Tareekh, Haal Aur Mustaqbil
تاریخ، حال اور مستقبل
میرے نزدیک تاریخ کی حیثیت ایک ظالم استاد کی سی ہے۔ ایک ظالم استاد کیا کرتا ہے؟ وہ ایک ہی سبق آپ کو بار بار یاد کراتا ہےجب تک کہ وہ سبق آپ کے حافظے میں محفوظ نہ ہوجائے۔ یہی حال تاریخ کا ہے۔ میری بات سمجھ نہیں آئی؟ آئیے، کچھ مثالیں ملاحظہ کرتے ہیں، شاید بات سمجھ آجائے۔
1958ء میں پاکستان میں پہلی بار مارشل لا لگتا ہے۔ جنرل ایوب خان اپنی کتاب میں اپنے اس عمل کی کئی توجیحات پیش کرتے ہیں۔ مثلا، ایک جگہ (ص74، فرینڈز نوٹ ماسٹرز، ایوب خان، مسٹر بکس، 2015ء)فرماتے ہیں کہ "1958ء کے وسط تک پورا ملک ایک سنگین معاشی بحران کی لپیٹ میں تھا"۔ اور پھر اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے وہ اس دور کی اقتصادی حالت کو نمایاں کرنے کے لیے کئی اعداد وشمار پیش کرتے ہیں۔ اور پھر فرماتے ہیں کہ "اس ساری (معاشی)افراتفری کے دوران1956ءکے آئین کے تحت عام انتخابات کرانے کی مسلسل باتیں ہوتی رہیں"۔ اور پھر اس دور کے سیاستدانوں کی کچھ حرکتیں انہوں نے درج کیں:
"سیاست دانوں کے لیے۔۔ عام انتخابات کا امکان ملک گیر مہم شروع کرنے کے لیے کافی تھا، بظاہر سیاسی حمایت کے لیے لیکن درحقیقت اپنے سیاسی مخالف کو ڈرانے کے لیے۔ سرکردہ شخصیت خان عبدالقیوم خان تھے جو ملک کے طول و عرض میں جاکر آگ لگانے اور خانہ جنگی کی تبلیغ کرنے میں مصروف تھے۔ انہوں نے کھلے عام کہا کہ اگر ان کی جماعت انتخابات میں سر خرو نہیں ہوتی تو خون کے دریا بہیں گے"۔
مزید انہوں نے بتایا کہ کیسے اس وقت خان عبد القیوم خان مسلح جتھوں کو سڑکوں کی گشت کرایا کرتے تھے۔ جس پر حکومت نے پابندی بھی لگائی۔ اس وقت کے وزیر اعظم ملک فیروز خان نون نے۔۔ خیر، میں صدر ایوب کو ہی بولنے دیتا ہوں۔ آئیے انہیں پڑھتے ہیں:
"وزیر اعظم ملک فیروز خان نون نے 23 ستمبر کو اعلان کیا کہ اگر ہر سیاسی جماعت کی اپنی ذاتی فوج ہو تو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے امکانات کم ہونگے۔ لیکن قیوم خان پھر بھی باز نہ آئے۔ وہ اسی دن کراچی پہنچے اور ان کے ہزاروں حامیوں نے حکومت کے جاری کردہ امتناعی احکامات کی خلاف ورزی کی"۔
پھر (ص75میں)ایوب خان لکھتے ہیں کہ کچھ سیاستدان فوج کے کچھ افسران سے بھی رابطے کر رہے تھے تاکہ مسلح افواج کے اندر اپنے دھڑے قائم کرسکیں اقتدار کے قریب پہنچنے کے لیے۔ آخر میں انہوں نے اس پوری صورتحال کا خلاصہ کچھ یوں کیا:
"ایک سپاہی کے مؤقف سے یہ بالکل واضح تھا کہ عام انتخابات(سے) لڑائی پھڈے ہونے جارہے ہیں۔ پورے ملک میں بڑے پیمانے پر ہنگامہ آرائی ہوگی، اور سول اتھارٹی، جو پہلے ہی سیاستدانوں کی ایڑیوں تلے کراہ رہی ہے، حالات سے نمٹنے کے قابل نہیں ہوگی"۔
یہ 1958ء کی بات ہورہی ہے۔ اس وقت انتخابات نہ ہوئے۔ ان ساری وجوہات اور خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا گیا۔ اب اس وقت بہت سے لوگ کہہ سکتے تھے کہ ایوب خان یہ سب کچھ اقتدار حاصل کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ لیکن آج تو ایوب خان زندہ نہیں۔ ایوب خان نے جن خدشات کا اظہار کیا کہ انتخابات کے بعد ملک میں فساد برپا ہوگا، ہارنے والا سیاستدان اپنی ہار کو تسلیم نہیں کرے گا، یہ سب کچھ آج ہم دیکھ رہے ہیں اور کئی دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔
2024ء کے عام انتخابات سے پہلے بہت سے لوگ کہتے رہے کہ انتخابات کے بعد سیاسی استحکام آئے گا جس سے معاشی استحکام آئے گا(یہ جاہل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے سیاستدان شائستہ لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، ہارنے والے اپنی ہار تسلیم کرکے عزت سے ایک جانب بیٹھ جائیں گے)۔ لیکن کیا سیاسی استحکام آیا؟ پھر بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ جی یہ انتخابات صاف اور شفاف ہوتے تو استحکام آجانا تھا۔ لیکن 1970ء کے انتخابات کو ہر مورخ اور تجزیہ نگار پاکستان کے صاف اور شفاف ترین انتخابات کہتا ہے۔ کیا ہمیں نہیں پتہ اس وقت کیا ہوا۔ کجا اس کے کہ دو سیاستدان آپس میں مل کر ملک کے لوگوں کے لیے سوچتے، وہ اقتدار کی جنگ میں اتنے آگے بڑھے کہ ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔
پھر اس بات پر معترضین کہتے ہیں کہ جی دیکھیں اتنے سالوں سے ہم نے بنگالیوں کے ساتھ زیادتی کی جس کا نتیجہ یہ نکلا۔ لیکن بات یہ ہے کہ کیا ہمارے مغربی پاکستان کے سیاسی لیڈر نے مشرقی پاکستان کے لیڈر کے ساتھ مل بیٹھ کر بات کرنے کو ترجیح دی؟ اور اس میں کیا فوج کی غلطی ہے کہ سیاستدان آپس میں مل کر ٹھنڈے دماغ اور عقل سے فیصلے کرنے کے بجائے ضدی بچوں کی طرح اقتدار کو چھین کر حاصل کرنے کے قائل ہیں؟
پاکستان اور دنیا کے طویل ترین سفیر، جمشید مارکر صاحب اپنی کتاب (کوور پوئینٹ، ص88) میں لکھتے ہیں کہ ایک بار ہینری کسنجر نے انہیں کہا کہ "اکثر ممالک میں انتخابات مسائل کا حل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں یہ مسائل پیدا کرتے ہیں"۔ یہ بات 100٪ سچ ہے۔ نہ انتخابات سے ملک میں کبھی سیاسی استحکام آیا ہے اور نہ کبھی آئے گا۔ کیونکہ سیاستدانوں کے ذہنوں میں ہی استحکام نہیں ہے۔۔ وہ اقتدار کسی بھی صورت حال میں حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ مثلاً، پوری دنیا میں عدم اعتماد کے ذریعے وزرائے اعظموں کو ہٹایا جاتا ہے، لیکن صرف ہمارے ملک میں، کیونکہ عوام جاہل ہے، اسے بیرونی سازش کا نام دیا جاتا ہے۔ جہاں عوام ایسے منجن کو خریدتی ہے اور سیاستدان ایسے منجن بیچ کر کامیاب ہوتے ہیں، وہاں انتخابات سے استحکام نہیں تباہی آتی ہے۔
اور پھر صاف اور شفاف انتخابات کی تشریح بھی تو دیکھیے: سیاستدان جہاں جیتیں گے وہاں انتخابات صاف اور شفاف ہوتے ہیں اور جہاں وہ ہارتے ہیں وہاں دھاندلی ہوتی ہے، یعنی دھاندلی انتظامیہ کچھ جگہوں پر مزے سے سو رہی ہوتی ہے اور کچھ جگہوں پر دھاندلی کرتی ہے۔ پھر ایسا بھی نہیں کہ یہ سیاستدان عدالتوں کا راستہ اختیار کرتے ہیں، ثبوت پیش کرتے ہیں۔ نہیں، یہ عام عوام کو تکلیف دے کر، راستے شاہراہیں بند کرکے، ملک میں خانہ جنگی کی دھمکی دے کر، احتجاج کی دھمکی دے کر انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پہیہ جام ہڑتال کی جاتی ہیں۔ یہ ساری حرکات بیرونی اور اندرونی سرمایہ کار کو کیا پیغام دیتی ہیں؟
خیر، ایک نتیجہ نکلا ہے ان انتخابات سے جو دھاندلی کی زد میں نہیں آتا۔ وہ نتیجہ بالکل صاف اور شفاف ہے۔ ملک کے 52٪ لوگوں نے انتخابات کے دن گھر بیٹھنے کو ترجیح دی۔ مطلب یہ کہ ہماری اکثر آبادی کسی بھی سیاسی جماعت کو ملک چلانے کے اہل نہیں سمجھتی۔ نہ ہی وہ جمہوری نظام کو قابل بھروسہ سمجھتی ہے۔ جو نظام دس جاہل اور بیغیرت لوگوں کو ایک قابل اور ایماند ار بندے پر محظ اس لیے فوقیت دے کیونکہ جاہلوں کے پاس اعداد پورے ہیں، وہ نظام کبھی ہمارے معاشرے کی اصلاح نہیں کرسکتا۔
ابھی دبئی میں بھارت، انگلستان اور پاکستان کے دولت مند اپنا بہت سارا سرمایہ بھیج رہے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ سرمایہ ان ملکوں سے جا رہا ہے جہاں جمہوریت ہے، اور اس ملک جا رہا ہے جہاں جمہوریت کا نام و نشان نہیں۔ دبئی میں نہ دھاندلی کا رونا ہے، نہ انتخابات ہورہے ہیں او ر نہ ہی دھرنے اور احتجاج۔ (کئی پاکستانی صحافی جو جمہوریت کی دیوی کی پرستش کرتے ہیں وہ چھٹی، سیر اور آرام کے لیے اپنے عزیز و اقارت کے ساتھ دبئی ہی جاتے ہیں۔)بلکہ دیکھا جائے تو یہی ان کی طاقت ہے۔ سرمایہ کار وہاں اسی لیے پیسے بھیج رہا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ وہاں اس کے جان اور مال کو تحفظ ہے۔ اسے کوئی سروکار نہیں کہ جمہوریت ہے یا نہیں۔ اسے پتہ ہے دبئی میں کاروبار کرنے کے لیے آسانی فراہم کی گئی ہے۔ جمہوریت کا اس نے اچار ڈالنا ہے؟ دبئی کی حکومت اور حکمران اصل چیزوں پر توجہ دے رہے ہیں، نہ کہ خیالی چیزون پر۔ وہ راستے، شاہراہیں تعمیر کر رہے ہیں، توانائی اور سیاحت پر توجہ دے رہے ہیں، عالیشان عمارتیں تعمیر کر رہے ہیں۔
اور صرف دبئی ہی نہیں، بلکہ چین کی ترقی بھی دیکھ لیں، امریکا چند سالوں کے اندر چین سے معیشت اور فوج دونوں میں پیچھے رہ جائے گا۔ کچھ لوگوں کے بقول چین آگے نکل چکا ہے۔ لیکن چین میں بھی جمہوریت نہیں۔ تو یہ ٹوپی ڈرامہ کہ جی انتخابات کرائیں، جمہوریت میں ہی ہماری بقا ہے، جمہوریت سے ہی معاشی اور سیاسی استحکام آئے گا۔ یہ نیوز اینکرز لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لیے کہتے ہیں۔ کیونکہ یہ نیوز اینکرز تب ہی اتنی بھاری تنخواہ کماتے ہیں جب تک جمہوریت ہوتی ہے۔ جمہوریت ہے تو جاہل سیاستدان اور عوام ملک کا ستیاناس کرتے ہیں۔ جس سے پھر ان اینکر پرسنز کو مواد ملتا ہے اپنے پروگرام کے لیے۔ کل ملک ٹھیک ہوجائے گا تو انہوں نے کیا کرنا ہے؟ کیونکہ یہ مطالعہ کرتے ہیں اور نہ تحقیق۔ انہوں نے مختلف سیاستدانوں کی لڑائی سے اپنے پروگرامز گرمانے ہیں۔
اب تھوڑا اپنے پڑوسی ملک، بھارت، میں کیا ہورہا ہے اس پر غور کرتے ہیں۔
منی پور علاقے میں چینیوں جیسے دکھنے والے لوگوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے، تھوڑا انٹرنیٹ پر جاکر اس حوالے سے تحقیق کریں۔ وہاں ان کی عورتوں کے ساتھ درندے کیا کر رہے ہیں، پڑھیں یا دیکھیں۔ مسلمانوں کی کئی تاریخی مساجد اور مدارس کو اور ان کے گھروں کو مسمار کیا جارہا ہے۔ ہلدوانی علاقے میں کیا ہورہا ہے، تھوڑا پڑھیں۔ وہاں کرفیو لگا ہے۔ کیوں؟ خیر، کچھ تحقیق آپ بھی کریں، اس انٹرنیٹ کے دور میں بہت کچھ مل جائے گا آپ کو۔ بس اتنا بتاتا ہوں، وہاں سے مسلمان نقل مکانی کر رہےہیں۔ کئی جگہوں پر ایسے قوانین لائے جارہے ہیں جس سے مسلمانوں کی شادیوں اور وراثت جیسے معاملات(جس کے متعلق ہدایت ہم شریعت سے لیتے ہیں)میں مداخلت کی جائے گی۔ ساتھ ساتھ کسان وہاں دھرنا دینے دہلی جارہے ہیں اور ذرا دیکھیں ان کا دہلی سرکار کس طرح استقبال کر رہی ہے؟ دہلی کے داخلی راستوں پر کئی بڑے بڑے کیل ٹھوک دیے گئے ہیں، ڈرونز کے ذریعے آنسو گیس کی شیلنگ کی جارہی ہے، پیلٹ گنز کے ذریعے کسانوں کو مارا جارہا ہے۔۔
بھارت بھی چھوڑیں، چین کے اندر جو مسلم آبادی ہے اس کے ساتھ کیا ہور ہا ہے، پڑھ لیں۔ برما میں کیا ہورہا ہے مسلمانوں کےساتھ پڑھ لیں۔ فلسطین میں کیا ہورہا ہے، پڑھ لیں۔ ہمارا وطن غریب سہی، لیکن ہماری مساجد، ہمارا لباس، ہمارا بودو باش، ہماری تہذیب، یہ غیروں کی یلغار سے محفوظ ہیں۔ دو منٹ کے لیے سوچیں اگر ہماری سرحدیں مٹ جاتی ہیں، فوج تباہ ہوجاتی ہے، تو کیا ہوگا؟ چین، بھارت، افغانستان، ایران، جس جس کے ہاتھ جو جو پاکستان کا حصہ آئے گا، وہ اسے دبوچ لے گا۔ پھر یہ سارے ممالک آپ سے کیا کریں گے، وہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔ ایک چھوٹا سا خاکہ میں نے بھارت کی اندرونی صورتحال کے ذریعے آپ کے لیے واضح کردیا ہے۔ وہ اندر کے لوگوں سے یہ کر رہے ہیں، آپ سے کیا کریں گے؟
لیکن ہم کیا کر رہے ہیں؟ شکر کر رہے ہیں کہ یا اللہ! تیرا شکر! تو نے ہمیں الگ وطن دیا اور ہم فلسطین اور چین اور برما اور بھارت کے مسلمانوں کے حال سے بچ گئے؟ نہیں۔ ہم اپنے ملک کو گالیاں دے رہے ہیں۔ کئی عالیشان کمروں میں بیٹھ کر پاکستان کے وجود اور قیام پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ ہماری اگلی نسل 9 مئی کو فوج کے جوانوں کو پتھر مارتی ہوئی، ان پر گالیاں اور طعنے کستی ہوئی پکڑی گئی۔ یہ ہے ہماری اگلی نسل کا حال۔ جن شہیدوں اور غازیوں نے ہماری حفاظت کی ان کی یاد گاروں کو مسمار کر رہی ہے ہماری اگلی نسل۔ وہ ریڈیو پاکستان کو آگ لگا رہی ہے، جس میں کئی تاریخی نسخے موجود تھے۔ کارڈیولوجی کے ہسپتال، جہاں دل کے مریضوں کا علاج ہوتا ہے، اسے آگ لگا رہی ہے کل کی نوجوان نسل۔ 9 مئی کو یہ سب ہوا، اور جس بندے نے نوجوانوں کی ذہن سازی کی، پوری ریاست کے ڈنڈے کے باوجود اس کی جماعت اچھی خاصی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
یاد رہے کہ اللہ ناشکروں کو ایک وقت تک ڈھیل دیتا ہے۔ پھر جب ناشکری حد سے بڑھ جائے تو اللہ کا عذاب آتا ہے۔ پھر اللہ کئی نعمتیں جو انسان کو میسر ہوتی ہیں، اللہ ان کو ناشکرے سے چھینتا رہتا ہے۔ پھر بندے کو احساس ہوتا ہے کہ کتنی چیزوں کو میں ہلکا لیتا تھا، جبکہ وہ چیزیں بے انتہا قیمتی تھیں۔ اللہ نہ کرے ہمارے ساتھ ایسا ہو۔ لیکن ہماری روش بھی تبدیل نہیں ہورہی اور اللہ کا فیصلہ ہر دور اور ہر وقت میں ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ وہ ناشکروں کو معاف نہیں کرتا۔
بنی اسرائیل کی مختلف داستانیں قرآن میں درج ہیں۔ ساری داستانوں میں بنی اسرائیل کی ایک ہی برائی نمایاں ہے: وہ مشکلات پر روتے رہتے تھے، اللہ سے شکوہ کرتے تھے، لیکن کبھی رب کی نعمت پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ اللہ نے انہیں فرعون سے آزادی دلائی، من و سلوی عطا کیا، لیکن وہ شکایت ہی کرتے رہے۔ پھر تاریخ دیکھیں بنی اسرائیل کی۔ کتنے سالوں تک یہودی دنیا کے مختلف کونوں میں بھٹکتے رہے، ہر جگہ انہیں ذلیل کیا جاتا۔ پاکستان کے قیام کے وقت جاکر انہیں اپنا وطن نصیب ہوا۔ اس سے پہلے یہودی کئی سالوں تک دنیا کے مختلف حصو ں میں ذلیل ہوتے رہے۔ ایک جگہ سے نکالے جاتے، پھر دوسری جگہ جاتے۔ اور یہ سلسلہ قائم رہا اسرائیل کے قیام تک۔
آج ہم کیا کر رہے ہیں؟ اور ہمارے ساتھ آگے کیا ہوگا؟