Mughalitistan Aur Imran Khan, Chand Misaalen (4)
مغالطستان اور عمران خان، چند مثالیں (4)
میں نے پچھلے مضمون میں کہا تھا کہ لوگ جن کاموں کے لیے ریاست اور حکومت سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں، وہ کام وہ خود نجی طور پر کریں تو کم لاگت آتی ہے اور تنائج بھی اچھے ہوتے ہیں۔ اور میں نے سر سید کی نصیحت کا بھی ذکر کیا تھا۔ سر سید کی ایک تحریر کے چند اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کیے تھے۔ جن میں سر سید یہ فرما رہے تھے کہ لمحہ فکریہ ہے کہ لوگ حکومت سے تعلیم اور علم کے متعلق اپنی امیدیں جوڑتے ہیں، جبکہ وہ یہ سارا کام خود کرسکتے ہیں۔ میں نے آخر میں کہا تھا کہ چند مثالیں آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ لہذا آج کے مضمون میں، میں اپنے آبائی شہر ٹنڈو الہیار کی مثال پیش کروں گا تاکہ میری بات واضح ہو۔ اور یاد رہےصرف اس ایک مثال پر اکتفا نہیں کیا جائے گا۔
آپ جیسے ہی ٹنڈو الہیار میں داخل ہوتے ہیں تو پہلے آپ کو بہت بڑا حصہ زرعی زمینوں کا ملتا ہے۔ اور مین روڈ ہائے سے سے منسلک ایک ادارہ آپ کو ان زرعی زمینوں کے بیچوں بیچ نظر آئے گا جس کا نام ہے راشد آباد۔ یہ ادارہ کسی نعمت سے کم نہیں۔ مستحق غریبوں کے لیے یہ ادارہ ایک چھاؤں کی مانند ہے۔ اس ادارے سے کئی غریب لوگوں کو صحت اور تعلیم سے وابستہ ایسی خدمات ملتی ہیں جو انہیں ویسےعام صورتحال میں حاصل کرنے کےلیے کئی میل دور شہر جاکر اور بہت سارا روپیہ خرچ کرکے حاصل کرنی پڑتی تھیں۔ راشد آباد میں ہر قسم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ حتی کہ اس ادارے کی بدولتآپ حیران ہونگے کہ ٹنڈو الہیار جیسے شہر میں او لیول اور اے لیول کی تعلیم کا بھی بندوبست ہے۔ جو راشد آباد میں ہسپتال ہے اس کا ایک بار آپ دورہ کریں گے تو آپ کو کئی کراچی، لاہور اور اسلام آبادکی بڑی نجی ہسپتالیں پسماندہ لگیں گے۔
اور یہ ادارہ صرف غریبوں کے لیے ہی چھاؤں نہیں، بلکہ یہ ادارہ کئی امیر اور مالداروں کے لیے بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ میٹرنٹی وارڈ کی وجہ سے کئی خواتین جو ویسے شہر جاکر بچے جنتی تھیں، اب وہ وہیں اپنے بچے پیدا کرتی ہیں۔ کئی بیماریوں کے علاج کے لیے ویسے میر پور خاص اور ٹنڈو الہیار کے شہریوں کو دور جانا پڑتا تھا، لیکن اب یہ ساری سہولیات ان کے گھر کے قریب ہیں۔ بے شک کئی پیسے دے کر اپنا علاج کراتے ہیں، لیکن سفر کی خواری اور دور جانے سے وہ بچ گئے ہیں۔ اسی طرح کئی لڑکے لڑکیاں ویسے شہر جاتے تھے او لیول اور اے لیول کی تعلیم کے لیے، لیکن راشد آباد کے ہونے سے کئی مالدار والدین اپنے بچوں کو اسی شہر میں رہ کر یہ تعلیم دلاتے ہیں۔ لہذا غریبوں کا بھلا تو ہے ہی، امیروں اور مالداروں کا بھی بھلا ہوتا ہے۔
اس ادارے کے لیے کئی لوگوں نے زمین عطیہ کی، کئی لوگوں نے رعایتی نرخوں پر اپنی آبائی زمین دی، میری اپنی والدہ کی زمین بھی اس ادارے میں شامل ہے۔ یاد رہے مین روڈ اور ہائے وے سے منسلک زرعی زمین کی کیا قیمت ہوتی ہے، وہ آپ خود اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایک ایکڑ کم از کم کروڑ روپے سے کم نہیں ہوتا۔ یہاں یہ ادارہ سو ایکڑ پر محیط ہے۔ جہاں بہت سے لوگوں نے اپنی زمینوں کی قربانی دی، وہیں ہم اس ادارے کے بانی کا ذکر نہ کریں تو یہ زیادتی ہوگی۔
پاک فضایہ کے ایک ریٹائرڈ افسر کا یہ منصوبہ ہے۔ کمانڈر شبیر صاحب کی سوچ تھی اس ادارے کے پیچھے۔ انہوں نے کتنی محنت اور کتنے وقت کے بعد اس منصوبے کو پائے تکمیل تک پہنچایا، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ شہر سے دور، زرعی زمینوں کے بیچوں بیچ ایک ایسا ادارہ بنانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔
راشد آباد کوئی اکلوتی مثال نہیں۔ کئی نجی فلاحی اور تعلیمی ادارے ہمارے ملک میں کام کر تے ہیں جو بڑے زبردست جارہے ہیں۔ جہاں سر سید نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ خود اپنی تعلیم کا بندوبست کریں، تو انہوں نے علی گڑھ میں تعلیمی شہر بھی آباد کیا جہاں آج تک لوگوں کو تعلیم کی شمع سے پر نور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اخوت کی مثال لے لیجیے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کا بنایا ہوا یہ ادارہ، پتہ نہیں کتنے لوگ آج تک اس ادارے کے بلا سود قرضوں سے مستفید ہوئے ہونگے۔ کتنے خاندان غربت کی لکیر کو پار کرکے خوشحالی کی جانب بڑھے ہیں۔ اسی طرح ایدھی فاؤنڈیشن اور سیلانی ویلفئیر ٹرسٹ کی مثال لے لیجیے۔ یہ ادارے اس ملک میں جہاں غربت اور جہالت کا چولی دامن والا ساتھ ہے، وہاں یہ ادارے ہمارے معاشرے پر مرہم رکھ رہے ہیں۔ یہ سارے ادارے نہ ہوں تو مزید تباہی ہوتی اس ملک میں۔
اور اب جو میں ایک مثال پیش کرنے جارہا ہوں اس سے آپ کی آنکھ کھل جائے گی۔ آپ کو پتہ چلے گا کہ اصل ترقی اگر پاکستان میں ہوگی تو وہ کیسے ہوگی۔
شعیب سلطان خان پاکستان کی بیوروکریسی کے ایک اعلی افسر تھے۔ وہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ انہیں پھر محسوس ہوا کہ حکومت کی نوکری کرنے سے وہ کام نہیں ہوسکتا جو آزادانہ طور پر ہوسکتا ہے۔ لہذا انہوں نے اپنے آپ کو سول سروس سے علیحدہ کیا اور آزادانہ طور پر لوگوں کی خدمت کے لیے کام کرنے لگے۔
جب وہ مشرقی پاکستان میں تعینات تھے، انہوں نے کومیلا میں اختر حمید خان کے کام کو دیکھا اور وہ اس سے بڑے متاثر ہوئے۔ (بعد ازاں اختر حمید خان نے سقوط ڈھاکہ کے بعد مغربی پاکستان میں اورنگی پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا اور اپنا کام جاری رکھا۔) اب یاد رہے اختر حمید خان بھی ایک وقت میں افسر شاہی تھے(اور وہ بھی انگریز دور کے)، لیکن پھر انہوں نے بھی ریاست کی نوکری کو خیر باد کہا اور پھر آزادانہ منصوبوں کے تحت تبدیلی لانے کی کوشش کی۔ یہی حال ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب کا بھی ہے جنہوں نے اخوت ادارے کی بنیاد رکھی۔
خیر، قصہ مختصر، شعیب سلطان خان نے اختر حمید خان کے منصوبے سے سبق حاصل کرتے ہوئے اے کے آر ایس پی (آغا خان رورل سپورٹ پروگرام)کے ذریعے شمالی علاقہ جات کا دورہ کیا۔ اور وہاں انہوں نے گلگت بلتستان کے ان اضلاع کا انتخاب کیا جو انتہائی پسماندہ ہیں اور بہت ہی زیادہ غربت کا شکار بھی۔ اے کے آر ایس پی کی معاونت سے شعیب سلطان خان نے 80 کی دہائی میں کئی گاؤں دیہاتوں کے لوگوں کو غربت سے آزاد کیا۔ کئی جگہوں پر خوشحالی آنے لگی۔ یہ سب کیسے ہوا؟ اختر حمید خان سے شعیب سلطان خان صاحب نے کیا سیکھا تھا؟
در اصل اختر حمید خان کا فارمولا انتہائی سادہ ہے۔ جہاں بھی شعیب صاحب گئے، وہاں انہوں نے پہلے گاؤں کے لوگوں کو یکجا کیا۔ دوسرے فلاحی اداروں کی طرح کچھ مفت دینے کے بجائے لوگوں کو کہا گیا کہ وہ ایک دن جمع ہونگے اور اپنے مسائل سامنے رکھیں گے۔ سرمایہ جوڑنے کے لیے بھی گاؤں کے افراد سے یہ توقع کی گئی کہ وہ ہر ہفتے یا مہینے کچھ نہ کچھ رقم فراہم کریں گے۔ اس سے گاؤں کے لوگ بھی ساتھ جڑنے لگے اور ان کا سرمایہ بھی جڑنے لگا۔ پھر اے کے آر ایس پی اور شعیب صاحب کی جانب سے ان کی صرف تکنیکی معاونت پر توجہ دی گئی۔
مثلاً، ایک گاؤں میں لوگوں کا مسئلہ آمد و رفت تھا۔ لہذا طے پایا کہ راستہ تعمیر کرنا ہے۔ لوگوں کا سرمایہ تو جمع کیا جارہا تھا، اور گاؤں کے لوگ خود مزدوری کرنے کے لیے تیار تھے، لہذا اے کے آر ایس پی اور شعیب صاحب نے انہیں انجینئیر کی سہولت فراہم کی۔ جو تکنیکی معاونت چاہیے ہوتی ہے وہ انہیں دی گئی۔
اب یہاں آکر ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے انجینئیر صاحب کو ہی ششدر کردیا۔ انجینئیر صاحب نے تخمینہ لگایا تھا کہ راستہ تین ماہ میں مکمل ہوجائے گا۔ لیکن کام 15 دنوں میں مکمل ہوگیا۔ آپ پوچھیں گے کیسے بھئی!؟ جواب یہ ہے کہ انجینئیر صاحب کو لگا کہ گاؤں سے زیادہ سے زیادہ بیس لوگ آئیں گے جوآٹھ گھنٹے کام کریں گے راستے کی تعمیر کے لیے۔ لیکن کیونکہ گاؤں کے لوگوں کی فلاح اس راستے سے جڑی تھی اور وہ خود مزدوری بھی مہیا کر رہے تھے، لہذا سب نے مل کر، سو لوگوں کو لگا کر، زیادہ وقت دے کر، یعنی چودہ گھنٹے، یہ کام جلد مکمل کردیا۔ شعیب سلطان خان صاحب نے اس حوالے سے فرمایا: " اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب آپ لوگوں کی صلاحیت اور طاقت کو بے نقاب کرتے ہیں تو کیا ہوسکتا ہے۔ وہ (یعنی گاؤں کے لوگ)یہ چاہتے تھے، انہوں نے اس کی تیاری کی، اور انہوں نے اس پر کام کیا، کچھ نے بغیر کسی معاوضے کے۔ "(ص357، دا مین ان دا ہیٹ، نیل کوسنز، وین گارڈ بکس)
اگر اسی کام کے لیے یہی گاؤں کےلوگ حکومت سے اپنی امیدیں وابستہ کرتے، تو کام کتنا جلدی ہوتا، یہ بات میں آپ کی ذہنیت پر چھوڑتا ہوں۔ لوگ خود مزدوری دے رہے تھے، سرمایہ بھی، اے کے آر ایس پی سے بہت کم مالی معاونت انہیں ملی، اور کام جلد مکمل بھی ہوگیا کیونکہ لوگو ں کی مزدوری ان کی آگے کی خوشحالی کی ذامن تھی۔ جتنا جلدی راستہ بنا، اتنا جلدی لوگوں کے لیے آمد و رفت آسان ہوگئی۔ کسان جلد اپنے فصل کو منڈی لے جانے لگے۔ یہ کام حکومت کرتی تو ٹھیکے دار سے لے کر افسران تک اور وزیر سے لے کر چیف سیکرٹری تک، کتنا مال بنتا، کتنا وقت ضائع ہوتا اور کتنا سرمایہ ضائع ہوتا، اس کا اندازہ پاکستان میں رہنے والے ہر بندے کو ہے۔ گمان یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ شاید راستہ تعمیر ہی نہ ہوتا۔ محض کاغذی کاروائی ہوتی۔ رقم البتہ بے شرموں کی جیب تک ضرور پہنچ جاتی۔
میں کہتا ہوں آپ شعیب صاحب کی زندگی پر مبنی کتاب "دا مین ان دا ہیٹ" کا مطالعہ ضرور کریں۔ اس میں ایسی درجنوں مثالیں ہیں۔ کیسے آپ بغیر لوگوں کو بھکاری بنا کر، ان کی عزت نفس مجروع کیے بغیر، خود ان ہی کے ہاتھوں ان کی مدد کرسکتے ہیں، تاکہ وہ یہ فخر سے کہیں کہ ہم نے خود بغیر کسی کی بھیک اور چندے کے اپنی حالت بدلی۔ شعیب سلطان اور اختر حمید خان جیسےلوگوں نے غریبوں کو صحیح راہ دکھائی کہ آپ خود اپنی مدد آپ بہت کچھ کرسکتے ہو۔
آپ کو حیرت ہونی چاہیے کہ شعیب صاحب ہوں یا اختر حمید یا ڈاکٹر امجد ثاقب، یہ سارے لوگ جب حکومت کی نوکری کر رہے تھے، نام نہاد عوامی نوکر (سول سروینٹ)تھے، تب تک کچھ ایسا نہ کرپائے۔ لیکن آزادانہ طور پر انہوں نےکئی لوگوں کی زندگی بدلی۔ اپنے ملک کے کئی لوگوں کو غربت اور جہالت سے باہر نکالا۔
ایک اور مثال پیش کرتا ہوں۔ آج امریکا کی عسکری اور معاشی ترقی ہمیں نظر آتی ہے۔ عمران خان جیسے سیاستدان وہاں کے فلاحی نظام کی مثالیں دیتے ہیں۔ لیکن امریکا یہاں کیسےپہنچا اس کے بارے میں کم سننے کو ملتا ہے۔ اگر ایک غریب شخص امیر ہوجاتا ہے، تو کیا ہمیں اس کی امیری پر توجہ دینی چاہیے کہ وہ کس عالیشان محل میں رہتا ہے، اس کے بچے کتنے زبردست کپڑے پہنتے ہیں، وغیرہ وغیرہ؟ یا ہمیں ایک عقل مند کی طرح اس کی غربت والے دنوں کو ملاحظہ کرنا چاہیے، وہ وقت جب اس نے امیری کی جانب قدم رکھا، اس نے کیسے اپنی زندگی میں تبدیلی لائی، اس کی کیا حکمت عملی تھی، اس کی سوچ کیا تھی، وغیرہ وغیر؟ ظاہر ہے عقل مند اس کے جدو جہد کے دنوں پر توجہ دے گا۔
اب کیونکہ وقت کم ہے، ہم اس پر اگلی قسط میں گفتگو کریں گے۔ ضرور اگلی قسط بھی ملاحظہ کیجیے گا۔ کیونکہ ہم بتائیں گے کہ آج اتنا طاقتور ملک ایک وقت میں کیسا تھا۔ ہم بتائیں گے کہ اس وقت وہاں کی ریاست اور حکومت کا لوگوں کو خوشحال بنانے میں زیادہ عمل دخل تھا یا لوگوں نے خود اپنی مدد آ پ امریکا کو یہاں پہنچایا؟ جاننے کے لیے اگلی قسط جب شائع ہو تو اسے ضرور ملاحظہ کیجیے گا۔ فی الحال ہمیں آپ کی اجازت چاہیے۔
اور ہاں!ہمارے مضامین پسند آئیں، دل کو لگیں، آپ کو متاثر کریں، تو اپنے دوستوں اور عزیزوں میں انہیں ضرور تقسیم کیجیے۔ اللہ حافظ!