Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Fazal Tanha Gharshin
  4. Khud Ehtesabi, Masail Ke Asaan Aur Sasta Hal

Khud Ehtesabi, Masail Ke Asaan Aur Sasta Hal

خود احتسابی، مساٸل کا آسان اور سستا ترین حل

عالمی اور ملکی سطح پر رونما ہونے والے مہلک مسائل، موسمی تبدیلیاں، انسان دشمن سماجی منفی رویے، سیاسی چالیں اور معاشی بحرانوں کو حرف آخر رکھنے کے لیے طرح طرح کی حکمت عملیاں اور قانون سازیاں کی جاتی ہیں، مگر خود احتسابی کو کبھی بھی به طور حل زیر غور نہیں لایا جاتا ہے۔ خوداحتسابی در اصل ایک احساس کا نام ہے، جس میں ایک انفرادی شخص اپنے آپ کو موجود مسائل اور جرائم کی جڑ سمجھ کر تمام تر منفی رویوں سے اجتناب کرتا ہے اور بہ طور ایک ذمے دار شہری مثبت طریقوں سے اپنے فرائض سر انجام دیتا ہے۔ خوداحتسابی کے لیے جدید ٹیکنالوجی یا کثیر دولت کی ضرورت نہیں، بل کہ یہ ایک احساس ذمے داری، انسانیت اور سنیجیدگی کا نام ہے۔ خوداحتسابی میں ایک فرد ہر طرح کے ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قومی مفاد کو ترجیح دیتا ہے اور حتی المقدر کوشش کرتا ہے کہ بہ ذات خود کسی بھی طرح کے جرم یا منفی سرگرمی سے باز رہے۔

بین الاقوامی سطح پر بے لگام معاشی دوڑ نے انسانوں کو مشین بنایا، مقدار نے معیار پر فضیلت حاصل کرلی اور مادے نے اخلاقیات کو پچھاڑ دیا۔ معاصر معاشی نظام کی بنیاد اسلامی اصولوں اور انسانی اقداروں کے خلاف ہے۔ دنیا کے ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہونے کی وجہ سے انفرادی معاشروں اور انفرادی ممالک کا اپنے لیے الگ الگ انسان دوست معاشی اصول بنانا ناممکن ہوگیا ہے۔ جس کی وجہ سے عالمی معیشت ہوا کے ر خ پر چلنے لگی ہے، جن میں امیر، امیر ترین اور غریب، غریب ترین ہوتا جا رہا ہے۔ سودی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا دشوار ہوگیا ہے۔

دوسری طرف اگر به نظر غائر دیکھا جائے تو نودولتی طبقہ بھی خوداحتسابی کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ کارل مارکس کو بھی یہی فکر تھی کہ اصل کمانے والے مزدوروں کو کم اور مالک کو زیادہ دولت ملتی ہے اسی لیے عالمی بورژوا طبقے نے یورپ میں شخصی تجارتی آزادی میں عدم مداخلت (Laissez - faire) کا قانون لایا، جس کے ذریعے سرکار کو اس طبقے کے احتساب سے باز رکھا گیا۔ اسی طرح مال و دولت کی فراوانی کے جنون، شہرت کے خبط اور اقتدار کے نشے نے انسان کو خوداحتسابی سے دور کرکے ظالم اور جابر بنایا۔ حالاں کہ اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی دولت میں سے زكواة، عشر، خمس، ریاستی ٹیکس، خیرات، صدقہ، فطرانہ اور فلاحی کاموں کے لیے پیسہ خرچ کرنا ہی مالی خوداحتسابی ہے۔

اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو خوداحتسابی زندگی کے کسی شعبے میں بھی نظر نہیں آتی۔ ہر قسم کے جرائم، مسائل اور مشکلات انسان ہی کے پیداکردہ اور پروردہ ہیں۔ غربت اور بے روزگاری دراصل آمدنی اور ذرائع آمدنی کی غیر مساوی تقسیم اور میرٹ کی پامالی کی وجہ سے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں کام کے لیے لوگ تلاش کیے جاتے ہیں، جب کہ پاکستان میں لوگوں کے لیے کام تلاش کیا جاتا ہے۔ انفرادی سطح پر خوداحتسابی کے نہ ہونے کی وجہ سے نوجوانوں کی اکثریت کاہل، سست اور بے عمل رہتی ہے۔ نوجوانوں میں اپنی مدد آپ کے تحت کام کرنے کی ہمت بھی نہیں اور جو مواقع میسر ہیں ان کو اچھی طرح بروئے کار لانے کے لیے جدید سائنسی تربیت سے بھی محروم ہیں۔ حکومتی سطح پر نوجوانوں کی کماحقہ سرکاری سرپرستی نہیں کی جاتی۔ ترقی یافتہ ممالک میں غربت، افلاس اور بےروزگاری ایک انفرادی شخص کا مسئلہ نہیں، بل کہ ریاست کا مسئلہ ہوتا ہے۔

کوئی ملک بھی مسائل اور جرائم سے آزاد نہیں، جب کہ عالمی سطح پر رونما ہونے والی موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے بھی دنیا مسائل کی آماج گاہ بن گئی ہے۔

کیوٹو پروٹوکول، پارس ایگریمنٹ اور دیگر ماحولیاتی معاہدے عالمی ترقی یافتہ ممالک کی اناپرستی اور غریب ممالک کے غیر سنجیدہ ہونے کے باعث بے اثر رہے ہیں۔ پاکستان موسمی تبدیلی سے متاثر ہونے والا پانچواں بڑا ملک ہے۔ عالمی حدت دراصل غریب مالک اور غریب لوگوں کا مسئلہ ہے۔ خوداحتسابی نہ ہونے کی وجہ سے جنگلات کی کٹائی، کاربن ڈائی آکسائیڈ کا بےتحاشا اخراج اور توانائی کا ناقابل تجدید زرائع (Non-renewable resources) کا استعمال بڑھ گیا ہے، جو اوزون (O3) کی لہر اور مجموعی انسانی زندگی کے لیے خطرہ ہے۔ ہر حکوتی ڈھانچہ اور ہر فرد اس انسانی زوال کا ذمے دار ہے۔ ہر ریاستی ادارہ اور ہر شہری اپنی آنے والی نسل کے زوال کا ذمے دار ہے۔

ہماری آنے والی نسل کو زہریلی فضا، آبی قلت، غیر محفوظ معاشرہ اور تباہ حال سماجی نظام کی منتقلی کے ذمے دار آج کل کے انفرادی انسان ہیں۔ ہماری آنے والی نسل کو ایک مربوط سماجی نظام اور ایک قابل عمل سیاسی ڈھانچے کی ضرورت ہے۔ ایک انگریزی کتاب (The Death of the West) میں مصنف بچنان پیٹرک کے مطابق، مغرب کی موت کا ذمےدار مربوط سماجی نظام کا فقدان ہے۔

ہمارے معاشرے میں والدین کی اپنے بچوں کی ناقص نگرانی، بچوں کی اپنے والدین کی عزت نہ کرنا، شہریوں کی اپنے ملک سے بے وفائی کرنا، اسلامی اقدار کا زوال اور سماجی اصولوں کی ناقدری ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ اسی طرح موروثی اور خاندانی سیاسی نظام کی آبیاری کے جرم میں ملوث بھی انفرادی عوام ہیں۔ جب تک عوام خوداحتسابی نہیں کرتے، تب تک ان پر زنگ آلود سماجی اور موروثی سیاسی نظام مسلط رہے گا۔

غرض، ریاست کے ہر ادارے اور ہر شہری کی ذمے داری ہے کہ وہ خوداحتسابی کو اپنا شعار بنالیں۔ انصاف کو عام کرنے کے لیے منصفین کو بھی خوداحتسابی کی ضرورت ہے تاکہ ان کے فیصلوں سے عوام کو نقصان نہ ہو۔ اسی طرح ذرائع ابلاغ کو بھی خوداحتسابی کی ضرورت ہے تاکہ ان کی نشر کردہ خبروں میں صداقت اور غیر جانب داری برقرار رہے۔ علما اور شرفا کو بھی خوداحتسابی کی ضرورت ہے تاکہ مذہب اور عقیدے کے مقدس نام پر داغ نہ لگے۔ ادبا اور حکما کی بھی ذمےداری بنتی ہے کہ وہ ان فن پاروں کی تبلیغ و ترویج کریں جو انسان دوست ہو۔ اساتذہ کو بھی خوداحتسابی کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل زیادہ سے زیادہ مفید ہو۔ طلبہ کو بھی چاہیے کہ خوداحتسابی کے ذریعے اپنا مستقبل محفوظ بنالیں۔ عام لوگوں کےلیے بھی خوداحتسابی کو اپنانا ہوگا تاکہ ہمارے معاشرے میں رہنے والے مزدور، کسان، ڈرائیور، دکان دار، ڈاکٹر، کلرک اور آفیسر مفید اور کار آمد لوگ بن کر اس معاشرے اور سرزمین کو خوش حال اور ترقی یافتہ بنائیں۔

المختصر، کوئی معاشرہ جرائم اور مسائل سے آزاد نہیں، جب کہ ہر مسئلے کے حل کے لیے صرف حکومت اور اداروں کی طرف دیکھنا یا ان کو ذمے دار ٹھہرانا بھی دانش مندی نہیں۔ بہ حیثیت ایک انفرادی شخص یا شہری ہماری بھی بہت سی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں کو بہ خوبی نبھانا خوداحتسابی ہے۔ مسئلے اور جرائم کوئی مابعد الطبیعاتی یا خلا میں معلق چیز نہیں، یہ ہمارے پیدا کرده اور پروردہ ہیں۔ خوداحتسابی ان تمام امراض کا حل ہے۔ ہمیں ہر صورت میں اس صفت کو عام کرنا ہوگا۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari