Qurbani Karne Wale Ke Liye Baal o Nakhun Na Katna
قربانی کرنے والے کے لیے بال اور ناخن نہ کاٹنا
آج مملکت خداد پاکستان میں 30 ذی قعدہ ہے، بہت سے احباب اسی نسبت سے "قربانی کرنے والے کے لیے ذی الحجہ کی یکم تاریخ سے بال اور ناخن نہ کاٹنے کے حکم" كے بارے میں اور اس كی حكمت كے بارے میں جاننے کے لیے سوالات کررہے ہیں مناسب سمجھا کہ آسان اور عام فہم الفاظ میں مختصر تحریر آپ کی خدمت میں پیش کی جائے جس میں مختصر تمام چیزیں موجود ہوں، درج ذیل اختصار اور عام فہم انداز میں فضیلت، حکمت کو ذکر کیا گیا ہے۔
قربانی کرنے والے کے لیے ذی الحجہ کی یکم تاریخ سے بال اور ناخن نہ کاٹنے کےحکم۔
"حدثنا ابن أبي عمر المكي، حدثنا سفيان، عن عبد الرحمن بن حميد بن عبد الرحمن بن عوف، سمع سعيد بن المسيب، يحدث عن أم سلمة رضي الله عنها، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا دخلت العشر، وأراد أحدكم أن يضحي، فلا يمس من شعره وبشره شيئا، قيل لسفيان: فإن بعضهم لا يرفعه، قال: لكني أرفعه۔
اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہؓ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نےارشاد فرمایا:
"جب ذو الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ اپنے بال، ناخن یا کھال کا کچھ بھی حصہ نہ کاٹے، جب تک قربانی نہ کردے"۔ (صحيح مسلم ج: 3، ص: 1565، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)
دوسری روایت میں ارشاد فرمایا: "اذا رایتم ہلال ذی الحجۃ واراد احدکم ان یضحی فلیمسک عن شعرہ و اظفارہ"۔
جب کسی شخص کا قربانی کا ارادہ ہو تو وہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوتے ہی اپنے بال و ناخن کٹوانے سے پرہیز کرے۔ (مسلم، حدیث نمبر 3662)
قربانی کا فلسفہ اور اس حکم کی حکمت۔
درحقیقت قربانی تو جان کی قربانی ہی تھی، جیساکہ حضرت اسماعیلؑ کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے کہ اصل قربانی تو جان نثاری اور جان سپاری کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت سے یہ قربانی جان سے ٹال کر مال کی طرف منتقل کی۔ پھر یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مالی قربانی صدقے کی صورت میں مقرر کردی جاتی، لیکن اس طرح انسان کو اپنی جانی قربانی کی طرف توجہ اور اس کا استحضار نہ ہوتا۔
اس غرض کے لیے ایسی مالی قربانی مقرر کی گئی جس میں جانور قربان کیا جائے، تاکہ مالی قربانی میں بھی جانی قربانی کی مشابہت موجود ہو اور معمولی احساس رکھنے والاانسان بھی بوقتِ قربانی یہ سوچے کہ اس بے زبان جاندار کو میں کس لیے قربانی کر رہا ہوں؟ اس کا خون کیوں بہا رہا ہوں؟ جب یہ احساس اس کے اندر پیدا ہوگا تو اسے استحضار ہوگا کہ درحقیقت یہ میرے نفس اور میری جان کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے میرے مال کی صورت قبول کرلیا، یوں اسے مقصدِ اصلی بھی یاد رہے گا اور نفس کی قربانی کے لیے یہ محرک بھی ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے سامنے شکر گزاری کا جذبہ بھی بڑھے گا۔
اب جب کہ قربانی کا مقصد معلوم اور مستحضر ہوگا تو گویا قربانی کرنے والے نے اپنے آپ کو گناہوں کی وجہ سے عذاب کا مستحق سمجھا کہ میں اس قابل ہوں کہ ہلاک ہوجاؤں اور میری جان خدا کے لیے قربان ہوجائے، لیکن شریعت نے جان کے فدیہ میں جانور کی قربانی مقرر کردی، سو یہ جانور انسان کی نیابت میں قربان ہو رہا ہے، تو قربانی کے جانور کا ہر جزو قربانی کرنے والے کے جسم کے ہر جز کا بدلہ ہے۔ لہٰذا جس وقت جانور قربانی کے لیے خریدا جائے یا قربانی کے لیے خاص کیا جائے اس وقت انسانی جسم جس حالت میں ہو، مختص کردہ جانور اس انسانی جسم کے قائم مقام ہوجائے گا اور جانور قربانی کے لیے خاص کرنے کے بعد جسم کا کوئی جز (نال، ناخن، کھال وغیرہ) کاٹ کر کم کردیا گیا تو گویا مکمل انسانی جسم کے مقابلے میں جانور کی قربانی نہیں ہوگی، جب کہ جانور انسانی جان کا فدیہ قرار پاچکاتھا۔ لہٰذا مناسب معلوم ہواکہ قربانی اور نزولِ رحمت کے وقت انسانی جسم کا کوئی عضو و جزو کم ہو کر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فیضان الٰہی کی برکات سے محروم نہ رہے، تاکہ اس کو مکمل فضیلت حاصل ہو اور وہ مکمل طور پر گناہوں سے پاک ہو، اس لیے آں حضرتﷺنے مذکور حکم دیا ہے۔
اہم وضاحت۔
یہ حکم مستحب ہے اور ان لوگوں کے لئے جو قربانی دینے والے ہوں، ذوالحجہ کا چاند دیکھنے سے لیکر جب تک کہ ان کی طرف سے قربانی نہ ہوجائے۔ اس وقت تک سر کے بالوں اور دیگر بالوں کو نکالنے اور ناخن کاٹنے سے احتیاط کرنا چاہئے، جو لوگ قربانی دینے والے نہیں ہے ان کے لئے یہ حکم نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص قربانی دینے سے پہلے ایسا کر لے تو کوئی گناہ نہیں اور اس سے قربانی میں خلل نہیں آتا۔ (ذوالحجہ اور قربانی کے فضائل و احکام: 34)
نوٹ: اگر آپ اس پر عمل کرنا چاہیں تو آپ آج یعنی 28 مئی بمطابق 30 ذی الحجہ بروز بدھ مغرب سے پہلے پہلے عمل کرسکتے ہیں۔

