Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Basham Bachani
  4. Purana Pakistan (1)

Purana Pakistan (1)

پرانا پاکستان(1)

جگجیت سنگھ صاحب کا ایک گانا ہے(20 سال پرانا)کہ "یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو، بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی۔ مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون، وہ کاغذ کی کشتی، وہ بارش کا پانی"۔ ماسوائے پتھر دل حضرات، کون بھلا اس گیت کے لفظوں کی گہرائی کو نہیں محسوس کرتا؟ بڑی اچھی بات کی گئی ہے کہ بڑے ہوکر بہت کچھ مل جاتا ہے، لیکن ماضی اور بچپن کی باتیں اور یادیں انمول ہیں اور انسان چاہتا ہے واپس جائے اور دیکھے، لیکن ایسا نہیں ہوسکتا، چاہے کتنی بھی دولت دیں، وہ وقت واپس نہیں لوٹے گا۔

میں جب پاکستان کے ابتدائی دنوں کی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہوں، جب اس وقت کے لوگوں کی لکھی ہوئی تحریریں پڑھتا ہوں، وہ لوگ جنہوں نے اپنے اس ملک کی پیدائش اور اس سے جڑی ہوئی ساری مشکلات اور تکالیف کو بغور اپنی آنکھوں سے دیکھا، تو میرا بھی دل رونے لگتا ہے جیسے اس گیت کو سن کر کچھ حساس دل لوگ رو پڑتے ہیں۔ میرے دل سے آواز نکلتی ہے:لے لو آج کا نام نہاد "نیا پاکستان" اور مجھے وہ پرانا پاکستان واپس لوٹا دو۔

آج ٹی وی کھولیں اور لوگوں کی سیاسی اور اقتصادی گفتگو ملاحظہ کریں تو لوگ یہ باتیں کر رہے ہیں:ملک میں بہت مشکل حالات ہیں، ایک تہائی ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے، سیاسی عدم استحکام جیسا آج ہے ویسا کبھی نہیں تھا، پاکستان خدانخواستہ دیوالیہ ہوجائے گا۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

ایک تو ہماری یاداشت بڑی کمزور ہے۔ ہم وہ دور بھول جاتے ہیں جب ایک شخص نے لندن سے ملک کےسب سے بڑے شہر، شہرِ قائد، کراچی اور دوسرا حیدرآباد کو یرغمال بنا لیا تھا۔ ایم کیو ایم اور الطاف حسین کی غنڈہ گردی، بھتہ خوری اور دادا گیری نے ملک کے اہم حصے کو تباہ کردیا تھا۔ بوری بند لاشیں کراچی حیدرآباد میں گاہے بگاہے ملتی رہتی تھیں۔ ٹارگٹ کلنگ عروج پر تھی۔ آئے دن دہشتگردی کے واقعات خبروں کی زینت بنتے تھے۔

مجھے یاد ہے 2008ء میں ہمیں کالج میں تیار کیا جارہا تھا کہ اگر خودکش حملہ ہوا یا اس کے ہونے کا خدشہ ہو تو آپ نے کیسے بھاگنا ہے اور کیا تیاری پکڑنی ہے۔ ہم یہ تک بھول گئے ہیں کہ 1971ء میں کس رسوائی کا ہمیں سامنہ کرنا پڑا۔ ہمارے کئی فوجی قید تھے دشمن ملک کے پاس اور ہم نے اپنا مشرقی بازو کھو دیا تھا۔ جب ایٹمی دھماکہ ہوا تب بھی ملک کی معاشی صورتحال بری تھی۔ پاکستان پر عالمی دنیا، بالخصوص امریکا نے بہت سی پابندیاں عائد کی تھیں۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

لیکن سب سے برے حالات تو تب تھے جب یہ ملک پیدا ہوا۔ آئیے دوستو!اس دور کی سیر کرتے ہیں اور آخر میں دیکھیں گے کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔

پاکستان جب معرض وجود میں آیا تب کرنسی نوٹ کو چھاپنے کے لیے بھی پیسے نہ تھے۔ جو ابتدائی دنوں میں نوٹ استعمال ہوئے، وہ وہی تھے جو قبلِ تقسیم اور آزادی کے استعمال ہوتے تھے۔ البتہ نوٹ کے بائیں جانب حکومت پاکستان کی ایک مہر لگی ہوتی تھی، یہ واضح کرنے کے لیے کہ یہ پاکستان کی کرنسی ہے۔ ذرا سوچیں۔ کیا حالات ہونگے اس وقت ملک کے۔

اگر نوٹ چھاپنے کے لیے وسائل نہ تھے، تو دفتر کہاں سے مہیا ہوتے؟ اور یاد رہے ہندستان کو بنا بنایا دارالخلافہ دہلی ملا تھا۔ ہمیں کراچی میں کم وسائل اور کئی مشکلات کے باوجود نیا دارالخلافہ بنانا تھا۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ پاکستان کو تقسیم کے وقت اس کے اصل اور جائز معاشی اور عسکری حصے سے محروم بھی کیا گیا۔ یہ اس دور کے افسروں اورسرکاری لوگوں کا کمال تھا کہ کم وسائل میں ملکی معاملات چلائے۔ ایک چھوٹی سی جھلک اس وقت کی ہمیں جمشید مارکر صاحب کی تحریر سے ملتی ہے(یہ تقسیم کے وقت کی بات ہے)، جمشید مارکر نے لکھا کہ:

"میں۔۔ دہلی جم خانہ (تھا) جہاں موضوعِ گفتگو (ہندستانیوں کے لیے) یہ تھا کہ پاکستان تین مہینے تک قائم رہ سکے گا یا چھ مہینے؟ اگلے ہی دن جب میں کراچی واپس لوٹا، میں نے اپنے گھر کی جانب جاتے ہوئےگاڑی جب کینٹونمینٹ ریلوے اسٹیشن (سادہ لفظوں میں جسے کینٹ اسٹیشن کہتے ہیں)کے قریب سے گزاری، میں نے بھاری تعداد میں مال گاڑیاں دیکھیں جن کے دروازے کھلے تھے اور کئی مرد لکڑی کے ڈبوں پر بیٹھ کر ڈھیروں سرکاری دستاویزات پر کام کر رہے تھے جو ان کے ارد گرد جمع تھے۔ سرکاری دفاتر ابھی تیار نہ تھے، چناچہ جیسے ہی دہلی سے دستاویزات پہنچے یہ سرکاری ملازمین، افسران اور کلرک (خدمت کے جذبے سے) سرشار اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پر عزم تھے کہ ریاست کا کام چلتا رہے، (وہ)ان دستاویزات پر کام کرنے لگے۔ درجہ حرارت 102 ڈگری فیرنہائٹ تھا۔ (یعنی قریب 38 سے 39 ڈگری سیلسئیز) میں نے دل ہی دل میں کہا: یہ ہے قائد اعظم محمد علی جناح کا پاکستان:ناقابل تسخیر، دلیر، وقف شدہ اور پر عزم۔ یہ ملک ضرور 3 مہینوں سے زیادہ چلے گا۔ "(ص7، کوور پوائنٹ، جمشید مارکر، آکسفرڈ یونیورسٹی پریس پاکستان، کراچی، 2016ء)

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ کئی کانگریسی رکن (جیسے کہ سردار پٹیل) اس بات کو اس وقت بار بار دہراتے تھے کہ اجی! یہ پاکستان بس چند دنوں کا مہمان ہے، بالآخر اس کا انضمام ہندستان سے ہونا ہے۔ لیکن جیسے کہ آپ نے سنا اور اوپر پڑھا، اس وقت کے لوگوں نے ان کے یہ عزائم بری طرح پاش پاش کردیے۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم نے 1948 میں اپنی ایک تقریر میں فرمایا کہ "دشمنانِ پاکستان پاکستان کو اس کے قیام کے وقت ہی دفن کردینا چاہتے تھے۔ لیکن، اس کےبرعکس، پاکستان زیادہ مضبوط اور فاتح مندثابت ہوا۔ یہ (ملک)قائم ہونے کے لیے اور اپنا عزیم کردار ادا کرنے کے لیے آیا ہے جس کے لیے اس کے مقدر نے اسے چنا ہے"۔ (ص97، قائد اعظم محمد علی جناح اسپیچز، سنگ میل پبلیکیشنز، 2013ء)

مسرت حسین زبیری، اس وقت کے ایک اعلی بیوروکریٹ، جو اس وقت محکمہ مواصلات کے اعلی افسر تھے، ان دنوں کی کہانی اپنی کتاب وویج تھرو ہسٹری (جلد دوم، ص163، شمارہ دوم؛کتاب کو حمدرد فاؤنڈیشن نے شائع کیا تھا) میں لکھتے ہیں، جن کو پڑھ پتہ چلتا ہے کہ کیسے کم وسائل کے باوجود گزارا کیا گیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ سوٹ کیسس کے ذریعے اس وقت میز اور نشستوں کا کام لیا جاتا تھا۔ لفافے کے لیے اگر کاغذ نہ ہوتے تو وہ لوگ اس وقت پرانے لفافے استعمال کرتے تھے یا پرانے اخبارات کاٹ کر نئے لفافے بناتے تھے۔ حواشی (نوٹس)کے لیے اگر کاغذ نہ تھے تو منہ زبانی کام چلانا پڑتا تھا۔

جہاں ناگزیر ہوتا تو وہ ایک ہی کاغذ کو استعمال کرکے دونوں اطراف لکھتے اور اختصار پسندی سے کام لیتے تھے۔ کلپس اور پنز کی فراہمی تھی نہیں تو جھاڑیوں سے کانٹے لا کر استعمال میں لائے جاتے تھے۔ دفاتر اور جگہیں کم تھیں، لہذا ایک ہی کمرے میں لکڑی کی دیوار ڈال کر کئی لوگوں کے دفتر کا بندوبست کیا جاتا تھا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ مسرت صاحب لکھتے ہیں کہ ان کے وزیر سردار نشتر کے پاس اپنی سرکاری رہائش نہ تھی۔ کیونکہ ان کی رہائش وزیر داخلہ کو دی گئی جو اپنی رہائش کو اس وقت کے خوراک اور زراعت کے وزیر کے ساتھ بانٹ رہے تھے۔

(آج "نئے پاکستان" کے دعوےداروں کے ترجمان جوسات مہینے پہلے وزیر اطلاعات تھے، ان کے بارے میں یہ پتہ چلا ہے کہ وہ آج تک وزرا کے لیے مختص رہاشی جگہ پر اپنی اہلیہ سمیت تشریف فرما ہیں اور نکلنے کا نام نہیں لے رہے۔ بہت مشکل سے ایک سرکاری باورچی اور محافظ ان سے برآمد کیا گیا۔ جب ان سے موجودہ حکومت کے ایک عہدے دار نے عرض کیا کہ جناب!"حقیقی آزادی"سے پہلےذرا اس جگہ کو تو آزاد کریں جو آپ کے قبضے میں ہے سات مہینوں سے تو موصوف نے کتوں کی تصویر ٹوئیٹ کر کے اس عہدے دار کو ٹیگ کی۔ ایسے لوگ اور ان کے ساتھیوں، حامیوں اور ووٹرز کے دماغی اور آخروی حال پر انااللہ پڑھ لینا چاہیے۔)

(جاری)

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (2)

By Wusat Ullah Khan