Haji Form 47 Aaka
حاجی فارم 47 آکا

عبدالقادر بچپن ہی سے پڑھائی میں کمزور تھا۔ خدا خدا کرکے اس نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا، جب کہ کالج پڑھنا اس کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ تاہم والدین کے عتاب سے بچنے اور بے روزگاری سے نمٹنے کے لیے عبدالقادر نے شہر میں مناسب اجرت پر کسی پرچون اسٹور پر کام کرنا شروع کیا۔ بہت قلیل عرصے میں عبدالقادر نے دکان داری کے تمام اسرار و رموز سیکھ لیے اور سیٹھ جی کی آنکھوں کا تارا بن گیا۔
عبدالقادر کے اکثر ہم جماعتوں نے کالج میں داخلہ لیا تھا اور صبح سویرے وہ اکٹھے شہر آتے اور شام کو واپس اکٹھے گاؤں جاتے۔ اپنے ہم جماعتوں کو صاف ستھرا کالج یونیفارم میں دیکھنے سے عبدالقادر کی پہلے حوصلہ شکنی ہوتی تھی، مگر بعد میں وہ آہستہ آہستہ ماحول کے مطابق ہو گئے اور محنت و مزدوری اس کی پہچان بن گئی۔ اس کے تمام پرانے ہم جماعت کالج چھٹی ہونے کے بعد اس کے سٹور پر آتے، اپنی کتابیں اور دیگر سامان اس کے پاس امانت رکھ لیتے اور حتی کہ اپنے گھروں کے لیے اشیائے خورد و نوش بھی عبدالقادر کے سٹور سے لیتے۔ یہ عبدالقادر اور سیٹھ دونوں کے لیے حوصلہ افزا پیش رفت تھی۔
وقت گزرتا گیا۔ عبدالقادر کے کئی ہم جماعت بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہو گئے، مگر وہ ابھی تک پرچون سٹور پر ایک عام ملازم کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ عبدالقادر صابر اور شاکر انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایمان دار بھی تھا، لیکن جب اس کا کوئی سرکاری ملازم دوست اس کے سٹور پر سودا سلف لینے آتا تو عبدالقادر کو تھوڑی دیر کے لیے اپنی کسمپرسی پر دلی خلش ہوتی، مگر چند ثانیوں کے بعد یہ کیفیت خود بخود ختم ہوجاتی۔ اب وہ خدا سے اکثر اپنی دکان کے مالک ہونے کی دعائیں مانگنے لگا تھا۔ خدا کا کرنا تھا کہ سیٹھ جی کو زیادہ معمر ہونے کی وجہ سے فشار خون، ذیابیطس اور نقص نظری کی بیماری لگ گئی۔ سیٹھ جی کو یقین ہوگیا تھا کہ اس کے دن گنے جا چکے ہیں، کیوں نہ اپنے کاروبار اور جائیداد کو اپنی زندگی ہی میں اپنی اولاد میں برابر تقسیم کرکے تمام ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو جاؤں۔
سیٹھ جی نے ایسا ہی کیا اور ساتھ ہی نصیحت کی کہ عبدالقادر اس کا ایک ایمان دار ملازم ہے اس کو خالی ہاتھ مزدوری سے نکالنا معیوب بات ہے، لہذا بہتر یہ ہے کہ اس کو کچھ نقد رقم بہ طور زکوۃ، خیرات یا قرض دیں تاکہ وہ اپنا کاروبار شروع کر سکے۔ ایسا کرنے سے عبدالقادر کا بھی بھلا ہوگا اور خدا بھی راضی ہوگا۔ عبدالقادر کی ایمان داری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی، سو ایسا ہی ہوا۔ اس کے تمام سرکاری ملازم دوستوں، بہی خواہوں اور اس کے گاٶں والوں نے اس کی دکان سے سودا لینا شروع کیا۔ بہت کم عرصے میں عبدالقادر نہ صرف شہر کا ایک معروف تاجر بن گیا، بلکہ ایک دنیا اس کی مقروض ہوگئی۔ دولت کی ریل پیل ہوگئی۔ عبدالقادر نے نئی گاڑی خریدی، نیا گھر بنایا، حج کیا، ضیافتیں شروع کیں، مختلف پروگراموں میں مہمان خصوصی ہوتا تھا، وہ مخیر آدمی بن گیا اور مقامی سطح پر چھوٹے چھوٹے تنازعات کے فیصلے بھی کرنے لگا۔ اب وہ ملک حاجی عبدالقادر آکا سے مشہور ہو گئے اور اس کی شہرت چہار دانگ پھیل گئی۔
وقت گزرتا گیا اور انتخابات سر پر آگئے۔ ملک حاجی عبدالقادر آکا کو ایم پی اے بنانے کی سوجھی، بہ طور آزاد امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کیے، اپنے پرانے پڑھے لکھے اور سرکاری ملازم دوستوں کو ساتھ ملا کر خوب کمپین کیا، پیسے کو پانی کی طرح بہایا اور کامیاب ٹھہرے۔ اب وہ ایم پی اے وزیر خزانہ الحاج ملک حاجی عبدالقادر صاحب سے مسمی ہو گئے۔
اپنی وزارت کے پہلے دو سال انھوں نے خوب ترقیاتی کام کیے۔ پھر ان کو بدعنوانی کا چسکا لگ گیا۔ انھوں نے فاتحہ خوانیاں اور مبارک بادیاں چھوڑ دیں۔ وہ شہری زندگی کے عادی ہوگئے اور پھر وہ کہیں نظر نہیں آئے۔ پانچ سال پورا ہونے پر عوام ان سے بد ظن ہونے لگے، نیب نے ان کے خلاف تحقیقات شروع کردیں اور یوں وہ انتخابات ہار گئے۔ مگر ملک حاجی عبدالقادر صاحب ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھے۔ وہ کبھی اسلام آباد، کبھی پنڈی اور کبھی کوئٹہ میں ہوا کرتے تھے۔ ایک دفتر میں داخل ہوتے اور دوسرے سے نکلتے تھے۔ اب وہ عوام کے لیے مکمل اجنبی اور قصہ پارینہ بن چکے تھے۔ پانچ سال گزر گئے۔ نئے انتخابات سر پر آگئے اور وہ ایک بار پھر آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات لڑنے لگے۔ مگر اس بار ان کے ساتھ کوئی ووٹر نہیں تھا اور نہ ہی انھوں نے کوئی کمپین چلائی۔
انتخابات ہو گئے۔ کسی نے ان کو ووٹ نہیں دیا، مگر اگلی صبح الیکشن کمیشن نے فارم 47 کے ذریعے الحاج ملک عبدالقادر صاحب کو بھاری اکثریت سے کامیاب قرار دے دیا تھا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ بعد اذاں وہ حاجی فارم 47 آکا سے مشہور ہو گئے۔ واللہ اعلم بالصواب!

