Mughalitistan Aur Imran Khan, Mughalta e Azeem (2)
مغالطستان اور عمران خان، مغالطہ عظیم (2)
امریکی ماہر اقتصادیات تھامس سوویل صاحب اپنی تصنیف "ویلتھ، پاورٹی اینڈ پالیٹکس"(ریوائزڈ اینڈ انلاجرڈ ایڈشن، بیسک بکز) میں ایک زبردست بات لکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "آپ جب لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں، آپ ان سے سچ بولتے ہیں۔ آپ جب اپنی مدد کرنا چاہتے ہیں تو آپ انہیں وہ سناتے ہیں جو وہ سننا چاہتے ہیں"۔ (ص365)
اس جملے کو ذہن میں رکھیں اور پھر قرآن پاک کے پیغام پر غور کریں۔ جہاں بھی انبیاء کرام کی جدو جہد کا ذکر ہے، وہیں آپ کو یہ پڑھنے کو ملے گا کہ ان کی قوم ان کے خلاف ہوگئی۔ کیوں؟ کیونکہ انبیاء کرام حق بولتے تھے۔ وہ چاہتے تو آج کے دور کے سربراہان کی طرح عوام کی تائید حاصل کرنے کے لیے، مقبول بننے کے لیے، عوامی رائے کو کثرت سے اپنی طرف سمیٹ کر اقتدار حاصل کرنے کے لیے، ایسے ایسے کام کرتے، ایسی تقریریں کرتے کہ لوگ ان کے دیوانے ہوجاتے۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
ان کا مقصد اللہ کا اجر حاصل کرنا تھا، لوگوں کی داد سمیٹنا نہیں۔ معتدد انبیاء کرام کا قول قرآن میں درج ہے اس حوالے سے۔ مثلاً، حضرت نوحؑ کا قول موجود ہے، انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ "میں نے تم سے معاوضہ نہیں مانگا، میرا معاوضہ تو خدا کے ذمے ہے"۔ (سورۃ یونس، آیت72) اور یہ جملہ آپ کو تمام انبیاء کرام سے منسوب ملے گا قرآن پاک میں۔ وہ جب بھی حق کی دعوت پیش کرتے تھے، ساتھ یہ بات ضرور کہتے تھے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسا کیا کہتے تھے کہ ان کی اپنی قوم ان کےخلاف ہوجاتی تھی؟ اس سوال کا جواب آج کے ہمارے سب سے بڑے مغالطے کو پاش پاش کردیتا ہے۔ آج اگر عمران خان جیسے لوگ ہمارے مقبول رہنما ہیں، وہ اپنا منجن بیچ رہے ہیں، اور ان کا منجن خوب بک رہا ہے، تو اس کی وجہ ایک ایسا عظیم مغالطہ ہے، جس نے ہماری ساری توانائیاں اور ہمارے اکثراوقات اور ہمارا بھاری سرمایہ غلط جانب گھسا دیا ہے۔
آج آپ کسی بھی ملک چلے جائیں، لوگوں کی کردار سازی پر بات نہیں کی جائے گی اور اگر کی جائے گی تو اس شدت اور جذبے کے ساتھ نہیں کی جائے گی، جس شدت اور جذبے کے ساتھ نظام، قوانین اور حکومت کو تبدیل کرنے کی بات کی جائے گی۔ کوئی ملک غریب ہے، پسماندہ ہے، تو بحث کا محور و مرکز یہ ہوگا کہ اجی!حکومت ٹھیک نہیں، فلاں قوانین نافذ العمل ہوجائیں، فلاں لوگ اقتدار اور اہم عہدے سنبھال لیں تو معاملہ ٹھیک ہوسکتا ہے۔ کچھ تو کہیں گے کہ بھئی!بڑے پیمانے پر تبدیلی اور انقلاب لانے کی ضرورت ہے، بس ایک بار ظالم نظام گر جائے، صحیح لوگوں کو مکمل اختیار مل جائے، پھر دیکھو کیسے یہی لوگ جو آج پستی کا شکار ہیں، یہ پھر امریکا کو ٹکر ماریں گے اور چین کی صنعتوں کا بیڑا اپنے سر اٹھائیں گے۔ یہ آج دوسری دنیا سے بھیک مانگ رہے ہیں، کل دوسری دنیا ان سےبھیک مانگے گی۔
یہ ہے وہ سبز باغ جو لوگوں کو دکھایا جاتا ہے۔ احتجاج کرنا، جلوس نکالنا، نعرے بازی، جلسے، تقاریر وغیرہ اس ہی سوچ کی پیداوار ہیں۔ لیکن اگر یہ کام غیر مسلم کرتے تو ہم کہتے ان کے پاس اللہ کی آخری کتاب نہیں۔ اگر ہے بھی تو یہ اس کا مطالعہ نہیں کرتے۔ اگر کرتے بھی ہیں تو اس پر ایمان نہیں لاتے اور اس حوالے سے غور و فکر کرنے سے عاری ہیں۔ لیکن آج تو مسلمان اس قسم کی حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ حیرت کی بات تو ہے ہی، لیکن یہ شرمندگی کی بات بھی ہے۔
انبیاء کرام چاہتے تو آج کے دانشوروں کی طرح اپنی قوم کو سبز باغ دکھاتے۔ لیکن انہوں نے قوم کا اصل چہرہ ان کے سامنے افشا کیا۔ انہوں نے محض اشرافیہ ہی نہیں عام لوگوں کی برائیاں بھی گنوائیں۔ انہوں نے قوم کی حالت کا ذمے دار قوم کے اکثر افراد کو ٹھہرایا۔
کہیں قرآن میں یہ نہیں پایا جاتا کہ چند اشخاص تھے جن پر عذاب نازل ہوا کیونکہ ان کے ہونے سے معاشرہ بے راہ روی کی جانب گامزن تھا۔ چاہے ناپ تول میں بے ایمانی ہو، چاہے مرد کا مرد کو پسند کرنا ہو، چاہے اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کرنا ہو، سارے گناہ اکثر لوگوں کے کھاتے میں ڈالے گئے، اور جب عذاب کا نزول ہوا تو سب پر ہوا۔ سوائے ان لوگوں کے جو برائی میں ملوث نہیں تھے اور جنہوں نے انبیا کرام کا ساتھ دیا۔ لیکن وہ لوگ تھوڑے تھے۔ اکثر عذاب کی بھینٹ چڑھ گئے۔ (اکثریت کے بارے میں قرآن پاک کی رائے پر انشاء اللہ ان مضامین میں مناسب جگہ پر گفتگو کی جائے گی)۔
انبیا کرام چاہتے تو آج کے دانشوروں کی طرح سارا قصور اشرافیہ پر ڈال کر، عام عوام کے ساتھ یکجہتی ظاہر کرتے ہوئے آج کے طرز پر نعرے بازی کرتے، حکومت اور اشرافیہ پر لعن طعن کرتے اور عوامی حمایت حاصل کرتے۔ لیکن انہیں پتہ تھا، چند برے لوگ کثرت رکھنے والے اچھے لوگوں پر غالب نہیں آسکتے۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک جاہل علماء کی محفل میں آ بیٹھے؟ ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی سیدھا آدمی لوفروں کی صحبت میں لطف اندوز ہو؟ کیا کوئی فحش حرکتیں کرنے والا ایسی محفل میں مطمئن ہوگا جہاں اکثر فحاشی پر لعن طعن کر رہے ہوں؟ لہذا انبیا کرام جانتے تھے کہ اگر معاشرہ آلودہ ہے، برائیوں میں ملوث ہے، تو اس کا ذمے دار چند لوگوں کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ بھر پور عوامی تائید یا بیوقوفی یا لاعلمی کے بغیر چند برے لوگ معاشرے کو نہیں بگاڑ سکتے۔
ہم چند برائیوں کا جائزہ لیتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔
مثلاً، کیا جہیز کا رواج، جس سے کئی بچیاں شادی سے محروم ہوجاتی ہیں، جس سے لڑکی والوں کی خوب تضحیک کی جاتی ہے، کیا یہ اشرافیہ کا تحفہ ہےیا اکثریت معاشرے کی اس گناہ میں ملوث ہے؟ کیا نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان یا جسٹس فائز عیسی یا جنرل عاصم منیر اس حوالے سے لوگوں کو زبردستی کرتے ہیں؟ جواب عقلمند کے پاس ہے۔ کوئی لڑکے والوں پر اس حوالے سے بندوق ان کے سر پر نہیں رکھتا کہ "کرو یہ گناہ! ورنہ تمہیں جان سے مار دیں گے"۔ یہ بیماری اکثر بے شرم لوگوں کی تائید سے زندہ ہے آج تک۔
اسی طرح بچیوں کی وراثت انہیں نہ دینا، لڑکوں کے نام پوری ملکیت کر جانا، کیا یہ اشرافیہ کے دباؤ کے تحت ہوتا ہے؟ کس بندے کو اشرافیہ دھمکی دیتی ہے کہ "خبردار!اپنی بیٹی کو اس کا حق نہ دو۔ سارا کچھ لڑکے کے نام کر جاؤ"۔ اور کبھی کسی کو روتے دیکھا کہ "یار!میں اپنی بیٹی کو یہ یہ دینا چاہتا تھا لیکن اشرافیہ نے بندوق سر پر رکھ کر مجھ سے غلط کام کروا دیا"؟
تبماکونوشی، گٹگا، نسوار۔۔ یہ ساری برائیاں عمران خان، نواز شریف اور آصف زرداری یا اشرافیہ کے کسی بندے نے عام کیں؟ یا یہ ساری صحت تباہ کرنے والی چیزیں ہمارے منہ میں ہماری تائید کے ساتھ جاتی ہیں؟ جواب عقلمند کے پاس ہے۔ (یہ ذہن میں رہے کہ کوئی بھی سیاسی لیڈر ان برائیوں پر بات کرنا تو دور، ان برائیوں کا تذکرہ تک نہیں کرتا اپنی تقریر یا انٹرویو کے دوران۔ کیوں؟)
آپ جتنی بھی معاشرے کی برائیاں گننا شروع کریں گے، آپ کو لوگوں کی رضا سامنے نظر آئے گی۔ ورنہ اسی معاشرے میں ان برائیوں میں عدم دلچسپی اور عدم تعاون کرنے والے بھی آپ کو ملیں گے۔ کئی ان میں سے دور دور تک اشرافیہ سے تعلق نہیں رکھتے۔ وہ ان برائیوں سے اس لیے نہیں بچتے کیونکہ وہ سیٹھوں کی فہرست میں شامل ہیں یا زمینداروں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ بس تربیت ٹھیک مل گئی یا اللہ نے ویسے ہی بغیر والدین اور معاشرے کی تربیت کے شفقت ظاہر کردی اور یہ لوگ بہت سے گناہوں سے بچ گئے۔
آج معاشرے کی اصلاح اس لیے نہیں ہو پارہی کیونکہ ہم ایک بات کرتے ڈرتے ہیں۔ ہم مغربی طاقتوں پر اپنا زوال تھوپ دیں گے، ہم یہودی کی سازش کو قصور وار ٹھرائیں گے، ہم اشرافیہ، حکومت اور فوج اور ججز پر تنقید کریں گے۔ لیکن اکثریت پرنہیں۔ بلکہ میڈیا نمائندگان کی رپورٹنگ ہی کچھ اس قسم کی ہوتی ہے کہ"ہائے بیچاری عوام!کہاں جائیں لوگ!مہنگائی اتنی ہے۔۔ "
جیسے کہ میں نے کہا، یہ عظیم مغالطہ ہے جو ہمیں تباہ کر رہا ہے۔
یہی بیچاری عوام عوامی بیت الخلاؤں کا کیا حال کر آتی ہے، کیا سبکو معلوم نہیں؟ کوئی تمیز دار بندہ قضائے حاجت کے لیے ان بیت الخلاؤں کا رخ نہیں کرتا۔ کیوں؟ وہی لوگ جنہیں ہم معصوم عوام کہتے ہیں، کیا ہمیں نہیں معلوم کہ وہ عورت کے گزرتے ہی اسے کن نظروں سے دیکھتے ہیں؟ بے شک عورت کو پردہ کرنا چاہیے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ نہیں کرتی تو آپ کی آنکھوں کا گناہ معاف ہوجائے گا۔ اسی طرح یہ سڑکوں پرجو کچرا پڑا ہے، یہ نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان نے پھینکا ہے؟
یہ جو مہنگائی پر ماتم کیا جاتا ہے، اس کی اصل وجہ کیوں نہیں بتائی جاتی؟ کیا ہم ہر سال جتنی آبادی پیدا کرتے ہیں، اس کی دیکھ بھال بھی کرپاتے ہیں؟ بچے پیدا کرنا دنیا کا آسان ترین کام ہے، کم ازکم مردوں کے لیے اس میں کوئی تکلیف نہیں۔ لیکن بچے کو پالنا، اس کی صحیح تربیت (چاہے وہ دنیا وی تربیت ہو یا دینی)، اس کی صحیح نشو نما، اس کو کسی کام کا بنانا، دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔
لیکن اکثر محض بچوں کو پیدا کرنا جانتے ہیں، تربیت کرنا نہیں۔ آج مہنگائی کی یہی شرح نہ ہوتی اگر ہم بچوں کو پیدا کرنے سے پہلے سوچتے کہ کیا ہم اس بچے کے ساتھ انصاف کرپائیں گے۔ اس سوچ سے اتنے ہی بچے ہوتے، جتنے بچے ہم صحیح طرح معاشرے کے سامنے پیش کرسکتے اور اس کا لامحالہ یہ نتیجہ نکلتا کہ آج لوگ آٹے کی بوری پر نہیں لڑ رہے ہوتے۔ تربیت یافتہ آبادی ہوتی جو کہ آبادی کی شرح کے حساب سے پیداوار بھی بڑھاتی۔ لیکن ہم تو کافی کھانے پینے کی چیزیں بھی باہر سے درآمد کرتے ہیں، ایک ذرعی ملک ہونے کے باوجود۔
یہاں ہم اس دنیا میں داخل ہورہے ہیں جہاں کہا جارہا ہے کہ "اے آئے(آرٹیفیشل انٹیلیجنس)" کافی نوکریاں کھا جائے گا، دوسری طرف ہمارے کچھ دینی علما کہتے نظر آتے ہیں کہ بے دریغ آبادی پیدا کرو۔ روزگار نہیں تو کوئی بات نہیں، آپ کا پچہ بے شک ٹماٹر بیچ کر گزارا کرے۔
آج میں آپ کو ایک مشق دے رہا ہوں۔ باہر جاکر معاشرے کی ساری برائیاں ملاحظہ کریں اور ان لوگوں کو بھی ملاحظہ کریں جو ان برائیوں سے محفوظ ہیں۔ دیکھیں کہ اشرافیہ اور قوانین اور حکومت اور اس کے نظام کا ان برائیوں سے کتنا تعلق ہے؟ یہ بھی دیکھیں کہ جو لوگ ان برائیوں میں ملوث نہیں، وہ کس لیے ملوث نہیں؟
جب تک ہم اس عظیم مغالطے کو لوگوں کے ذہنوں سے فارغ نہیں کریں گے، پاکستان کبھی ترقی نہیں کرے گا۔ ورنہ بصورت دیگر ہمیں اپنے آپ سے جھوٹ بولنا پڑے گا۔ بولیں کہ ہم اتنے ہی محنت کش ہیں، اتنے ہی صفائی پسند ہیں، جتنے چینی اور گورےاور جاپانی ہیں۔ بس فرق اتنا ہے کہ وہ صحیح نظام حکومت اور حکمرانوں سے مستفید ہیں اور ہم نہیں۔ بولیں اتنا بڑا جھوٹ۔
ایک قوم ترقی کرتی ہے تو اس کا سارا دارومدار اس کی حکومت پر ہوتا تو نعوذ باللہ! اللہ انصاف کرنے والا نہ ہوتا۔ لیکن اللہ انصاف کرتا ہے۔ اس نے قوموں کے ساتھ جوا نہیں کھیلا کہ جس کا چھکا لگا اس کی حکومت اچھی، اور جس کا چھکا نہ لگا وہ بدتر حکومت کا نتیجہ حاصل کرے گا۔ اور چھکا بھی مسلسل نہیں لگتا۔ یہ عجیب بات ہے کہ صحیح قوموں کو مسلسل اچھے حکمران مل رہے ہیں اور ہمیں برے۔
انفرادی طور پر بھی وہی بندہ کامیاب ہوتا ہے جو اپنی غلطی کا اعتراف کرے۔ لیکن اگر وہ ساری دنیاکو اپنی ناکامی کا قصور وار ٹھہرائے گا تو کبھی نہیں کامیاب ہوگا۔ کیونکہ دنیا تاقیامت سو فیصد ٹھیک نہیں ہوگی، نہ ہی کسی ایک شخص کے اختیار میں ہوگی۔
کبھی اپنے آپ سے پوچھیں، جو قوم ترقی کرنے کا سوچتی ہے اور اس کے لیے محنت کرتی ہے، وہ ترقی یافتہ ہوجاتی ہے۔ جاپان ہو، جنوبی کوریا ہو، چین ہو، بھارت ہو، اسرائیل ہو، سنگاپور ہو۔۔ معتدد ممالک ہیں جو پہلے پیچھے تھے، اب آگے ہیں۔ کیا یہ حسین اتفاق ہے کہ وہاں نہ بیرونی سازش ہوتی ہے، نہ یہودی کی کوئی سازش ہوتی ہے، اور نہ ہی بری حکومت اور حکمران انہیں نصیب ہوتے ہیں۔ حالانکہ کوئی عقل کا اندھا یہ نہیں کہے گا کہ ان معاشروں میں برے لوگ نہیں پائے جاتے۔ لیکن کمال کا اتفاق ہے کہ صر ف ہمارے ملک میں ہی سازشیں ہوتی ہیں اور برے لوگ غالب آتے ہیں۔ جاپانیوں نے انیسویں صدی میں ترقی کرنے کی ٹھانی، انہیں گوروں نے تربیت بھی دی اور جاپانیوں نے اس تربیت سے اپنی طاقت بھی قائم کرلی۔ گورے جاپانیوں کے رشتے دار تو نہیں لگتے۔ لیکن پتہ نہیں کیوں گوروں کو جاپانیوں کے خلاف سازش کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ بیوقوف! وہاں عمران خان جیسا لیڈ رنہیں تھا، ورنہ وہاں بھی بیرونی سازش ہوجاتی۔
جیسا کہ میں نے پہلے کہا، بولیں اتنا بڑا جھوٹ کہ ہمارے اور دوسری ترقی یافتہ قوموں کے درمیان کوئی تفاوت نہیں اعمال کے لحاظ سے۔ ہم بھی اتنے ہی صفائی پسند ہیں، اتنے ہی ایماندار، خوش اخلاق اور محنتی، جتنے گورے ہیں اور جاپانی اور چینی بھی۔
لیکن کیا کریں، حقیقت ہماری خواہشوں کے تابع نہیں۔ ہمیں حقیقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے، حقیقت کے اوپر البتہ یہ پابندی نہیں۔ جون ایڈمس، جو کہ بانیان امریکا میں شمار ہوتے ہیں، جو امریکا کے صدر بنے جورج واشنگٹن کے بعد، انہوں نے ایک بار فرمایا تھا کہ "حقائق ضدی شے ہیں۔ اور ہماری خواہشات چاہے جو بھی ہوں، ہمارا جھکاؤ بے شک کسی بھی جانب ہو، یا ہمارے جذبے چاہے جو بھی حکم ہمیں دیتے ہوں، وہ حقائق اور شواہد کی حالت کو تبدیل نہیں کرسکتے"۔ (ص68، جان ایڈمس، ڈیوڈ مککلو، سائمن اینڈ شوسٹر)
دوستو!انشاء اللہ اس گفتگو کو مزید آگے بڑھائیں گے، لیکن اگلی قسط میں۔ فی الحال مجھے اجازت دیجیے اور ہاں!یہ قسط پسند آئے تو جتنے دوست احباب ہیں، ان میں تقسیم ضرور کیجیے۔ شکریہ۔ اگلی قسط میں ہم سر سید احمد خان کی سوچ اس حوالے سے پیش کریں گے۔ لہذا اگلی قسط کا انتظار کیجیے گا اور اسے بھی ضرور پڑھیے گا۔ اللہ حافظ!