Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Fazal Tanha Gharshin
  4. Imame Se Imame Tak

Imame Se Imame Tak

عمامے سے عمامے تک

عماد جب دن بھر کی پرمشقت محنت و مزدوری کے بعد تھکا ماندہ گھر لوٹتا، تو سوچتا: "کاش میں بھی تعلیم یافتہ ہوتا یا کسی ہنر کا مالک ہوتا تو آج آرام کی زندگی بسر کرتا"۔

عماد کو والدین نے میٹرک کے بعد مدرسہ بھیج دیا تھا اور اس نے بادلِ نخواستہ مدرسے میں پانچ چھے سال گزارے تھے۔ درجہ چہارم تک دینی کتابیں پڑھیں اور پھر مدرسے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے پہلے ہی خیرباد کہا۔ مدرسے کا ماحول عماد کے باغی اور رنگین مزاج سے کسی طور ہم آہنگ نہ تھا۔ اس کے والد کی خواہش تھی کہ اس کی شادی اور دستار بندی ایک ساتھ ہو، مگر عماد کے بے تاب دل نے والد کا پورا منصوبہ خاک میں ملا دیا اور شادی کرلی۔ یوں اس نے درجہ چہارم ہی میں شادی کرنے کے بعد کبھی مدرسے کا رخ نہ کیا۔

عماد کے ہاں بچے سالانہ کے حساب سے پیدا ہونے لگے۔ آبادی میں مسلسل اضافے اور بیوی کی گرتی ہوئی صحت نے عماد کو پریشان کرنا شروع کیا تھا۔ ایک طرف گھر میں فاقوں اور بیماریوں کا راج تھا، دوسری طرف عماد کی جنسی تشنگی برابر بڑھتی جارہی تھی۔ مدرسہ چھوڑنے کے بعد وہ صوم و صلوات سے بے نیاز ہوچکا تھا اور عمامہ پہننا بھی کب کا بھول چکا تھا۔ وہ کبھی ڈاڑھی چھوٹی کرتا کبھی لمبی رکھتا، کبھی سفید ٹوپی پہنتا کبھی بلوچی ٹوپی پہنتا اور کبھی کرتا کپڑے پہنتا کبھی گول دامن والے کپڑے پہنتا۔ کوئی اس کو ملا عماد آخند اور کوئی اس کو عماد لالا کے نام سے پکارتا تھا۔

عماد بچپن ہی سے اگرچہ ذہین نہیں تھا، مگر شریر ضرور تھا۔ اس نے ایک عرصے سے گاؤں کے عقب میں رہنے والی ہندو برادری پر اپنی توجہ مرکوز رکھی تھی۔ یہ عشروں سے یہاں رہنے والی ایک معزز ہندو برادری تھی، مگر گوپال اور اس کی بیوی چندنی کے حرکات و سکنات مشکوک تھے اور پوری برادری کے لیے کلنک کا ٹیکہ بنے ہوئے تھے۔ عماد نے چندنی کے ساتھ پینگیں بڑھائے تھے اور اب وفاداری بہ شرط استواری برقرار تھی۔ چندنی کے سنگھار اور گوپال کے دارو کا خرچہ اب عماد اٹھانے لگا تھا۔ اب عماد اور گوپال یک جان دو قالب ہوگئے تھے۔

مشکل تب آن پڑی جب عماد کی مشکوک سرگرمیوں پر اپنی بیوی نے شک کیا کہ اور شکوہ کیا کہ وہ کب سے اپنی بیوی اور بچوں کو نظرانداز کر رہا ہے۔ گھر میں میاں بیوی کے جھگڑے روز کا معمول بن گئے۔ بالآخر، گھر کے بڑوں نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ عماد اپنی محنت و مزدوری کی رقم اور پورا حساب کتاب اپنی بیوی کے ساتھ شریک کرتا رہے گا اور ایسا ہی ہوتا رہا، لیکن اس کا عماد اور گوپال کی دوستی پر نہایت منفی اثر پڑا۔

عماد کو چھریرے بدن اور ابھرے کولہے والی عورتیں بہت پسند تھیں۔ وہ ہمیشہ پرآسائش اور پرتعیش زندگی گزارنے کے لیے مختصر ترین راستے ڈھونڈنے کی سوچتا تھا۔ وہ ہمیشہ سوچتا کہ کاش اس کی اچھی ملازمت ہوتی، بڑی تنخواہ ہوتی، سماج میں عزت ہوتی اور کم سے کم چھریرے بدن اور بھرے کولہے والی بیوی ہوتی۔ وہ ممکنہ طور پر آسانی سے اور جلد سے جلد ایک کامیاب شخص بننے کے لیے سرگردان تھا۔ وہ ہمیشہ سوچتا تھا: "کیا میں اسکول استاد بن سکتا ہوں، نہیں، کلرک، نہیں، دکان دار، نہیں، کاروباری فرد، نہیں، مُلّا، مُلّا، مُلّا۔۔ زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!"

جب بھی وہ دوبارہ مُلّا بننے کی بابت سوچتا، تو یوں ہی گاؤں کے امام مولوی فصیح الدین صاحب سے پہلے دل ہی دل میں حسد کرتا پھر مقابلے پر اتر آنے کا سوچتا تھا۔ اب عماد کو سوائے دوبارہ مُلّا بننے کے اور کوئی رستہ نہیں بچا تھا، مگر یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوتا؟ دوبارہ اچانک مُلّا بننا اور مُلّا کا حلیہ اپنانا عماد کے لیے ایک امتحان تھا۔ عماد سوچتا کہ اچانک ایک مُلّا کا حلیہ اپنانا صرف حج پر جانے یا عمرہ ادا کرنے، اعتکاف میں بیٹھنے اور چالیس دن تبلیغ پر جانے کے بعد یا کم سے کم عیدین کے مواقع پر عمامہ باندھنے سے ممکن ہے، مگر اتنی لمبی منصوبہ بندیاں اس کے مزاج کے خلاف تھیں۔ وہ جلد سے جلد کچھ نیا، عجیب اور انوکھا کرنا چاہتا تھا۔ عماد نے چپکے سے آہستہ آہستہ داڑھی بڑھانا، عمامہ پہننا، کرتا پہننا، نماز باجماعت ادا کرنا، اقامت کرنا، مُلّا کی غیر حاضری میں امامت کرنا اور فاتحہ خوانی کے مواقع پر لمبی قرات اور دعا پڑھنا شروع کیا تھا۔ عمامے سے عمامے تک کا گول سفر کامیابی سے جاری تھا۔

بیوی کے ساتھ حساب کتاب شریک کرنے کے بعد عماد سے گوپال اور چندنی کی شکایتیں بڑھتی جارہی تھیں۔ اب ان کے درمیان معاملہ ادھار تک آیا تھا۔ ایک دن جب گوپال نے بڑی شد و مد سے عماد سے پچھلے تین مہینوں کا حساب مانگا تو وہ بپھر گیا: "ایک تو تم ہندو لوگ فحاشی بھی پھیلاتے ہو اور اوپر سے پیسےبھی مانگتے ہو"۔

گوپال نے جواب دیا: "تمھارے مسلمانوں کا بھی کوئی بھروسا تو نہیں، یہ بھی کرتے ہو اور وہ بھی کرتے ہو۔ تم بھی خود کو مسلمان کہتے ہو؟"

(اس دوران میں اطراف سے کئی لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ عماد اور گوپال دونوں نہیں چاہتے تھے کہ راز افشاں ہو۔)

عماد غرّایا: "بات کو اسلام تک نہ لے جاؤ۔ مسلمان کو گالی دینا اسلام کو گالی دینا ہے اور اسلام کو گالی دینا خدا اور رسول کو گالی دینا ہے۔ تم نے اسلام کی توہین کی ہے اور واجب القتل ہو تم۔ نعرہ تکبیر!"

اللہ اکبر! منہ میں جھاگ اٹھائے بلوائیوں نے آن ہی آن میں گوپال کو زمین پر چاروں شانے چت کیا۔ اس دوران میں مولوی فصیح الدین صاحب بھی مسجد سے نکل آیا، جائے وقوعہ پر پہنچا، معاملے کا بہ غور جائزہ لیا، حادثے کی تفتیش کا حکم دیا اور بلوائیوں کو منتشر کرنے کی بھرپور کوشش کی، مگر عماد نے بڑی چابک دستی سے مولوی فصیح الدین صاحب کو گستاخ اسلام کا طرف دار اور غدار ٹھہرایا اور بلوائیوں کو ان کے خلاف اکسانا شروع کیا۔ غصے سے بپھرے بلوائیوں نے فوراً گوپال سمیت پوری ہندو برادری کو گاؤں سے دور پہاڑوں پر بھیجنے، مولوی فصیح الدین صاحب کو امامت سے برخواست کرنے اور مُلّا عمادالدین آخند زادہ کو اپنا نیا اور تاحیات امام منتخب کرنے کا حکم صادر کیا۔

اگلے جمعے کو خطبے کے دوران میں مُلّا عمادالدین آخند زادہ نے اعلان کیا: "گوپال سمیت پوری ہندو برادری خوشی سے واپس گاؤں آسکتے ہیں۔ اسلام ہمیں امن، بھائی چارے اور معافی کا درس دیتا ہے"۔

وہ اور گوپال پھر سے یک جان دو قالب ہوگئے تھے۔

Check Also

Hum Mein Se Log

By Najam Wali Khan