Saturday, 14 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Khula Tazad

Khula Tazad

کھلا تضاد

اس ملک کا المیہ رہا ہے کہ نچلے طبقے کی آواز پر کان نہیں دھرے جاتے۔ اشرافیہ جو اس ملک کی کرتا دھرتا ہے ان کے لئے یہ طبقہ کیڑے مکوڑے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب یہ طبقہ ایوان اقتدار میں پہنچتا ہے تو فرعونیت کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے۔ ملکی تاریخ میں شاید جس قدر نچلے طبقے کو معاشی ضرب لگی ہے، پہلے نہ لگی ہو۔

چھوٹے کسان کو رگڑا دیا گیا ہے۔ سب کو پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ مشکل بلز کی ادائیگی کرنا ہے۔ جو ہر ماہ خون نچوڑ کے کی جاتی ہے۔ یہ پسا ہوا طبقہ روز موجودہ حکومت کو کوستا ہے۔ پتہ نہیں کیوں حکومت اس طرف دھیان نہیں دے رہی۔

جب اس ملک میں چنگ چی کو متعارف کروایا گیا تو کسی نے بھی اس وہیکل پر سوال نہیں اٹھائے کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ بلکہ اس صنعت کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے جب یہ ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر گئی۔ متوسط طبقے کو ایک روزگار مل گیا تو حکومت اس وہیکل کو رجسٹرڈ کرنے سے انکاری ہوگئی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس چاند گاڑی میں مزید اچھی تبدیلیاں لائی جاتی جو انجنئیرنگ میں غلطیاں تھی وہ دور کر دی جاتی اس کو مزید سفر کے لئے موزوں اور آرام دہ بنایا جاتا تا کہ نچلے طبقے کے لئے جو کہ یہ ایک بہت اچھا روزگار تھا۔ اس کو صرف چالان اور ریونیو بڑھانے کا ذریعہ بنا لیا گیا۔

چاند گاڑی بنانے والوں نے جب دیکھا کہ حکومت صرف چنگ چی چلانے والوں کو ٹارگٹ کر رہی ہے تو انہوں نے ایک اور ماڈل متعارف کروا دیا جس کو لوڈر رکشہ کا نام دیا گیا۔ اب سوال یہ بنتا ہے کہ اس کو بنانے اور بیچنے کا اختیار کس نے دیا؟

کیا قوانین کا اطلاق صرف عام آدمی کے لئے رہ گئے ہیں۔ جب ایک غیر قانونی چیز بن رہی تھی اور سر عام بک بھی رہی ہے تو اس پر ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا؟ جب کوئی غریب غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی جمع پونجی بیچ کر روزی روٹی کا کوئی سلسلہ شروع کرتا ہے چاہے وہ چنگچی کی شکل ہو یا لوڈر رکشہ کی شکل میں سڑک پر نکل کر ٹریفک وارڈن کے زیر عتاب آ جاتا ہے اور جو سلوک ان سے کیا جاتا ہے وہ ہم روز مشاہدہ کرتے ہیں۔ وہ غریب بندہ روز اتنے کما نہیں پاتا جتنا اس کو حکومت کو جرمانہ کی مد میں ادا کرنے پڑ جاتے ہیں۔ ایسے میں کیا وہ حکومتی زعماء کو دعائیں دے گا؟

ہمارے اداروں کا عمومی رویہ یہی دیکھا گیا ہے کہ پہلے یہ ستو پی کر سوئے رہتے ہیں جب کوئی افتاد پڑتی ہے تو ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتے ہیں۔ پھر غریب کی شامت آ جاتی ہے۔ ان لوگوں کے لئے ہر سڑک شجرہ ممنوعہ بنا دی جاتی ہے۔ ایک چیز جو قانون اور قاعدے میں موجود نہیں اس کو بنانے ہی کیوں دیا جاتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں جو لوگ یہ وہیکلز بنا رہے وہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہوں اور حکومت ان کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتی؟

اگر ایک چیز مارکیٹ میں بن رہی ہے اور بک بھی رہی ہے اور عام خلق خدا اس سے روزگار بھی کما رہی ہے تو اس کو قبول کرنا چاہئے اور اس کے لئے قانون سازی کرکے لوگوں کے لئے آسانی کا باعث بننا چاہئے اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر عام عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگی کہ یہ ملک ان کے لئے نہیں ہے صرف اشرافیہ کے لئے ہے۔ جہاں غریب کے لئے اور قانون امیر کے لئے اور قانون اور پھر اس سے ان لوگوں کے بیانئے کو بھی تقویت ملتی ہے جو کہتے ہیں کہ ایک نہیں دو پاکستان۔

حکومتی ایوانوں میں بیٹھے ہوئے کرتا دھرتاؤں کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ نچلے طبقات میں معاشی بے چینی بڑھ رہی ہے۔ نا انصافی کا چلن عام ہو رہا ہے۔ اگر یہ طبقہ اپنا حق لینے کے لئے کھڑا ہوگیا تو جو مناظر ہم بیرونی دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے گھر کے دروازے پر بھی دستک دے سکتے ہیں۔ جتنا جلد ممکن ہو عام انسان کے لئے آسانی پیدا کی جائے تا کہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے۔ عام آدمی کو اسٹاک ایکسچینج کے اوپر جانے سے کوئی سروکار نہیں اس کو تو روز کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ کما کر گھر لے جانا ہوتا ہے پر بدقسمتی سے ٹریفک وارڈنز ان سے وہ بھی چھین لیتے ہیں چالان کی شکل میں۔

عام انسان یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ کیا یہ کھلا تضاد نہیں کہ لوڈر رکشے تیار کرنے پر پابندی نہیں پر خرید کے روزی کمانے کے لئے اس کو سڑک پر لانا بہت بڑا جرم ہے؟

Check Also

Aisa Nahi Hota

By Khateeb Ahmad