Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Basham Bachani
  4. Mughalitistan Aur Imran Khan, Zulfiqar Ali Bhutto Ka Siasat Mein Dakhla (17)

Mughalitistan Aur Imran Khan, Zulfiqar Ali Bhutto Ka Siasat Mein Dakhla (17)

مغالطستان اور عمران خان، ذولفقار علی بھٹو کا سیاست میں داخلہ (17)

دوستو! پچھلی قسط میں ہم نے ذولفقار علی بھٹو کی نجی زندگی کے بارے میں آپ کو بتایا تھا، ہم نے ساتھ ساتھ آپ کو بھٹو کی شخصیت کے چند پہلو بھی بتائے تھے۔ آج ہم اپنی گفتگو کو مزید جاری رکھتے ہوئے، ذولفقار علی بھٹو کےسیاست میں داخلے اور ان کی سیاسی سوچ اور ان کی ایوب خان کابینہ سے نکالے جانے کی داستان سنائیں گے۔ لہذا، آئیے پچھلی گفتگو کو مزید آگے بڑھاتے ہیں۔

جیسا کہ ہم پہلے(پچھلی قسط میں) آپ کو بتا چکے ہیں کہ بھٹو بہت کم عمری سے ملک کے وزیر خارجہ بننے کا خواب دیکھا کرتے تھے، انہیں اقتدار کا شوق تھا، اور انہوں نے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رکھی تھی۔ بقول اسٹینلی والپرٹ:

"زلفی کے عزائم نے طویل عرصے سے سیاست اور سفارت کاری پر توجہ مرکوز رکھی تھی، جس سے شاید یہ بتانے میں مدد ملتی ہے کہ اس نے اپنے قانونی پیشے میں اتنی کم دلچسپی کیوں لی۔ "

پاکستان آتے ہی ذولفقار علی بھٹو نے دینگومل نامی شخص کے چیمبرز میں کام کرنا شروع کردیا تھا۔ دینگومل کے بیٹے بھی بھٹو کے جاننے والے تھے۔ دینگومل کے بیٹے نے بھٹو کو آکسفرڈ یونیورسٹی میں ایک بار خطاب کرتے ہوئے سنا تھا، ان کا کہنا تھا کہ دوران خطاب بھٹو نے فرمایا کہ ایک دن وہ پاکستان کے وزیر خارجہ بنیں گے۔ دینگومل کے بیٹے نے مزید فرمایا:

"اور ہم سب نے کہا کہ یہ کتنا جاہ طلب نوجوان ہے! "(ص43)

یعنی سیاست میں داخل ہونے کی بھٹو کی چاہ بہت پرانی تھی۔ وہ بہت کم عمری سے طاقت کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ انہیں اقتدار پسند تھا۔ جیسے کہ ہم پہلے آپ کو بتا چکے ہیں کہ بھٹو ایک طاقتور اور مالدار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، لہذا ان کے خاندان نے انہیں صرف مالدار نہیں بنایا، بلکہ انہیں طاقتور اور با اثر لوگوں کے قریب بھی لایا۔ اسکندر مرزا، پاکستان کے پہلے صدر اور آخری گورنر جنرل، بھٹو کے والد کے بہت قریبی دوست تھے۔ بلکہ اسی دوستی کی وجہ سے اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان لاڑکانہ شکار کے لیے کئی بار آیا کرتے تھے۔ اس دوران وہ دونوں بھٹو خاندان کی مشہور رہائش گاہ المرتضی میں تشریف لاتے تھے۔ یہی وہ دن تھے جب بھٹو اسکندر مرزا کے قریب ہوئے۔

اقتدار حاصل کرنے کے لیے بھٹو نے اسکندر مرزا کی ایسی چاپلوسی کی کہ سن کر آپ حیران رہ جائیں گے۔ ابھی بھٹو کی عمر تیس سال تھی کہ انہیں اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس میں پاکستانی وفد کی صدارت کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ انعام انہیں اسکندر مرزا نے عطا کیا۔ کانفرنس جنیوا میں تھی، لہذا جونہی ذولفقار علی بھٹو وہاں پہنچے انہوں نے اسکندر مرزا کو لکھا کہ وہ ان کے اس انعام پر شکر گزار ہیں۔ بھٹو نے اسکندر مرزا کو لکھا کہ وہ انہیں اپنی "لازوال اور سرشار وفاداری "کا یقین دلاتے ہیں۔ (یہ سب جھوٹ تھا، کیونکہ جیسےہی اسکندر مرزا کو معزول کیا گیا اور ایوب خان کا دور شروع ہوا، بھٹو نے ایوب خان کا ساتھ دیا اور اپنے پرانے محسن کو بھلا بیٹھے۔)خیر، بھٹو نے مزید اپنے خط میں لکھا کہ۔۔ خیر، آپ خود ہی پڑھ لیجیے کہ بھٹو نے کیا لکھا۔ انہوں نے اسکندر مرزا کو لکھا کہ:

"جب ہمارے ملک کی تاریخ معروضی مورخین لکھیں گے تو آپ کا نام مسٹر جناح سے بھی آگے ہوگا۔ جناب! میں یہ اس لیے کہتا ہوں کیونکہ میں یہ دل سے مانتا ہوں، اس لیے نہیں کہ آپ میرے ملک کے صدر ہیں۔ "

ایسی ننگی چاپلوسی کرنے کے بعد بھی بھٹو بڑی ڈھٹائی سے آگے فرماتے ہیں:

"مجھے نہیں لگتا کہ میں چاپلوسی کے الزام میں مجرم پایا جا سکتا ہوں۔ "(ص55)

ایسی واہیات چاپلوسیوں کے طفیل بھٹو بالآخر اسکندر مرزا کی کابینہ میں شامل ہوگئے۔ انہیں تجارت کی وزارت کا قلم دان سونپ دیا گیا اور یوں بھٹو اقتدار کی راہداریوں تک پہنچے۔ آگے جاکر اسکندر مرزا سے جب اقتدار چھینا گیا، تو بھٹو، جو پہلے اپنی وفاداری کا اسکندر مرزا کو یقین دلا چکے تھے، بڑے مزے سے ایوب خان کو اپنا "ڈیڈی"بلانے لگے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کے علمبردار ذولفقار علی بھٹو قریب ایک دہائی تک ایوب خان کی حکومت کو کیوں برداشت کرتے رہے؟ بلکہ وہ تو ایوب خان اور اسکندر مرزا کی کابینہ کا بھی حصہ رہے۔ انہوں نےمارشل لا کا دور دیکھا، قریب ایک دہائی وہ ایوب خان کی آمریت کا حصہ رہے، اتنے سالوں تک ان کا ضمیر کیوں نہ جاگا؟ ایوب خان کی کابینہ سے نکالے جانے کے بعد انہیں جمہوریت کا سبق کیوں یاد آیا؟ وہی بھٹو جو اسکندر مرزا اور ایوب خان کو اپنی رہائش گاہ لاتا اور انہیں لاڑکانہ میں شکار کرواتا، اسے دس سال کیوں لگے جمہوریت کی مہم چلانے کے لیے؟ کیا اتنے سالوں میں اسے نہیں پتہ تھا کہ جمہوریت نہیں تھی پاکستان میں؟

جواب ہر اس شخص کو پتہ ہے جو تھوڑی سی بھی عقل رکھتا ہے۔ بھٹو کو جمہوریت سے کوئی غرض نہیں تھا، اور جیسا کہ ہم آگے جاکر بتائیں گے، بھٹو خود ایک آمر تھے۔ جب اسکندر مرزا اقتدار کے مزے لے رہے تھے، تو بھٹو ان کے قریب ہوگئے۔ جب اسکندر مرزا کا اقتدار اختتام پزیر ہوا تو بھٹو ایوب خان کے قریب ہوگئے اور جب ایوب خان کا دور اختتام کو پہنچ رہا تھا، تو بھٹو نے جمہوریت کو اپنا وسیلہ بنایا اقتدار حاصل کرنے کے لیے۔ یاد رہے 1965ء کے صدارتی انتخابات کے وقت محترمہ فاطمہ جناح نے ذولفقار علی بھٹو کو دعوت دی تھی کہ وہ ان کے ساتھ شریک ہوجائیں اور ایوب خان کو خیر باد کہہ دیں۔ لیکن بھٹو، جنہیں کچھ سال بعد ایوب خان کی آمریت نظرآنے والی تھی، نے ان کی اس پیشکش کو مسترد کردیا۔ (ص81)بعد میں جب ایوب خان نے بھٹو کو اپنی کابینہ سے بے دخل کیا تو بھٹو ایوب خان حکومت کا حصہ بننے کو اپنی "سب سے بڑی غلطی "قرار دینے لگے۔ (ص125)

ہماری قوم واقعی جاہل ہے، ہم آج جس تباہی سے گزر رہے ہیں یہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے، کیونکہ بھٹو جیسے شخص کو جو قوم بھی فوقیت دے گی، اس کے مقدر میں تباہی ہی لکھی جائے گی۔

بھٹو ایک موقع پرست انسان تھے اور یہ کسی بھی کھلی آنکھ رکھنے والے کے لیے جاننا آسان تھا۔ وہ اپنے ہی محسنوں سے احسان فراموشی کرنے والے شخص تھے۔ وہ اقتدار کی خاطر جیتے تھے، اور ایسے شخص کو اپنا نجات دہندہ سمجھنے والی قوم کے ساتھ وہی ہونا چاہیے جو آج ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔

یہاں تک ہم نے بھٹو کی نجی زندگی اور سیاست میں داخلے تک کی داستان آپ کو سنائی ہے۔ اب ہم بیا ن کریں گے کہ بھٹو ایوب خان کابینہ سے بے دخل کیسے ہوئے۔

یاد رہے کہ جہاں بھٹو بہت کم عمری سے وزیر خارجہ بننے کا خواب دیکھ رہے تھے، وہیں ایوب خان اس قدر جلدی میں نہیں تھے۔ بلکہ وزارت خارجہ کا ملنا بھٹو کی اچھی قسمت کا نتیجہ تھا۔ ہوا یہ کہ منظور قادر صاحب، جو کہ ایوب دور کے وزیر خارجہ تھے، 1962ء کے اختتام سے پہلے ہی اپنی زمے داریوں سے، بوجہ تھکاوٹ کے، سبکدوش ہوچکے تھے۔ اب ایوب خان کو نئے وزیر خارجہ کی تلاش تھی۔ لیکن وہ بھٹو کو پھر بھی وزیر خارجہ بنانے کے خواہش مند نہیں تھے۔ ایوب خان محمد علی بوگرہ کو ملک کا وزیر خارجہ بنانا چاہتے تھے۔ لیکن بھٹو کی قسمت ملاحظہ کیجیے۔ جنوری 1963ء میں محمد علی بوگرہ دل کے دورے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لہذا، ذولفقار علی بھٹو کو وہ موقع ملا جس کا وہ ساری زندگی انتظار کر رہے تھے۔ پینتیس سال کی عمر میں ذولفقار علی بھٹو ملک کے وزیر خارجہ بن گئے۔ (ص71)

جیسے کہ ہم آپ کو پہلے بتا چکے ہیں کہ بھٹو ایک منفی شخصیت تھے، یہ تو ہماری جہالت اور حماقت ہے کہ ہم ایسے اشخاص کو پاکستانی تاریخ کا مثبت کردار سمجھتے ہیں اور یہ محض خیالی بات نہیں، یاد رہے بھٹو کئی فوجیوں اور لوگوں کی شہادتوں کے زمے دار تھے۔ وہ بھلا کیسے؟

ہم سب کو پتہ ہے کہ 1965ء میں پاک بھارت جنگ ہوئی جس میں ہمارے کئی فوجی شہید ہوئے اور دفاع وطن کے خاطر ملک کے لوگوں نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ اس جنگ میں جہاں فوجیوں نے اور عوام نے دلیری کا ثبوت دیا، وہیں پس پردہ بھٹو جیسے اشخاص کی نااہلی اور جہالت کا کھلا ثبوت بھی ملا۔ آج بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ 1965ء کی جنگ کی اصل وجوہات کیا ہیں۔ اگر بھٹو کو 1965ء کے جنگ کا بانی یا موجد کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ اُس جنگ میں جتنے بھی معصوم شہری جان بحق ہوئے، جتنا بھی مالی نقصان ملک کو اٹھانا پڑا، اس کے اصل زمے دار ذولفقار علی بھٹو تھے۔

بات کو مزید سمجھانے کے لیے ہم کچھ پس منظر آپ کو فراہم کرتے ہیں اور اس کے لیے ہم الطاف گوہر صاحب کی کتاب"ایوب خان: فوجی راج کے پہلے دس سال" کا حوالہ دیں گے۔ یہ کتاب انگریزی زبان میں بھی موجود ہے، لیکن کیونکہ میں آپ لوگوں سے اردو میں مخاطب ہوں، لہذا میں کتاب کے اردو ترجمے کا حوالہ دے رہا ہوں۔ یہ کتاب سنگ میل پبلیکیشنز نے چھاپی ہے، اور میرے پاس اس کتاب کا2012ء کا شمارہ موجود ہے جس کا میں حوالہ دیتا رہوں گا۔ اس کتاب کا حوالہ دینے کی وجہ؟

یاد رہے الطاف گوہر صاحب اس دور کی پاکستانی بیوروکریسی کے بڑے اہم افسر تھے، ساتھ ساتھ انہیں ادب سے بھی بڑی دلچسپی تھی۔ یہ ایوب خان کے قریب رہے، قیام پاکستان سے پہلے یہ انگریز دور میں سول سروس کا حصہ رہے، بعدازاں پاکستان بننے کے بعد ملک کی بیوروکریسی کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے اور انہوں نے پاکستانی تاریخ کے اہم موقعے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایوب خان کی خودنوشت "فرینڈز نوٹ ماسٹرز"کے اصل لکھاری بھی الطاف گوہر تھے۔ خاص طور پر ایوب خان دور میں یہ ایوب خان کے بڑے قریب رہے(ان کے پاس ایوب خان کے حواشی اور دستاویزات موجود تھے جس کا سہارہ لے کر انہوں نے یہ کتاب لکھی جس کا ہم نے حوالہ دیا ہے)، لہذا اس دور میں جو کچھ ہورہا تھا اس حوالے سے الطاف گوہر نہ صرف ایک عینی شاہد ہیں، بلکہ وہ اس دور کے اہم سول سروس کے افسر بھی تھے، جس کی بدولت ان کے پاس اس دور کی معلومات دوسرے لوگو ں سے زیادہ ہیں۔

خیر، ہوا یہ کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ سے پہلے رن آف کچھ کے علاقے میں پاکستانی فوج کو بھارتی فوج کے خلاف کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ یہ 1965ء کی ستمبر کی جنگ طرح ایک بڑی جنگ نہیں تھی، بلکہ ایک مخصوص علاقے میں ہی دونوں فوجوں کا آمنہ سامنہ ہوا جس میں پاکستانی فوج فاتح ثابت ہوئی۔ ان جھڑپوں میں کامیابی کے نتیجے میں فوجیوں کے اندر بھارت کے خلاف ایک جوش کی لہر دوڑ اٹھی۔ صدر ایوب خان اور جنرل موسی (جو اس وقت فوج کے سپہ سالار تھے)اس بات سے واقف تھے کہ یہ ایک جذباتی رویہ ہے۔ ہماری فوج کی فتح ضرور ہوئی تھی، لیکن اس فتح کے نشے میں غرق ہوکر کوئی جذباتی فیصلہ لینا جس سے دو ملکوں کے درمیان جنگ جاری ہوجائے، اُس سے صرف تباہی ہی ممکن ہوتی ہے۔ جنگ سے صرف مالی اور جانی نقصان نہیں ہوتا، بلکہ اس کے دور رس منفی نتائج نکلتے ہیں جس سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ ایوب خان ایک پر امن حکمت عملی کے تحت مسئلہ /تنازعہ کشمیر کو حل کرنا چاہتے تھے۔

لیکن اس دوران جاہ طلب بھٹو کچھ اور ہی کرنے کا سوچ رہے تھے۔ بھٹو اور ان کے سیکریٹری خارجہ۔۔

خیر، دوستو! وقت کی قلت کے باعث ہم اپنی گفتگو ادھوری چھوڑتے ہیں، آپ سے اگلی قسط میں ملاقات ہوگی اور اس داستان کو مزید ہم اگلی قسط میں سنائیں گے۔ فی الحال ہمیں اجازت دیجیے۔

اور ہاں! اگر ہماری اقساط آپ کو پسند آرہی ہیں، تو انہیں اپنے دوستوں اور عزیزوں میں ضرور تقسیم کیجیے۔ اللہ حافظ!

Check Also

Wardi Ke Shoq

By Saira Kanwal