Islam Aur Ulma e Islam
اسلام اور علمائے اسلام

ظہور اسلام کی برکت سے جزیرہ عرب سے پستی کے بادل چھٹ گئے، کیوں کہ آپ ﷺ نے اپنی قوم کی ذہنی و اخلاقی پستی کا مطالعہ کیا تھا اور اس کی اصلاح کرنا اپنی زندگی کا واحد نصب العین قرار دیا تھا۔ آپ ﷺ کے بعد خلیفہ اول کا دور فتنہ ارتداد کے استیصال میں گزرا۔ خلیفہ دوم کا دور انتظامی امور کی بہتری میں گزرا۔ خلیفہ سوم کا دور اندرونی خلفشاروں کا نذر ہوا اور اسی طرح خلیفہ چہارم کے مختصر دور میں متبعین اسلام دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئے اور بنو امیہ کے دور میں خلافت امارت میں تبدیل ہوگئی، مگر علوم و فنون کی طرف بھی توجہ شروع ہوئی۔ عہد بنی امیہ میں اعتزال اور جبر و قدر کی بنیاد پڑ گئی۔ خطابت، شاعری، تعلیم و تعلم، علوم حکمیہ، مصوری، نقاشی اور موسیقی کو ترقی مل گئی۔
عہد بنی عباس اسلام کا دور زرین ہے اور یورپ کا نشاط الثانیہ بھی اسی عہد کا ممنون ہے۔ اس عہد میں مسلمانوں نے یونان کی اہم تصانیف کا ترجمہ کیا اور طب کے شعبے میں اپنی تصانیف بھی کیں۔ عراق میں امراض چشم پر ابن ماسویہ نے "دخل العین" اور حنین بن اسحاق نے "العشر مقالات فی العین" لکھی۔ ہارون رشید، مامون اور برامکہ کا درباری طبیب "جبریل ابن بختیشوع" اپنے شعبے میں اتنا مشہور تھا کہ وہ 8 کروڑ 88 لاکھ درہم رکھتے تھے۔
دوا سازی کا فن بھی عربوں نے رائج کیا۔ جابر بن حیان، الرازی، علی طبری اور ابن سینا اس دور کے معروف اطباء تھے۔ حکمائے اسلام میں الکندی، فارابی اور ابن سینا معروف شخصیات تھے۔ اخوان الصفا کے نام سے ایک جماعت پیدا ہوئی، جس نے ریاضی، ہیئت، جغرافیہ، موسیقی، اخلاقیات اور فلسفہ پر رسائل لکھے۔ مامون کے عہد میں زمین کے طول بلد، قطر اور محیط کی پیمائش ممکن ہوئی۔ اسی طرح البیرونی، خیام، نصیر الدین طوسی، ابو معشر اور الخوارزمی نے قانون، تقویم سازی، علم نجوم اور علم حساب کے شعبوں میں نمایاں کام کیا۔ علم الحیوان پر ابو عثمان عمر ابن بحر الجاحظ نے "حیات الحیوان" لکھی۔ جغرافیہ پر ابن خوردادبہ، اسطخری نے "المسالک والممالک" لکھی۔
علم آثار قدیمہ پر حسن احمد ہمدانی نے "الکلیل" اور "صفتہ جزیرہ العرب" لکھی۔ تاریخ پر محمد بن اسحاق مدنی نے "سیرت النبی"، ابن سعد نے "طبقات"، ابن الحکیم نے "فتوح مصر و اخبار رہا" اور طبری نے "اخبار الرسل والملوک" لکھی۔ ابو الحسن مسعودی کو عربوں کا ہیروڈوٹس کہا جاتا ہے۔ تذکرہ نگاری میں یاقوت، ابن عساکر اور ابن خلکان قابل ذکر مصنفین ہیں۔ صحاح ستہ اسی زمانے میں مرتب ہوئیں اور فقہ کی تدوین بھی ہوئی۔ اختلاف احادیث کی بنا پر چار فقہی مسالک: حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی پیدا ہوئے۔ خالص ادب کی ترقی اسی دور میں جاحظ سے شروع ہوئی۔ ابو نواس، ابو تمام، ابو عتاہی، ابن ورید، بشا بن برو وغیرہ اس دور کے ممتاز شعرا ہیں۔ تعلیم و تعلم کے لیے امین نے بغداد میں بیت الحکمتہ اور نظام الملک طوسی نے مدرسہ نظامیہ قائم کیا۔ اس دور میں فن تعمیر، نقاشی، مجسمہ سازی، خطاطی اور موسیقی کو بھی خوب ترقی ملی۔
حکومت اندلسیہ 656-1030، میں مسلمانوں نے کافی ذہنی ترقی کی۔ ادویات اور لغت نویسی میں پروفیسر القالی اور محمد ابن الحسن زبیدی مشہور ہیں۔ علی ابن حزم 400 کتب کے مصنف تھے۔ قرطبہ، غرناطہ، اشبیلیہ اور ملاغا اس وقت کے معروف جامعات تھے۔ متعدد لائبریریاں وجود رکھتی تھیں۔ ابن قوطیہ اور ابن حیان مشہور مورخ تھے۔ غافقی اور ابو ذکریا ابن قدام مشہور ماہر نباتیات و عقاقیر تھے۔ ابن رشد، ابن میمون، ابن باجہ اور ابن طفیل مشہور فلسفی اور طبیب تھے۔
اندلس دستکاری اور فن تعمیر میں مشہور تھا۔ ذریاب اور ابن فرناس معروف موسیقار تھے۔ 13 صدی عیسوی کے آخر تک علمائے اسلام کے تمام کارنامے یورپ کی زبانوں میں منتقل ہو گئے اور یورپ میں علمی بیداری شروع ہونے لگی۔ ڈچ سیاح ڈوزی کا دعوی تھا کہ اندلس میں اس وقت تقریباََ ہر شخص لکھنا پڑھنا جانتا تھا۔ 567 سے 1171 تک فاطمی دور میں مصر میں شعر و شاعری کے سوا کوئی خاص علمی ترقی نہ ہوئی، البتہ المعز کا دور شان دار رہا۔ ابن الہیثم اور عمار الموصلی نے اس دور میں بصریات پر کافی کام کیا۔
1169 سے 1250 تک ایوبی خاندان کا دور اکثر صلیبی لڑائیوں اور خانہ جنگیوں میں گزرا، مگر انھوں نے شیعیت کے خاتمے کے لیے کئی مدرسے قائم کیے۔ سلاطین مملوک کا دور 1250 سے 1397 تک تھا، جو زوال کا دور تھا۔ انھوں نے طب، ریاضی اور ہیئت کو بہت اہمیت دی۔ اس دور میں تاریخ میں ابو فداء، ابن تغری بروی، سیوطی اور مقریزی نے نام کمایا۔ دینیات میں ابن تیمیہ اور ابن حجر عسقلانی نے خوب کام کیا۔ ادبیات، فن تعمیر اور تہذیب و معاشرت پر بھی اس دور میں توجہ دی گئی۔ غزنوی اور اس کے فرمان روا کی حکومت 962 سے 1186 تک 220 سال رہی۔ اس دور میں شعر و ادب اور علوم و فنون نے خاصی ترقی کی۔ غزنوی خود اکابر علم و فضل کے بہت قدردان تھے۔ البیرونی، ابو محمد، شیخ نظامی اور سید حسن غزنوی اسی دور کی شان و شوکت تھے۔
آل بویہ 932 سے 1015 تک کا تخت شیراز تھا۔ اس دور میں نہریں، مساجد، شفا خانے اور کتب خانے قائم کیے گئے۔ مسکویہ اور اخوان الصفا اسی زمانے میں پائے جاتے تھے۔ سلاجقہ، 1037 سے 1156 تک کے دور میں مساجد، سڑکیں، نہریں، کاروان سرائے اور رفاہ عام پر بہت کام ہوام نظام الملک نے مدرسہ نظامیہ کی بنیاد بھی ڈالی۔ اس کے بعد خوارزم شاہی دور 155 سال تک رہا، جو چنگیز خان کے ہاتھوں ختم ہوا۔ اس دور میں علم و فن کی خدمت کے آثار نہیں ملتے ہیں۔
آخر میں ہندستان کے حکمران خاندان 1048 سے 1857 تک برسر اقتدار رہے۔ اس دور میں علوم و فنون کی ترقی کے آثار نہیں ملتے۔ اس دور کے علماء انتہائی متعصب اور مذہبی تھے۔ انھوں نے نئی تصنیف و تالیف کے بجائے قدیم کتابوں کی شرح و حواشی کو زیادہ اہمیت دی۔ شعر و نغمہ کو البتہ بہت شہرت ملی، مگر مجموعی طور پر ہندستان کے حکمران اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کے اہل نہ رہے۔
نوٹ: زیر نظر تحریر علامہ نیاز فتح پوری کی کتاب "اسلام اور علمائے اسلام" کے پہلے حصے کا خلاصہ ہے۔

