Afsana Bila Unwan Par Aik Tanqeedi Nazar
افسانہ "بلا عنوان" پر ایک تنقیدی نظر

بلوچستان میں افسانوی ادب اپنے جغرافیے، سماج اور آب و ہوا سے مکمل ہم مزاج اور مماثل ہونے کی وجہ سے ہم عصر ادب میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ کثیر اللسانی ہونے کے باوجود اس خطے نے نہ صرف مقامی ادب میں اپنی مقامیت کو محفوظ کیا ہے، بل کہ اردو ادب میں بھی بلوچستانیت کو قومی سطح پر خوب متعارف کرایا ہے۔ بلوچستانیت کی اس مہم میں ڈاکٹرضیاء الرحمن ایک بڑا معتبر نام ہے اور ان کے افسانے "بلا عنوان" کو اس ضمن میں ایک بہترین افسانہ بھی کہا جا سکتا ہے۔
ان کے افسانوں کے موضوعات عموماََ دیہاتی اور شہری زندگی کے درمیان معلق افراد کے متعلق ہیں۔ انھوں نے ایسے افراد کے متعلق لکھا ہے جو جسمانی لحاظ سے سائنس، ٹیکنالوجی اور رجعت پسندی کے دور میں رہتے ہوں، بل کہ ذہنی لحاظ سے قدیم پتھر کے زمانے سے تعلق رکھتے ہوں۔ انھوں نے مرد رخی قبائلی نظام کے خلاف خوب لکھا ہے اور اس کا حل صرف صنف نازک کو صنف آہن نے تبدیل کرنے میں بتایا ہے۔
افسانہ "بلا عنوان" میں ایک خاندان کی تین نسلوں کی کہانی ہے، جو نہ صرف قبائلی جنگ جھگڑوں اور غربت کی وجہ سے مسلسل معدوم ہوتی جا رہی ہیں، بل کہ کئی عشروں سے شہر میں رہنے کے باوجود وہ تہذیب و تمدن سے عاری رہتی ہیں۔ افسانے میں خالص بلوچستانی ماحول کا خاکہ کھینچا گیا ہے، مگر افسانہ کے کرداروں کے اسماء، مزاج اور منظر نگاری سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کہانی پشتو معاشرے کے تلخ حقائق پر مشتمل ہے۔ یعنی ولی جان اور شاہ تاج کا بچپن میں رشتہ طے ہونا، قبائلی تنازعات میں ولی جان کے خاندان کے سات افراد کا قتل ہوجانا، ولی جان کے ہاں دو بیٹیوں کی پیدائش پر کسی قسم کا جشن نہ منانا۔
قبائلی تنازعات کی وجہ سے ولی جان کا تعلیم سے محروم ہو کر عام چپڑاسی بننا، فارغ اوقات میں روزی روٹی کمانے کے لیے بھینسوں کی خدمت کرنا اور باڑے میں رہائش اختیار کرنا، شاہ تاج کی کشیدہ کاری کرنا، اکلوتے بیٹے کی پیدائش پر خوب جشن منانا، انسان کا اپنی غربت جلد بھول کر اپنی اوقات میں نہ رہنا، معمولی معمولی باتوں پر مردانہ غیرت کا جاگ اٹھنا، غیرت کے نام پر اپنی بہن اور بہنوئی کو قتل کرنا، شہر کی بے ہنگم زندگی میں لاپرواہ رہنا اور سب سے بڑھ کر خوشی اور غم دونوں مواقع پر بندوق کا استعمال کرنا اس دعوے کی تصدیق ہے کہ افسانہ "بلا عنوان" نے بلوچستانیوں خصوصا پشتون معاشرے کی خوب جراحی کی ہے۔
دوسری جانب افسانے میں بلوچستانی عورتوں کو بہت بردبار، سلیقہ شعار، تعلیم دوست، امن پرور اور دور اندیش دکھایا گیا ہے۔ سلیقہ شعار شاہ تاج، مہذب سکول ہیڈ مسٹرس اور مددگار استانیوں کا کردار لائق تحسین ہے، جس پر بجا طور پر فخر کیا جا سکتا ہے اور یہ بلوچستان کا اصل چہرہ بھی ہے۔
افسانے میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایک خاندان صرف برائے نام غیرت مند مرد حضرات کی وجہ سے مسلسل مشکلات کا شکار رہتا ہے۔ پھر ایک ہوشیار اور بردبار عورت کی وجہ سے یہی خاندان ترقی و تعلیم کی راہ پر گامزن ہوتا ہے، مگر بعد میں دوبارہ اسی خاندان میں ایک اور غیرت مند مرد زرک خان پیدا ہوتا ہے اور اس خاندان کا امن و سکون ہمیشہ کے لیے تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔
اگر خاندانوں کی توانائیاں جنگ جھگڑوں کے بجائے تعلیم و تربیت پر خرچ ہوتیں، لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم و تربیت میں فرق نہ کیا جاتا اور غیرت و مردانگی کے جال میں لوگ نہ پھنس جاتے، تو آج بلوچستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔
مجموعی طور پر یہ ایک المیہ اور سبق آموز افسانہ ہے اور بلوچستانیت کے باب میں ایک اہم اضافہ بھی ہے۔

