Mughalitistan Aur Imran Khan, Zulfiqar Ali Bhutto (16)
مغالطستان اور عمران خان، ذولفقار علی بھٹو (16)
دوستو! پچھلی دو تین اقساط سے ہم مسلسل انقلاب کے اوپر گفتگو کر رہے ہیں۔ ہم مسلسل یہ دلیل دیے جارہے ہیں کہ حکومت تبدیل کرنے سے لوگوں کی حالت تبدیل نہیں ہوتی۔ لوگوں کا راستوں شاہراہوں پر آجانے سے، حکومت اور نظام کو تلپٹ کرنے سے، معاشرے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ بلکہ انقلاب کے نتیجے میں مزید تباہی لوگوں کا مقدر بنتی ہے۔ ہم اپنی گفتگو کو اس قسط میں واپس جاری کرتے ہیں۔
60 کی دہائی جب اختتام پزیر ہورہی تھی، تب ہمارے ملک میں ایک تبدیلی آئی تھی۔ وہ تبدیلی کیا تھی؟ جو ا ب یہ ہے کہ لوگ ایوب خان حکومت کے خلاف ہوچکے تھے۔ اس زمانے میں پاکستان دو حصوں میں تقسیم تھا۔۔ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان۔ مغربی پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو مقبول لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔ دوسری طرف مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلادیش)سے شیخ مجیب الرحمان بنگالیوں کے لیڈر بن کر سامنے آئے۔ ان دونوں لیڈران نے ایوب خان حکومت کے خلاف بڑی تگڑی مہم شروع کی۔ ان کے ساتھ ملک کی دوسری چھوٹی سیاسی جماعتیں بھی شریک تھیں۔ نتیجہ کیا نکلا؟ جواب: ایوب خان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ یہ لوگ کامیاب ہوگئے۔
بعد میں کیا ہوا؟ اس حوالے سے ہم آپ کو بعد میں بتائیں گے۔ پہلے ہم ذولفقار علی بھٹو کی شخصیت پر گفتگو کریں گے۔ کیونکہ بعد میں جو ہوا، جب ایوب خان ہٹائے گئے، اس کا ذولفقار علی بھٹو کی شخصیت سے بڑا گہر ا تعلق ہے۔ ہمارے ان سلسلہ وار مضامین کا عنوان ہے "مغالطستان اور عمران خان" اور یقین مانیے، آج اگر کوئی بھٹو کا حقیقی سیاسی وارث ہے، تو وہ بلاول بھٹو نہیں بلکہ عمران خان ہیں۔ دونوں کی شخصیات کافی ملتی جلتی ہیں۔ عمران خان جس طرح آج مقبول ہیں، اسی طرح ذولفقار علی بھٹو اپنے وقت میں مقبول تھے۔ دونوں اشخاص نے پاکستان کو بے انتہا نقصان پہنچایا ہے۔
اب جو معلومات ہم آپ کے سامنے رکھنے جارہے ہیں، اس کے ذریعے آپ حیران ہوجائیں گے کہ ذولفقار علی بھٹو کے حوالے سے کتنے مغالطے قوم نے پال رکھے ہیں۔ کس قدر غلط تصویر ہمیں ذولفقار علی بھٹو کی شخصیت کے بارے میں پیش کی جاتی ہے۔ کس قدر جعلی باتیں کی جاتی ہیں۔ ایسے ہی نہیں میں نے ان سلسلہ وار مضامین کا عنوان "مغالطستان اور عمران خان "رکھا ہے۔ ہم حقیقت میں مغالطستان کے باسی ہیں۔
یہ ساری باتیں جو ہم بیان کریں گے یہ ہم نے اسٹینلی والپرٹ کی کتاب "زلفی بھٹو اوف پاکستان: ہز لائف اینڈ ٹائمز" سےحاصل کی ہیں۔ اس کتاب کو اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے چھاپا ہے۔ میں جو بھی معلومات پیش کروں گا اس کا حوالہ اس کتاب کے صفحہ نمبر کے ذریعے دوں گا۔ یاد رہے ہم صرف اس کتاب کا حوالہ نہیں دیں گے۔ آگے جاکر دوسروں کی تصانیف سے بھی استفا دہ کریں گے۔ لیکن اس کتاب کا ذکر پہلے اس لیے کیا جارہا ہے کیونکہ یہ کتاب ذولفقار علی بھٹو کی پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔
ذولفقار علی بھٹو ایک امیر اور جاگیر دار گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سر شاہ نواز تو لاڑکانہ کے بہت بڑے زمیندار، جاگیردار اور سیاستدان تھے، جو ایک وقت میں جونا گڑھ ریاست کے دیوان بھی رہے(قیام پاکستان کے وقت جونا گڑھ کے نواب نے پاکستان میں شمولیت کو ترجیح دی تھی، لیکن جغرافیائی مشکلات کے باعث یہ ریاست بھارت نے ہتھیا لی)، جبکہ ان کی والدہ پیدائشی ہندو تھیں (ان کا تعلق پونا سے تھا)اور بھٹو کے والد سے شادی کی وجہ سے انہوں نے اسلام قبول کیا۔ یاد رہے ذولفقار علی بھٹو کے والد کی یہ دوسری شادی تھی۔ شاید یہ وجہ تھی کہ بھٹو کے والد نے اپنی غیر مطبوعہ خود نوشت میں بھٹو کا ذکر تک نہیں کیا۔ (ص15)
ذولفقار علی بھٹو کی اکیسویں سالگرہ پر ان کے والد شاہ نواز نے انہیں دو تحریریں تحفہ دیں جنہوں نے ذولفقار علی بھٹو کے ذہن پر بڑا گہرا اثر ڈالا۔ ایک تصنیف پانچ جلدوں پر مشتمل تھی، جو کہ نیپولئین بوناپارٹ کی زندگی پر تھی، جبکہ دوسری تحریر کارل مارکس کی مشہور زمانہ "کمیونسٹ مینی فیسٹو" ایک کتابچے کے شکل میں تھی۔ (ص30 تا31)ان دونوں تحریروں نے بھٹو کو نیپولئین اور اشتراکیت اور سوشلزم کا دیوانہ بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو نے زمینی اصلاحات اور قومیا لینے کی پالیسی کو عمل میں لایا۔ یہی وجہ ہے کہ پی پی پی کا پہلا انتخابی منشور بھی جے اے رحیم نے لکھا، جو کہ ایک کٹر اشتراکی(مارکسسٹ) تھے۔
بھٹو کے والد سر شاہ نواز نےایک بار فرمایا تھا کہ "ہمارا جاگیردارانہ ماحول ہمیں گہوارے سے لے کر قبر تک سیاست کی طرف کھینچتا ہے۔ "(ص7)یہی وجہ ہے کہ ذولفقار علی بھٹو نے مغرب سے قانون کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود، کبھی بھی قانون کو اپنا پیشہ نہیں بنایا۔ وہ کم عمری سے سیاست میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ ان کے ایک روم میٹ کاان کے بارے میں کہنا تھا کہ "اس آدمی کو واقعی طاقت پسند ہے۔ "مزید فرمایا کہ "اسے حاکم ہونے کا خیال لطف دیتا ہے"۔ (ص29) انگلستان میں پڑھائی کے دوران ان کی دوسری اہلیہ نصرت بھٹو ان کے ساتھ قیام پزیر تھیں، جنہیں ایک بار بھٹو نے بہت پہلے بتادیا تھا کہ وہ وزیر خارجہ بننے کی خواہش رکھتے ہیں (ص40 تا 41)۔۔ ان کا یہ خواب اسی شخص(ایوب خان) نے پورا کیا جن کے خلاف بھٹو نے اپنی سیاسی تحریک شروع کی۔
یاد رہے نصرت بھٹو ذولفقار علی بھٹو کی دوسری بیوی تھیں۔ بھٹو کی پہلی شادی اپنی کزن شیرین سے ہوئی، جو ان کے چچا کی بیٹی تھیں۔ یہ شادی تب ہوئی جب بھٹو 13 سال کے تھے۔ ذولفقار علی بھٹو نے اپنی دوسری بیوی نصرت بھٹو کو یہ واضح بتادیا تھا کہ ان کی یہ پہلی شادی محض ملکیت حاصل کرنے کے لیےتھی۔ جی ہاں! وہی بھٹو جو آگے جاکر صنعتوں کو ریاست کے قبضے میں دینے جارہا تھا، جو نجی اداروں کو ریاست کی تحویل میں دے رہا تھا، جو فلور ملز تک کو قومیا لینے جارہا تھا، وہ بھٹو پہلی شادی محض ملکیت کے غرض سے کر رہا تھا۔ بھٹو کے چچا کے انتقال کرتے ہی بھٹو ان کی ایک تہائی زمین کے وارث بن گئے۔ (ص22)
یوں وہ بھٹو، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ زمینی اصلاحات لانا چاہ رہا تھا، جو صنعتکاروں کی طاقت کو محدود کرنا چاہ رہا تھا، وہ خود ایک وقت میں ملکیت اور زمینوں کی غرض سے شادی کر رہا تھا، تاکہ اس کی زمین اور ملکیت میں اضافہ ہو۔ دوگلے پن اور منافقت کی یہ انتہا کسی بھی ذی شعور آدمی کو حیران کرتی ہوگی، لیکن صدقے جاؤں پاکستانی قوم کے، ہمارے ملک میں ایسے اشخاص ہمارے مقبول رہنما بنتے ہیں۔ کسی خاتون سے محض اس کی دولت حاصل کرنے کے لیے شادی کرنا کتنا سخت گناہ ہے، اور اس عمل کو آج جدید دنیا کس نگاہ سے دیکھتی ہے، مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
پہلی بیوی سے تو انہیں کوئی رغبت نہیں تھی، لیکن اپنی دوسری اہلیہ سے بھی وہ وفا نہ کر پائے۔ جہاں پہلی بیوی سے شادی محض زمین کے غرض سے تھی، بھٹو نے دوسری شادی پسند کی کی تھی۔ یاد رہے بھٹو سندھی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ نصرت بھٹو ایرانی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ دونوں کے گھرانے پہلے شادی پر راضی نہیں تھے، لیکن بچوں کی ضد کے آگے گھر والوں نے اپنی ضد کو خارج کردیا۔ (ص39)نصرت بھٹو سے بھٹو کی قربت اتنی تھی کہ جب بھٹو انگلستان میں پڑھ رہے تھے، تب نصرت بھٹو بھی ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ (ص40)لیکن بعد ازاں یہ شادی بہت سی شادیوں کی طرح رسمی شکل اختیار کرگئی۔
1961ء میں ذولفقار علی بھٹو ایک شادی شدہ عورت سے ملے جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ اس عورت کا نام حسنی تھا۔ حسنی خاتون اپنی خوبصورتی کے حوالے سے جانی جاتی تھیں۔۔ انہیں"بلیک بیوٹی "کہا جاتا تھا۔ ذولفقار علی بھٹو حسنی کے عشق میں گرفتار ہوگئے، اور اس بات کا بیگم نصرت بھٹو کو اچھی طرح پتہ تھا۔ بھٹو کے سوانح نگار سٹینلی والپرٹ لکھتے ہیں:
"زلفی نے (بیگم نصرت بھٹو کے سامنے)نہ صرف اپنی نئی محبت کا اقرار کیا بلکہ اس پر شیخی بھی ماری، اپنی سانولی سلونی خوبصورت(معشوقہ) کی تعریف کی"۔ (ص70)
یعنی ذولفقار علی بھٹو نہ صرف ایک غلط کام کر رہے تھے، بلکہ ساتھ ہی وہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنی اہلیہ کے سامنے اعتراف کر رہے تھے کہ وہ کسی دوسری خاتون کے ساتھ چکر چلا رہے ہیں۔ اس کے بعد ذولفقار علی بھٹو کے اپنی اہلیہ کے ساتھ مسلسل اس حوالے سے جھگڑے ہوتے رہے، حتی کہ 1962ء میں ذولفقار علی بھٹو نے نصرت بھٹو کو اپنے گھر سے نکال دیا۔ اُس حالت میں بیگم نصرت بھٹو اردیشر کاواسجی کے پاس گئیں۔۔ جو شپنگ کے کاروبار سے منسلک تھے، ساتھ ساتھ وہ مقتدر حلقوں کے بھی قریب تھے۔ کاواسجی فرماتے ہیں:
"ہم پنڈی میں فلیش مین ہوٹل میں تھے۔ بیگم نصرت مسز ڈیوس کے ہوٹل سے روتی ہوئی چلی آئی تھیں (کہہ رہی تھیں )کہ زلفی نے مجھے باہر پھینک دیا ہے"۔
کاواسجی صاحب کی بیگم نینسی کی ایوب خان کی بیٹی کے ساتھ بڑی گہری دوستی تھی۔ لہذا کاواسجی کے ذریعے یہ واقع ایوب خان تک پہنچا۔ ایوان صدر سے ایک گاڑی روانہ کی گئی نینسی اور نصرت بھٹو کو لے جانے کے لیے۔ اسٹینلی والپرٹ لکھتے ہیں کہ بیگم ایوب(ایوب خان کی اہلیہ) کے سامنے نصرت بھٹو دھاڑیں مار کر رونے لگیں۔ انہوں نے بیگم ایوب کو سب بتا دیا کہ کیسے ان کے بےوفا شوہر نے انہیں سامان سمیت گھر سے باہر نکال دیا تھا۔
اس واقعے کی خبر جیسے ہی صدر ایوب کو پہنچی، ذولفقار علی بھٹو کو بلا لیا گیا۔ اس وقت بھٹو ایوب کابینہ میں شریک تھے۔ بعد ازاں وہ وزیر خارجہ بھی بنے۔ صدر ایوب نے بھٹو کے سامنے دو راستے رکھے: انہیں اپنی بیوی کو واپس اپنے گھر لینا ہوگا، ورنہ بصورت دیگر انہیں وزارت سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ بھٹو اقتدار کے بھوکے تھے، وہ کابینہ سے رخصتی نہیں لے سکتے تھے۔ لہذا انہوں نے اپنی بیگم کو گھر واپس بلا لیا۔
البتہ اگلے دن وہ غصے میں کاواسجی کے پاس گئے اور انہیں کہا: "میں اس کے لیے تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا! "اور آگے جاکر حقیقت میں بھٹو نے ان سے اس بات کا بدلہ بھی لیا۔ (ص71)آج مجھے حیرت ہوتی ہے جب بہت سے لوگ، جو روشن خیال ہیں اور عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں، وہ ایوب خان کو ایک ظالم شخصیت کے طور پر پیش کرتے ہیں، جبکہ بھٹو کو ایک نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ حقیقت اس کے الٹ ہے۔
البتہ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ بھٹو حسنی کے عشق سے باز آگئے تھے۔ الٹا حسنی خاتون نے اپنے شوہر سے علیحدہ ہوکر کراچی ہجرت کرلی تھی۔ بھٹو نے اپنی وسیع دولت کا استعمال کرکے انہیں کراچی کے پوش ترین علاقے کلفٹن(بھٹو کے اپنے گھر کے قریب) ایک رہائش گاہ خرید کر دی تھی۔ بھٹو گاہے بگاہے حسنی کے پاس جاتے رہتے تھے، اور اب تو حسنی کی رہائش ان کی اپنی رہائش کے چند منٹوں کے فاصلے پر تھی۔ اسٹینلی والپرٹ لکھتے ہیں:
"(صدر)ایوب کے انتباہات اور غیر معمولی مشورے نے زلفی کے دل یا رویے میں کوئی تبدیلی نہیں لائی"۔
جب بھٹو باز نہ آئے، تو ان کی اہلیہ نے ان سے علیحدگی بھی اختیار کی تھی۔ بیگم نصرت بھٹو کچھ مہینوں کے لیے ایران بھی چلی گئی تھیں۔ اس دوران بھٹو نے انہیں اپنے بچوں سے ملنے کی اجازت نہیں دی۔ بیگم نصرت تو بچوں کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتی تھیں، لیکن بھٹو اس حوالے سے بالکل واضح تھے کہ اگر وہ گئیں تو وہ اپنے بچوں سے نہیں مل پائیں گی۔ لہذا، اپنے بچوں کی خاطر بیگم نصرت بھٹو کو واپس آنا پڑا۔ بعدازاں ایک بار نصرت بھٹو نے خود کشی بھی کی تھی، لیکن بھٹو کے طبیب نے ان کی جان بچا لی تھی۔ (ص82)
دوستو! ابھی تو ہم نے محض بھٹو کی نجی زندگی کی داستان آپ کو سنائی ہے، مزید حقائق ہم اگلی قسط میں بیان کریں گے۔ لیکن اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کیجیے گا کہ آج یہی بھٹو اس قدر رومانوی انداز میں بطور ایک نجات دہندہ کے طور پر کیوں پیش کیا جاتا ہے؟ یہ جو باتیں اوپر ہم نے درج کی ہیں، یہ معمولی گناہوں اور مظالم کی نشاندہی نہیں کرتیں۔ ہر شوہر اپنی بیوی کے ساتھ تھوڑی بہت زیادتی ضرور کرتا ہے، لیکن اس قدر زیادتی کو معمولی نہیں سمجھا جاسکتا۔ کسی خاتون سے زمین حاصل کرنے کے لیے شادی کرنا، پھر جس عورت سے پیار محبت کی شادی کی اس کے ساتھ بے وفائی کرنا، اس کو گھر سے باہر نکالنا، اس کو اپنے بچوں سے نہ ملنے دینا، حتی کہ اپنی معشوقہ کے لیے اپنے گھر کے قریب ایک گھر کا بندوبست کرنا، یہ سب معمولی باتیں نہیں۔
رسول اللہﷺنے فرمایا تھا کہ "تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو"۔ (جامع ترمذی، حدیث 3895) لیکن ہماری قوم ایسے لوگوں کو اپنا نجات دہندہ مانتی ہے، ایسے لوگوں کو مقبول بناتی ہے، جو اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی صحیح طرح مخلص نہیں ہوتے اور جو اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی مخلص نہیں وہ اپنی قوم کے ساتھ کیا مخلص ہوگا۔
خیر، دوستو! فی الحال ہم اس قسط کو ختم کرتے ہیں۔ اگلی قسط میں اپنی بقیہ گفتگو کو آگے بڑھائیں گے۔ ہمیں اجازت دیجیے۔ اللہ حافظ!
اور ہاں! اگر یہ مضامین آپ کو پسند آرہے ہیں، تو انہیں اپنے دوستو ں اور عزیزوں میں تقسیم ضرور کیجیے گا۔ اللہ حافظ!