Mughalitistan Aur Imran Khan, Pioneers Aur Hum (6)
مغالطستان اور عمران خان، پائینیرز اور ہم (6)
پچھلی قسط میں میں نے چند امریکی فلموں کا حوالہ دیا تھا۔ میں یہ سمجھا رہا تھا کہ امریکا جو آج ہمیں اتنا ترقی یافتہ نظر آتا ہے۔۔ پچاس ریاستوں پر مشتمل ایک عسکری اور معاشی سپر پاور۔۔ وہ دراصل ایک وقت میں خالی میدان تھا۔ اپنی آزادی کے وقت امریکا کی ریاستوں کی تعداد آج سے کئی گنا کم تھی۔ پھر امریکی لوگ مغرب کی جانب بڑھے اور پھر آہستہ آہستہ مختلف اقوام فرنگستان (یورپ) کی وہاں حجرت کرتی گئیں۔
لیکن اس خالی علاقے تک جانا، ان خالی علاقوں کو آباد کرنا، یہ سب لوگوں کی اپنی کاوشوں پر منحصر تھا۔ آج ہم ایک کتاب کا تذکرہ کریں گے اس حوالے سے۔ لہذا اس مضمون کو غور سے پڑھیے گا۔ کیونکہ آج امریکی ریاست اپنے ملک کے لوگوں کو جو سہولیات دیتی ہے، اس کے پیچھے کتنے لوگوں کی کیا کیا قربانیاں ہیں وہ ہمیں نہیں بتائی جاتیں۔ ہمیں بس وہاں کی خوشحالی دکھائی جاتی ہے، اس کے پیچھے لوگوں کی، بغیر ریاستی مشینری کے، بغیر شکوے شکایت کے، محنت اور قربانیوں کا شازو نادر ہی ذکر ہوتا ہے۔
میں امریکا کے بہت ہی قابل اور جانے مانے مورخ ڈیوڈ میککلو کی کتاب "دا پائینیرز" کا حوالہ دوں گا۔ کتاب کا نام "دا پائینیرز" اس لیے ہے کیونکہ اس دور میں ان لوگوں کو پائینیرز ہی کہا جاتا تھا جو ان خالی علاقوں کا رخ کرتے تھے، پھر ان علاقوں کو آباد کرتے تھے، شہر اور گاؤں تعمیر کرتے تھے، بغیر ریاست کے پیسے اور امداد کے وہاں بستیاں آباد کرتے تھے، قدرتی آفات اور بیماریوں کا سامنہ کرتے تھے، کئی بار اشیائے خوردونوش کی قلت کی وجہ سے کئی دن فاقوں پر اکتفا کرتے تھے۔
کتاب میں سینٹ کلئیر کا ایک قول درج ہے، جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ امریکی جو ان خالی میدانوں کا رخ کرتے تھے، وہ کتنے با علم تھے ان علاقوں کے بارے میں:
"ہمارے پاس کوئی گائیڈ نہیں تھا۔ ملک میں ایک بھی شخص ایسا نہیں ملا جو کبھی ان راہوں سے گزرا ہو۔ اور جغرافیہ اور ٹوپوگرافی کے حوالے سے بھی ہم لاعلم تھے"۔ (صفحہ 100)
یعنی ان لوگوں کے پاس ان خالی علاقوں کے حوالے سے کوئی جغرافیائی علم موجود نہیں تھا۔ یہ اپنی مدد آپ ان علاقوں کا رخ کرتے تھے۔ ریاست کے پاس کوئی صحیح نقشہ انہیں فراہم کرنے کے لیے نہیں تھا۔ ریاست خود ان لوگوں سے امیدیں وابستہ کرکے بیٹھی تھی کہ یہ لوگ وہاں جاکر خود اپنے آپ کو آباد کریں۔ امریکا جب آزاد ملک کے طور پر وجود میں آیا تھا تب اس کے پاس نہ آج کے طرز کی فوج تھی اور نہ ہی آج کے طرز کی معیشت۔ یہ سب کچھ بعد میں ہوا۔ اور اس کے پیچھے ان پائینیرز کا ہاتھ تھا۔
ان پائینیرز کو کتنی ریاست کی امداد حاصل تھی امن و امان اور دوسرے اہم معاملات کے حوالے سے، اس کا اندازہ کتاب کے چوتھے بات کا مطالعہ کرکے آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ صفحہ 91 میں ریڈ انڈینز (جنہیں مقامی امریکی کہا جاتا ہے آج) کی ایک دھمکی کا ذکر ہے۔ میریئٹا کے آباد کار گوروں کو ریڈ انڈینز کی جانب سے یہ دھمکی سننے کو ملی کہ سردی کے موسم کے بعد، موسم بہار میں، کسی بھی گورے آباد کار کے گھر سے دھواں آسمان میں خارج ہوتا نہیں ملے گا۔ یعنی نہ گورے ہونگے، نہ وہ لکڑی جلائیں گے اور نہ وہ کھانا بنائیں گے یا اپنے آپ کو گرم رکھ پائیں گے، جس کی وجہ سے دھواں ان کے گھر سے آسمان میں خارج ہوگا۔ یہ دھمکی سنتے ہی گوروں کے آبادکاروں میں تھر تھلی مچ گئی۔
روفس پٹنم، جو کتاب "دا پائینیرز" کے ایک اہم مرکزی کردار ہیں اور ساتھ ساتھ اس دور کے آباد کاروں کی تحریک کے بھی، انہوں نے اس خطرے کے پیش نظر تین اہم لوگوں کو خطوط لکھے۔ ان خطوط سے اندازہ لگا لیں کہ ان بیچارے پائینیرز کو کتنی ریاست کی جانب سے امداد مل رہی تھی۔ اس اہم موقع پر جب ریڈ انڈینز انہیں ختم کرنے کی دھمکی دے رہے تھے، ایک خط انہوں نے میسچوسٹز کے گورنر کو لکھا، دوسرا صدر واشنگٹن کو اور تیسرا سیکرٹری اوف وار (یعنی وزیر دفاع) کو۔
اب یاد رہے میرئیٹا میں بہت کم فوج کی نفری تھی۔ لہذا ریڈ انڈینز کی دھمکی کے پیش نظر روفس پٹنم ان اعلی حکومتی عہدداران کو فریاد کر رہے تھے کہ فوج کی اضافی نفری بھیجیے۔ میسچوسٹزکے گورنر کو بذریعہ خط انہوں نے کہا:
"کیا ہم نے انقلات (امریکا) کے ذریعے اور اب تک آئینی حکومت کے ساتھ اپنے ملک سے اپنی وفاداری اور محبت کا سب سے واضح ثبوت نہیں دیا؟ پھر، خدا کا واسطہ ہے، آپ ہماری حفاظت کیوں نہیں کرتے؟" (صفحہ 93)
اسی طرح امریکی صدر وانشنگٹن کو خط لکھ کر انہوں نے فریاد کی کہ:
"جب تک حکومت ہماری حفاظت کے لیے فوری طور پر فوج نہیں بھیجتی ہم برباد ہوجائیں گے"۔ (صفحہ 93 تا 94)
اب یاد رہے تھوڑی نفری موجود تھی، لیکن وہ لوگوں کے دفاع کے لیے انتہائی کم تھی۔ لہذا ملک کے وزیر دفاع کو روفس پٹنم نے خط لکھتے ہوئے بڑی معقول بات کہی:
"بہتر یہ ہے کہ حکومت اپنے فوجیوں کو ابھی (شمال مغربی) ملک سے واپس بلا لے۔۔ بجائے اس کے کہ چند فوجیوں پر عوام کا پیسہ ضائع کیا جائے جو علاقے میں اپنے امن قائم کرنے کے مقصد کے لیے بالکل ناکافی ہیں"۔ (صفحہ 94)
خیر، ریاست کی جانب سے کوئی اضافی نفری تو نہ پہنچی، البتہ مارچ کے مہینے میں ریڈ انڈینز نے اپنی کاروائی شروع کردی۔ کئی گورے آباد کار موت کی گھاٹ اتار دیے گئے۔ بالآخر، مئی کے مہینے میں گانگریس نے اس حوالے سے پیش قدمی کی۔ 2000 کی فوج کو آباد کاروں کی مدد کے لیے اکھٹا کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس حوالے سے کتاب "دا پائینیرز"کے مصنف لکھتے ہیں:
"حکومت کے پاس عملی طور پر نہ فوج تھی اور نہ ہی پیسہ"۔ (صفحہ 96)
یعنی یہ سارا کچھ کرنے کے لیے ریاست کے پاس حقیقت میں کوئی طاقت نہیں تھی۔ جو فوج تھی بھی سہی، وہ کچھ اس قسم کی تھی:
"ان میں سے زیادہ تر مشرقی (امریکی ریاستوں کے) شہروں کی گلیوں اور جیلوں سے جمع کیے گئے مرد تھے، جنہیں پیسے اور وہسکی کی رشوت دے کر اس کام کے لیے بھرتی کیا گیا تھا۔ بہت سے افسران کو بھی "اس کام" جس میں وہ مصروف تھے، بالکل ناواقف دیکھا گیا۔ جگہ پر موجود کوارٹر ماسٹر اور ٹھیکے دار معیار سے واضح طور پر نیچے تھے"۔ (صفحہ 97)
ہمیں آج جو امریکا اتنا طاقتور نظر آتا ہے، اس کی ابتدائی تاریخ یہ ہے۔ ریاست کے پاس پیسہ نہیں، تربیت یافتہ فوجی نہیں، لوگ خود خالی علاقوں کو آباد کر رہے ہیں، ریاست کی انتہائی کم کارکردگی ہے، لوگ اپنی مدد آپ خود اپنے کام کر رہے ہیں۔ دو منٹ کے لیے سوچیں کہ اگر اس دور کے امریکی بھی اس عظیم مغالطے کا شکار ہوتے، جس کا ذکر ہم اپنی دوسری قسط سے کرتے آرہے ہیں، تو ان لوگو ں کا کیا بننا تھا؟
اور صرف امن و امان کے حوالے سے مشکلات نہیں تھیں، بلکہ دوسری بھی مشکلات تھیں جن کا ذکر ہم پچھلے مضمون میں کرچکے ہیں۔ ایک مثال اس کتاب سے بھی پیش کرتے ہیں آپ کی خدمت میں۔ مثلاً، صفحہ 68 میں درج ہے کہ کیسے غذائی قلت کی وجہ سے ایک شخص بذریعہ کشتی پٹسبرگ جاتا ہے تاکہ وہ وہاں اشیائے خرد و نوش حاصل کرسکے اور اس کی واپسی ہی ممکن نہیں ہوپاتی کیونکہ سردی کی وجہ سے دریا برف میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر میرئیٹا کے ایک آباد کار کا جملہ درج ہے: "ہم سب روٹی کے لیے بھوکے تھے"۔
جی ہاں! یہ امریکا کی بات ہورہی ہے۔ کسی غریب افریقی ملک کی نہیں۔ ہم دوسرے ملکوں کی ترقی دیکھتے ہیں، یہ نہیں دیکھتے کہ وہ بھی ہماری ہی جگہ سے ہوکر گزرے ہیں۔ لیکن فرق پتہ ہے کیا ہے؟ یہ ہے فرق:
کتاب کےچند صفحے (صفحہ 70 تا 75) ایسے ہیں کہ آپ کی آنکھیں کھول دیں گے کہ کیوں کچھ ممالک ہزاروں مشکلات کے باوجود ترقی کرپاتے ہیں۔ جبکہ ان کی بھی حالت ایک وقت میں پتلی ہوتی ہے۔ اب یاد رہے ہم اس دور کے آبادکاروں کی مشکلات کا ذکر کرچکے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود مصنف لکھتے ہیں کہ:
"وہ (یعنی کہ آبادکار) بہت کم اپنی جدو جہد اور مشکلات کا احوال درج کرتے ہیں۔ لگتا ہے خواتین کی جانب سے بڑے پیمانے پر ہچکچاہٹ تھی کہ اپنے گھر والوں کو اپنی مشکلات اور خوف اور پچھتاوے پر کچھ کہا جائے"۔ (صفحہ 72)
اس دور کی عورتوں کےایک مشہور جملے کو بھی کتاب میں نقل کیا گیا ہے، جو یہ ہے: "میں تمہیں شکایت سے تکلیف نہیں دوں گی"۔ (صفحہ 73)
یعنی ساری مشکلات کے باوجود، اس دور کے مرد اور خواتین شکایت نہیں کرتے تھے۔ دو منٹ کے لیے سوچیں کہ وہ کن مشکلات سے گزر رہے تھے، محض اپنی اگلی نسل کو ایک آباد ملک دینے کے لیے۔
ان لوگوں کو پاس تو بالکل ٹھیک جواز تھا امریکی ریاست پر لعنت بھیجنے کے لیے۔ لوگوں کی جان اور مال کا تحفظ اگر اس وقت کی ریاست نہیں کر پارہی تھی، تو امریکیوں کا شکوہ بنتا تھا کہ بھئی! پھر کس نام کا ملک؟ لیکن اکثر لوگوں نے اس قسم کی سوچ نہیں اپنائی۔ تبھی ان ساری مشکلات کے باوجود، امریکی آگے بڑھتے گئے۔ میری آپ سے درخواست ہے آپ اس کتاب"دا پائینیرز "کا مطالعہ ضرور کیجیے گا۔ یہ کتاب اس دور میں آپ کو لے جائے گی۔
آج پاکستانیوں کو تو اس دور کے لوگوں سے زیادہ سہولیات میسر ہیں۔ ہم ریاست کی طرف توجہ مرکوز کرنے کے بجائے، احتجاج دھرنے منعقد کرنے کے بجائے، حکمران، نظام اور قوانین تبدیل کرنے کے بجائے، اگر اپنی توانائیاں اس بات پر صرف کریں کہ ہم خود ٹھیک کریں گے اپنی گلیاں اور اپنے شہر اور گاؤں دیہا ت، تو پاکستان کی تقدیر بدل جانی ہے۔ ہم نےچوتھی قسط میں کئی مثالیں اس حوالے سے پیش کیں، انہیں ملاحظہ کیجیے۔ ایسا ہوسکتا ہے۔ سر سید کی نصیحت کا ہم اپنی تیسری قسط میں ذکر کر چکے ہیں، اس کا مطالعہ کیجیے۔
ہر قوم نےغریبی دیکھی ہے۔ ہر قوم کو مشکلات کا سامنہ رہا ہے۔ بلکہ ہم نے تو کئی مشکلات دیکھی ہی نہیں۔ جاپان پر ایٹم بم گرا، آج تک وہاں قدرتی آفات اس ملک کو اپنے گھیرے میں لیتی ہیں، لیکن جاپان کہاں کھڑا ہے؟ سب کو پتہ ہے۔ امریکا کی مثال میں پیش کر چکا ہوں۔ کوئی بھی آج کا امیر ملک پیدائشی طور پر امیر نہیں تھا۔
بلکہ دوسرے ملکوں کی بات چھوڑیں۔ میں نے اسی ویب سائیٹ پر 2022ء کے دسمبر کے مہینے میں"پرانا پاکستان"کے عنوان سے سلسلہ وار مضامین قلم بند کیے تھے۔ میں نے اس میں کئی مثالیں پیش کیں کہ کیسے اس وقت جب ہمارا ملک وجود میں آیا، تب نہ ریاست کے پاس آج کے دور کے وسائل تھے اور نہ ہی کوئی بیرونی امداد، لیکن لوگوں کا پاکستان سے پیار ایسا تھا کہ کئی مشکلات کے باوجود ملک اس نازک مرحلے سے گزر گیا۔ آج ریاست کے پاس اس وقت سے زیادہ سرمایہ ہے اور سہولیات بھی۔ لوگوں کے حالات بھی اس دور کے حالات سے کافی تبدیل ہوگئے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود ہم ایک شکوے کرنے والی قوم بن گئے ہیں۔ اور کوئی ریاست، حکومت اور حکمران ہمیں ناشکری سے شکر تک نہیں لے جاسکتے۔
"ہم دیکھیں گے" کے عنوان سے منصور علی خان صاحب کا ایک ٹی وی پروگرام "ہم نیوز" پر نشر ہوتا ہے۔ 28 ستمبر 2023ء کی نشریات یو ٹیوب پر موجود ہے جس میں منصور صاحب نواز شریف کے حلقے کے لوگوں سے ان کے تاثرات لیتے ہیں۔ اب یاد رہے ہم پاکستان کے کسی غریب علاقے کی بات نہیں کر رہے۔ یہ پاکستان کا ترقی یافتہ شہر ہے جس کی مثال میں پیش کر رہا ہوں۔ جس شہر کی سہولیات دیکھ کر کئی گاؤں اور چھوٹے شہروں کے لوگ وہاں کا رخ کرتے ہیں۔ پروگرام میں ایک صاحب منصور صاحب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں:
"منصور! آج آپ میٹرو میں کبھی سفر کریں آپ کو کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ملتی۔ لوگ اپنی گاڑیاں پارک کرتے ہیں، اپنی موٹر سائیکلیں پارک کرتے ہیں۔۔ "
منصور علی خان قطع کلامی کرتے ہیں اور کہتے ہیں:
"میٹرو؟ وہ تو میاں صاحب نے دی تھی"۔
اب یاد رہے وہ بندہ جس جماعت کے حق میں یہ سب کہہ رہا تھا، یعنی پی ٹی آئی، اس کے زیر نگرانی کتنی جلدی پشاور کا بی آر ٹی منصوبہ بنا اور اس کی کیا کیا داستانیں باہر آئیں، وہ حقائق سب کے سامنے کھلے ہیں۔ بی آر ٹی 2013ء کے بعد قائم ہونے والی پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کا منصوبہ تھا، لیکن وہ منصوبہ 2018ء کے انتخابات کے بعد بھی ریاست کے پیسے کو کھاتا رہا، مکمل نہ ہوا۔ بی آر ٹی منصوبہ کتنا مہنگا بنا، کتنا عوام کو نقصان ہوا، کتنا وقت ضائع ہوا، کئی دکان داروں کا نقصان ہوا۔۔ اس بات سے وہ صاحب بالکل عاری نظر آئے منصور صاحب کے پروگرام میں، جن کا ذکر میں کر رہا ہوں۔ الٹا فرمانے لگے:
"میاں صاحب نے پلے سے دی تھی؟ قوم کا پیسہ، ہم ابھی بھی پاکستان اس کو درے رہا ہے چائینا کو"۔
اس سے زیادہ میں آپ کو جہالت کی کوئی اور مثال پیش نہیں کرسکتا۔ یعنی موصوف خود مان رہے ہیں کہ پیٹرول مہنگے ہونے سے کئی لوگ میٹرو میں سفر کر رہے ہیں، لیکن بجائے یہ شکر کرنے کے کہ ان کے شہر کو یہ نعمت میسر ہے، وہ الٹا میٹرو بنانے والی حکومت پر لعن طعن کر رہے ہیں۔ جس جماعت کے لیے وہ یہ سب کہہ رہے ہیں، اس جماعت نے پشاور میں عوام کے پیسے کے ساتھ کیا کیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ بی آر ٹی کے حوالے سے بیشمار حقائق پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر موجود ہیں۔ لیکن جہالت ملاحظہ کریں عوام کی۔
ساتھ ساتھ موصوف کو یہ بھی نہیں پتہ کہ کتنے دوسرے علاقوں کے لوگ اس میٹرو سروس کے لیے ترستے ہونگے۔ لیکن انہیں وہ سہولت میسر نہیں۔ لیکن اگر کسی شہر کے لوگوں کو میسر ہے تو وہ اس کی قدر نہیں کرتے۔ ٹھیک کہتے ہیں کچھ لوگ کہ اگر پاکستانی جنت بھی چلے گئے تو انہوں نے وہاں بھی کیڑے ہی نکالنے ہیں، شکایتیں ہی کرنی ہیں۔
دوسرا یہ کہ کوئی ان جاہل صاحب کو بتائے کہ بھئی! ساری ترقی یافتہ دنیا میں یہ ہوتا ہے۔ جاپان، امریکا، انگلستان وغیرہ جیسے ملکوں میں بھی لوگ اپنی گاڑی پارک کرتے ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کا سہارہ لیتے ہیں۔ جاپان کی کئی وڈیوز آپ کو ملیں گی کہ کیسے وہاں لوگ ریل گاڑی میں ٹھوسے جاتے ہیں کیونکہ جگہ کم ہوتی ہے۔ لیکن کیا کریں، وہ شکایت نہیں کرتے، اور اللہ انہیں نواز رہا ہے ان کے صبر اور شکر گزاری پر۔ اور ہم ہیں کہ نعمت ملے تو اس کا فائدہ اٹھا کر بھی اس پر لعن طعن کرتے ہیں۔
خیر، دوستو! یہ مضمون طویل ہوگیا۔ لہذا مزید گفتگو اگلی قسط میں ہوگی۔ فی الحال مجھے اجازت دیجیے۔ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ اللہ حافظ!