی کا کل متاع چمن سے اٹھتا ہوا دھواں، وفا کی کٹتی ہوئی زبان، وہم و گمان کا فروغ، دل گدازی کا پرسوز سماں، شعریت کا زیاں، توہین اہل حسن اور تضحیک اہل شوق کو مسلسل دیکھنا اور مسکرا مسکرا کے برداشت کرنا ہے۔ جالب کو شکوہ ہے کہ جب سے زندگی مشینوں میں ڈھل گئی ہے، تب سے شعر آنا بھی بند ہوگیا ہے، پیار کی روشنی بھی مدہم پڑگئی ہے اور آستینوں میں سانپ بھی پل پڑے ہیں۔
جالب کو پاس وضع کا بہت خیال تھا۔ ان کی غزلیں محبوب سے احوال کا روزنامچہ ہے۔ ان کی تخلیق کا ایک ایک لمحہ سو سال کی بے کار زندگی پر بھاری ہے۔ ان کو ان پری تمثال حسینوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی جو سکوں کے عوض بکتی تھیں۔ جالب کے پاس مال کی دولت سے زیادہ شہرت کی دولت کی فراوانی تھی۔ وہ صرف ایک دولت کی کمی کو شدت سے محسوس کرتے، یعنی دہلی شہر کی کمی۔ وہ اس کمی کو لائل پور سے پورا کرتے تھے۔ جالب کی محبوب کا سینہ محبت سے خالی تھا اور ان کی حالت کا سنبھلنا محبوب کی زلفوں کے سنبھلنے سے مشروط تھا۔
جالب کی غزلیں ان کے فراقِ یار کی ماحاصل ہیں۔ ان کی محبت بھری نظمیں "متاعِ غیر، رخصتی اور رخصتی کا گیت" دل چیرنے اور آنکھیں نم کرنے والی نظمیں ہیں۔ جب غنچہء دل متاعِ غیر بن کر سوئے صحرا چل کر رخصت ہوجاتی ہے تو بے تابیِ دل اور دردِ دل کے آگے تصور، خیال اور الفاظ خاموش تماشائی بن کر برگِ آوارہ خود تماشا بن جاتا ہے۔ ہوش میں آنے کے بعد یہی برگِ آوارہ پھولوں اور بھونروں سے فرمائش کرتا ہے کہ آؤ اس پھول کا رس چوسو اور ان کی پنکھڑیاں چھومو، لیکن وہ خود بھونرا اور پتنگا بننا نہیں چاہتا کہ وہ صرف انسان ہے اور ان کو پرخلوص محبت کی ضرورت ہے۔
جالب نے اپنی شاعری میں ہندی اور انگریزی الفاظ کا استعمال بھی کیا ہے۔ تکرار لفظی ان کے کلام کا اہم جز ہے۔ بستی بستی، گاؤں گاؤں، بھیگی بھیگی، دھواں دھواں، جپتے جپتے، شاخ شاخ، اداس اداس، بجھےبجھے، قریہ قریہ اور دیگر الفاظ کے تکرار سے ان کی شاعری گویا مصور کی تصویر کاری بن گئی ہے۔ تراکیب سازی میں جالب کسی سے پیچھے نہیں۔ غنچہ دل، شوق آوارگی، باد چمن، کوئے بتاں، دردِ تمنا، یارانِ لاہور، برگِ آوارہ، بےتابی دل، سیل انقلاب، دیارسحر، طائرِ دل، نگاہ پشیماں، متاعِ غیر اور شریک درد وغيرہ ان کے کلام کا حسن ہیں۔ ان کے کلام میں چند الفاظ ہمہ گیر اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، جیسے: آوارہ، بستی، رہگزر، گریبان، گلستاں، بجلی، منصور اور غاصب وغیرہ۔ البتہ "زلف" ان کی غزلوں کی جان ہے۔
جالب کی شاعری میں اجتماعی لاشعور نے عصر کے نفسی خدوخال کے مشاہدے کے لیے ایک مربوط علامتی نظام کو جنم دیا ہے۔ وہ تعقید پسندی اور تنقید نو کے خلاف تھے۔ ان کے مطابق نئے ادیبوں اور نقادوں نے قلم بیچ کر ادب کا خون کیا ہے۔ وہ میر، غالب، اقبال، فیض، ساحر، مصحفی، فراق، جوش، میراجی اور سبطِ حسن کے دلدادہ تھے۔
جالب نے فنی اور فکری لحاظ سے غزل اور نظم کو آپس میں گڈ مڈ نہیں کیا۔ جالب نے غزل کو غزل اور نظم کو نظم ہی کے طرز پر لکھا۔ ان کی نظم نگاری مزاحمت، عزم نو اور انقلاب کی اولین نقش ہے۔ ان کے ہاں سیاست دان فرنگیوں کے ممنون اور ڈالر کے غلام ہوتے ہیں۔ ان کو عوام اور عوامی مسائل سے کوئی دل چسپی نہیں۔ ان کی نظم "دستور" تبدیلی اور انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔ ان کے ہاں جب بائیس کروڑ جاہل عوام اپنے حقوق سے بیگانے ہوکر ان کے مستقبل کے فیصلے آمر، لٹیرے، جابر اور موروثی حکمران کریں تو جمہوریت اور حقیقی آزادی کے لیے جنگ جاری رہے گی۔ جالب کے نزدیک یہ خون خوار سیاست دان اور علمائے سو سادہ لوح عوام کو وطن، مذہب اور اسلام کے نام پر ورغلاتے ہیں، مگر اسلام خطرے میں نہیں۔ دراصل خطرے میں امریت، وراثت اور بیس خاندان ہیں۔ ان فرعونوں اور وطن فروشوں کا علاج صرف عصا سے ممکن ہے۔
وہ امریکہ سے شاکی ہیں کہ وہ قرض دے کر غریب ملکوں کی آزادی چھین لیتا ہے۔ ان کو امت مسلمہ کی زبوں حالی اور عورتوں کے استحصال کا بھی دکھ تھا۔ وہ پاک امریکہ تعلقات کے بجائے پاک روس تعلقات کے حق میں تھے۔ وہ اپنی زمین کو امریکیوں کی جنگ میں خون سے شرابور کرنے کے خلاف تھے۔ آفاقی شاعری کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر دور، ہرحالت اور ہر صدی پر صادق آتی ہے۔ جالب کی شاعری میں پاکستان کی ناگفتہ بہ سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی اور مذہبی صورت حال کی عکاسی کی گئی ہے۔ تقریباً ایک صدی ہونے کو ہے کہ جالب نے ہمیں الوداع کہا ہے، لیکن ان کی شاعری ابھی تک ہمارے ضمیروں کو جھنجھوڑ رہا ہے:
صرف چند لوگوں نے۔۔ حق تمھارا چھینا ہے
خاک ایسے جینے پر۔۔ یہ بھی کوئی جینا ہے
بے شعور بھی تم کو۔۔ بے شعور کہتے ہیں
سوچتا ہوں یہ نادان۔۔ کس ہوا میں رہتے ہیں
کب تلک یہ خاموشی۔۔ چلتے پھرتے زندانو
دس کروڑ انسانو!
زندگی سے بیگانو!
جینے کا حق سامراج نے چھین لیا
اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو
زلت کے جینے سے مرنا بہتر ہے
مٹ جاؤ یا قصر ستم پامال کرو!

