Saturday, 05 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Basham Bachani
  4. Mughalitistan Aur Imran Khan, Inqilab, Inqilab (15)

Mughalitistan Aur Imran Khan, Inqilab, Inqilab (15)

مغالطستان اور عمران خان، انقلاب، انقلاب (15)

دوستو! پچھلی قسط میں ہم نے انقلاب کے اوپر گفتگو کی تھی۔ مضمون کو مختصر رکھنے کی وجہ سے ہم نے بحث کو ادھورا چھوڑ دیا تھا۔ لہذا، آئیے آج ہم انقلاب کی حقیقت پر مزید روشنی ڈالتے ہیں۔

میں نے پچھلے مضمون میں یہ دلیل دی تھی کہ ہم کسی بھی ایسے ملک نہیں جانا چاہتے جہاں انقلاب آیا ہو۔ ہم شہریت، تعلیم، رہائش اور کاروبار کے حصول کے لیے جن بھی ممالک کا رخ کرتے ہیں، وہ سارے ممالک انقلاب سے عاری ہیں۔ البتہ آپ مجھ سے یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو بھئی! چین، روس، ایران اور فرانس میں بھی تو انقلاب آیا تھا۔ جبکہ آج ان ممالک میں استحکام نظر آتا ہے۔ روس، چین اور فرانس تو دنیا کی بڑی عسکری اور معاشی طاقتوں میں شمار ہوتے ہیں اور ایران اسرائیل اور امریکا کے خوف سے قطع نظر ہوکر اپنے فیصلے کر رہا ہے۔ تو پھر انقلاب برا کیسے ہوا؟

یہ بات سچ ہے کہ ان سارے ممالک میں انقلاب آیا، لیکن یہ مکمل حقیقت نہیں۔ ہم ان چاروں ممالک کی انقلابی تاریخ پر مختصراً اس مضمون میں دلیل دیں گے تاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ انقلاب نے ان ممالک کی ترقی میں کوئی حصہ نہیں ڈالا۔

سب سے پہلے ہم روس کے انقلاب کی بات کرتے ہیں۔ روس میں 1917ء میں بولشوکیوں نے انقلاب برپا کیا۔ اشتراکیوں نے بڑی بے رحمی سے زارِ روس(روس کے بادشاہ)اور ان کے خاندان والوں کو قتل کیا۔ روس کے انقلاب کی ابتدا ہی قتل و غارت سے ہوئی تھی۔ انقلاب کے مرکزی کردار، سارے کے سارے بے اتنہا لوگوں کی موت کا سبب بنے۔ کہتے ہیں کہ ہٹلر نے اتنے لوگوں کی جان نہیں لی جتنی روس کے اشتراکیوں نے لی جنہوں نے روس میں انقلاب کی بنیاد رکھی۔ الیگزینڈر سولزنیتزن صاحب ایک کتاب کئی جلدوں پر مشتمل، جس کا عنوان ہے " گولاگ آرکی پیلے گو"، لکھ چکے ہیں جس میں روس میں اس وقت کے ظلم اور تشدد کی کئی داستانیں موجود ہیں۔

یہ وہ وقت ہے جب لوگوں کو کونسنٹریشن کیمپز میں ڈال دیا جاتا تھا۔ بے دردی سے کسانوں کا قتل کیا جاتا تھاکیونکہ وہ اشتراکیوں کو اپنی فصل نہیں دینا چاہتے تھے۔

1932ءسے 1933ء میں یوکرین، جسےیور پ کی "بریڈ باسکٹ"کہا جاتا ہے، وہاں قحط کی وجہ سے کئی لوگ بھوک کے مارے مر گئے۔ روس کے انقلاب نے یہ حالت کردی تھی روس اور اس کے زیر سایہ ممالک کی۔ اُس قحط کے شکار ننھے بچوں کی خوفناک تصاویر آج انٹرنیٹ پر موجود ہیں اور یہ وہ قحط ہے جسے "ہولوڈومور" کہا جاتا ہے۔ اس قحط کے بارے میں سب کو پتہ تھا کہ یہ "مین میڈ"(یعنی انسان کی غفلت کا نتیجہ)ہے نہ کہ قدرتی۔

ہمیں یہ تو بتایا جاتا ہے کہ روس کی افغانستا ن میں شکست سے پہلے امریکا اکیلا سوپر پاور نہیں تھا، کیونکہ اس سے قبل روس بھی ایک سپر پاور تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے سپر پاور کا ہم نے کیا کرنا ہے؟ سارے اشاریے اس جانب رہنمائی کرتے ہیں کہ روس کے انقلاب کے بعد روس کے لوگ ظلم اور بربریت کے زیر سایہ زندگی گزار رہے تھے۔

جب دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا، تو مشرقی جرمنی میں اشتراکیوں نے قبضہ کرلیا اور حکومت قائم کی اور یہ حصہ روس کے بلاک میں شمار ہوگیا۔ جبکہ مغربی جرمنی مغربی بلاک کا حصہ بن گیا۔ مشرقی جرمنی روس کی ایک سیٹلائیٹ ریاست تھی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی لوگ مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی ضرور بھاگتے تھے، لیکن کوئی بھی مغربی جرمنی سے مشرقی جرمنی نہیں بھاگتا تھا۔ کئی بھاگنے والے اپنی جان ہتھیلی میں رکھ کر یہ کام سرانجام دیتے تھے، کیونکہ سرحد پر موجود فوج کئی بار انہیں گولی کا نشانہ بھی بناتی تھی۔

آپ کو اس دور میں کئی نامور لوگوں کی مثالیں مل جائیں گی جنہوں نے روس سے امریکا حجرت کی(جیسے کہ آئیگور سیکورسکی، جو ہیلی کاپٹر کے موجدین میں شمار ہوتے ہیں)۔ لیکن شاید ہی کوئی آپ کو اسی مثال الٹ میں ملے گی۔ امریکی صدر کینیڈی کے قاتل لی ہاروے اوسوالڈ ایک وقت میں اپنی امریکی شہریت چھوڑ کر روس گئے تھے۔ لیکن وہاں رہنے کے بعد انہیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوگیا اور پھر انہوں نے واپس امریکا آنے کو ترجیح دی۔

آپ اپنے والدین سے پوچھ لیں کہ جب سرد جنگ چل رہی تھی تو کونسی ایسی شے تھی جو روس سے آتی تھی؟ جواب آپ کو صفر ملے گا۔ روس نے صرف اس دوران ایسے ہتھیار تیار کیے تھے جو وہ ساری دنیا کو بیچتا تھا۔ طب، سائنس اور ٹیکنولوجی کے میدان میں انقلابِ روس نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

اس دور میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ روس میں لوگ معمولی سبزیاں لینے کے لیے بھی کئی دن قطار میں کھڑےرہتے تھے۔ ڈاکٹر مائیک، ایک مشہور طبیب اور یوٹیوبر ہیں، ان کے یوٹیوب پر 12 ملین سبسکرائبر ہیں۔ ڈاکٹر مائیک پانچ سال کے تھے جب ان کے والد انہیں روس سے امریکا لائے۔ اپنی ایک یوٹیوب وڈیو (جو مورخہ 27 جولائی، 2022ء) جس کا عنوان ہے "ڈرا مائے لائیف – کمنگ ٹو امیریکا" میں ڈاکٹر مائیک فرماتے ہیں کہ کیسے جب وہ پہلی بار امریکا آئے تو ان کے چچا نے انہیں کھلونے والی گاڑی دی۔ وہ اس گاڑی کو پاکر حیران تھے، کیونکہ روس میں انہیں ایسے کھلونے کبھی نہیں ملے تھے۔ یہ حال تھا روس کا جہاں ایک وقت میں انقلاب آیا تھا۔

آخر وقت میں، جب سویت یونین تباہ ہوگیا، تب روس کی کرنسی کی قدر اتنی گر گئی تھی کہ لوگ نوٹوں کو ٹائلیٹ یا وال پیپر کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ یہ ہے انقلابِ روس کی مختصر سی حقیقت جو ہم نے آپ کے سامنے رکھی ہے۔ آج روس اگر طاقتور ہے تو وہ انقلاب روس کی وجہ سے نہیں۔ روس کے پاس بہت ساری زمین ہے، اچھی خاصی آبادی ہے، قدرتی وسائل(جیسے کہ گیس اور تیل) کے بے شمار ذخائر ہیں، جس کی وجہ سے روس آج ایک تگڑی طاقت ہے۔ اس میں انقلاب روس کا کوئی کردار نہیں۔ بلکہ انقلاب روس نے روس کو کئی سالوں پیچھے دھکیل دیا تھا۔ وہاں کے لوگوں کو 8 دہائیوں تک اشتراکیوں کے تشدد اور ظلم میں گرفتار ہونا پڑا۔

اب ہم چین پر گفتگو کر لیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماؤ زے تنگ نے چین میں انقلاب کے ذریعے ایک نئے چین کی بنیاد رکھی اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ چین آج امریکا کو ٹکڑیں مار رہا ہے۔ چین آج ایک بہت بڑی عسکری اور معاشی طاقت بن گیا ہے۔ لیکن انقلاب کا موجودہ چین کی ترقی سے تعلق کم ہے۔

1959ء سے 1961ءتک چین قحط کا شکار تھا۔ یہ قحط بھی "مین میڈ"ہی کہا جاتا ہے نہ کہ قدرتی۔ روس کی طرح چین میں بھی اشتراکیوں نے حکومت پر قبضہ کرلیا تھا۔ جس کے نتیجے میں چین پستی کی جانب بڑھتا رہا۔ ماؤ زے تنگ کے مرنے بعد 1979ء میں ڈینگ چاؤپینگ نے معیشت کو کافی حد تک آزاد کیا جس کے نتیجے میں چین کی معیشت نے اڑان لی۔ انقلاب چین سے لے کر 1979ء تک، اور اس کے بھی کئی سالوں بعد تک، چین مشکلات کا شکار رہا۔ چین کی ترقی انقلاب نہیں بلکہ اصلاحات کا نتیجہ ہے۔

رہی بات ایران کی، تو یہ جان لیجیے کہ ایران کوئی زبردست ملک نہیں۔ اگر آج ایران کے پاس تیل اور گیس کے ذخائر خالی ہوجائیں تو ایران کی ریاست قائم نہیں رہ پائے گی۔ ابھی دو مہینے پہلے ایران کے صدر کا ہیلی کاپٹر زمین بوس ہوا، جس میں ایرانی صدر جان بحق ہوگئے۔ اس واقعے کے بعد ایران کی حکومت نے امریکا پر اس موت کا الزام دھر دیا۔ کیوں؟ کیونکہ ایران پر امریکا کی پابندیاں ہیں، جس کی وجہ سے ایران اے وئیشن کا سامان باہر سے نہیں مانگوا سکتا، جس کی وجہ سے ایران کو جہازوں کو بغیر صحیح مرمت اور سامان کے چلانا پڑتا ہے۔ نتیجتاً ایران کے صدر کی موت ہوگئی۔ آپ خود سوچیں ایران کی یہ حالت ہے۔ جیسے کہ میں نے پہلے کہا، اگر ایران کے پاس تیل اور گیس کے ذخائز نہ ہوں، تو ایران چند دنوں میں تباہ ہوجائے گا۔ ایران کے بینکاری نظام کا کیا حال ہے، آپ انٹرنیٹ پر جاکر اس حوالے سے تھوڑا پڑھ لیجیے۔ ایرانی بینکز ان سولوینٹ ہوچکی ہیں۔

اور اپنے آپ سے سوال پوچھیے کہ کتنے لوگ ایران میں اپنا پیسہ لگانا چاہتے ہیں؟ کتنے لوگ گھومنے کے غرض سے ایران جاتے ہیں؟ کتنے لوگ ایران کی شہریت کے لیے مر رہے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ بہت کم۔ گھومنے کے لیے تو پھر بھی بہت سے لوگ ایران جاتے ہونگے۔ لیکن تعلیم، شہریت اور روزگار کے حصول کے لیے شاید ہی کوئی آپ کو ملے گا جو ایران جانا چاہتا ہو۔ کوئی بھی اپنا بھاری سرمایہ ایران میں نہیں لگاتا۔

رہی بات فرانس کے انقلاب کی، تو یہ بات جان لیجیے کہ انقلابِ فرانس کے بعد نیپولین کے دور میں بادشاہت واپس آگئی تھی۔ فرانس کی ترقی کا تعلق انقلاب فرانس سے بالکل نہیں۔ بلکہ انقلاب کے نتیجے میں قتل و غارت اور عدم استحکام نے فرانس میں ڈیرے جمالیے تھے۔ بلکہ اتنے لوگ قتل کیے جارہے تھے کہ اس وقت کو "رین اوف ٹیرر" (دہشت کا راج)کہا جاتا تھا۔

اینڈریو روبرٹز ایک مشہور برطانوی مورخ ہیں۔ انہوں نے نیپولین کی زندگی پر تفصیل سے ایک کتاب لکھی تھی جس کا عنوان ہے"نیپولین دا گریٹ"۔ میں کتاب کا ایک حصہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، پڑھیے اور جانیے۔ اینڈریو صاحب لکھتے ہیں:

"ایک ہم عصر نے نوٹ کیا کہ "ہزاروں عورتیں اور بچے نانبائی کی دکانوں کے سامنے پتھروں پر بیٹھے ہیں"، اور "پیرس کے آدھے سے زیادہ لوگ آلو پر رہتے ہیں۔ کاغذی رقم کی کوئی قیمت نہیں تھی۔ " شہر جیکبنس کے خلاف ردعمل کے لیے تیار تھا، جو خوراک یا امن فراہم کرنے میں واضح طور پر ناکام رہے تھے۔ "(ص54 تا 55، نیپولین دا گریٹ، اینڈریو روبرٹز، پینگوئن بوکز، 2015ء)

یعنی انقلاب روس کی طرح، انقلاب فرانس کے نتیجے میں بھی وہی نتائج سامنے آئے۔ کرنسی کی کوئی قدر نہیں۔ معمولی اشیا کے لیے بھی لوگ کئی دنوں تک دکان کے باہر کھڑے ہیں۔ وہی جیکوبنز، جنہوں نے بادشاہت کے خلاف بغاوت کی، اب لوگ ان کے خلاف جانے کے لیے تیار تھے۔ کیونکہ جو سہانے خواب انہوں نے لوگوں کو دکھائے وہ مکمل نہ ہوئے۔

اوریہی تاریخ کا سب سے اہم سبق ہے۔ جدھر بھی لوگوں نے حکومت اور حکمرانوں کو بغاوت کرکے گرایا، یہ سوچ کر کہ حالات بہتر ہونگے، حالات مزید بگاڑ کا شکار ہوئے۔ ہمارے ملک میں جب بھی مہنگائی عروج پر ہو، لوگوں کو بجلی، تیل اور کھانا مہنگی قیمت میں خریدنا پڑے، تو یہاں بھی اس قسم کی باتیں کرنے والے آپ کو ملیں گے جو حکومت اور نظام کو گرانے کی باتیں کرتے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ اس سے معاشرے کے غریب ترین لوگوں کو ہی سب سے زیادہ نقصان ہوگا۔ (آج چیزیں مہنگی مل رہی ہیں لیکن مل رہی ہیں۔ اس وقت سے ڈریں جب پیسہ دینے کے بعد بھی کچھ نہیں ملے گا اور ایسا کئی ممالک میں ہوچکا ہے۔)

کیونکہ اب وقت کم ہے ہمارے پاس، لہذا میں ایک چھوٹی سی مثال پیش کرکے آج کے اس مضمون کو اختتام پزیر کرتا ہوں۔ آپ نے امریکا کے کئی مشہور شہروں کے نام سنے ہونگے—نیو یارک سٹی، شیکاگو، سین فرانسسکو۔۔ لیکن آپ میں سے کسی نے بھی امریکا کی ریاست ایلابیما کے شہر سیلما کا نام نہیں سنا ہوگا۔ یہ شہر ووٹنگ اور سول رائٹز کے حوالے سے بہت مشہور ہے۔ 60 کی دہائی تک ایلابیما ریاست میں ووٹ دینے کے لیے کچھ شرائط عائد تھیں۔ صرف وہ لوگ ووٹ دے سکتے تھے جو خواندہ تھے، جو ٹیکس دیتے تھے، اور جو آئین کے بارے میں کچھ علم رکھتے تھے۔ ان پابندیوں کی وجہ سے کئی افریقی امریکی ووٹ نہیں دے پاتے تھے۔

لہذا سول رائٹز لیڈرز نے یہ سوچا کہ اس نظام کے خلاف احتجاج کیا جائے۔ سیلما سے منٹگمری(ایلابیما ریاست کا دارالخلافہ) تک ایک مارچ کا منصوبہ بنایا گیا۔ کیونکہ مارچ کے شرکا کی وجہ سے ہائے وے پر ٹریفک جیم کا خدشہ تھا، لہذا اس وقت کے گورنر ایلابیما نے اس مارچ کی اجازت نہیں دی۔ حتی کہ جب مارچ کے شرکا ایڈمنڈ پیٹس برج پہنچے، تو انہیں پولیس نے تنبیہ کی کہ وہ آگے نہ آئیں اور منتشر ہوکر راستے کو خالی کریں۔ لیکن مارچ کے شرکا ڈٹے رہے۔ بعد ازاں پولیس کو گولیاں چلانی پڑیں۔ آج تک اس واقعے کو رومانوی انداز میں امریکی عوام کو بیچا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کیسے لوگ ریاست کی جبر کے خلاف متحد ہوئے۔ کیسے پھر سب لوگوں کو ووٹ دینے کا حق ملا۔ کیسے بہادر لوگوں نے پولیس کی گولیوں کا سامنہ کیا۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج سیلما ایلابیما ریاست کا سب سے غریب ترین شہر ہے۔ آپ وکی پیڈیا پر جاکر سیلما شہر کے بارے میں معلومات حاصل کریں اور وہاں موجود "ڈیموگرافکز" کے سیکشن کو کلک کریں۔ آپ کو دائیں جانب ایک چارٹ نظر آئے گی۔ 60ء کی دہائی وہ آخری دہائی تھی جب سیلما شہر میں آبادی میں اضافہ ہوا، اس کے بعد بتدریج آبادی کی شرح منفی رہی ہے۔ یہ اس لیے نہیں ہے کہ سیلما کے لوگ بچے پیدا نہیں کر رہے۔ بلکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیلما میں اس وقت کے بعد حالات بگاڑ کا شکار ہوئے اور نتیجتاً لوگ علاقے کو خیر باد کہہ کر آہستہ آہستہ چلے گئے۔

بغاوت، انقلاب، احتجاج، لانگ مارچز وغیرہ جیسے چونچلے کسی کام کے نہیں ہوتے۔ کیونکہ اگر غربت اور جہالت اور کچرے سے معاشرے کو آزاد کرنا ہے تو اس کا طریقہ یہ نہیں کہ آپ۔۔

خیر، دوستو! وقت کی قلت کے باعث ہم اپنی بحث کو فی الحال التوا کا شکار کرتے ہیں۔ آپ سے اگلی قسط میں ملاقات ہوگی۔ فی الحال مجھے اجازت دیجیے۔ اللہ حافظ!

اور ہاں! اگر یہ مضامین آپ کو پسند آرہے ہیں اور آپ کو متاثر کر رہے ہیں، تو انہیں اپنے دوستو اور عزیزوں میں ضرور تقسیم کیجیے۔ اللہ نگہبان۔

Check Also

Watan Ke Baare Mein Kurhna Kyun?

By Mojahid Mirza