Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Basham Bachani
  4. Mughalitistan Aur Imran Khan, Americi Filmen (5)

Mughalitistan Aur Imran Khan, Americi Filmen (5)

مغالطستان اور عمران خان، امریکی فلمیں (5)

پچھلے مضمون کو اختتام پزیر کرتے ہوئے ہم نے آپ سے کہا تھا کہ ہم امریکا کے ابتدائی دنوں کی مثالیں پیش کریں گے، وہ وقت جب امریکا ارتقا کے عمل سے گزر رہا تھا اور اس کے سپر پاور تک کے سفر کے لیے میدان تیار کیا جارہا تھا۔

دوستو! آج ہم پہلے پچھلے مضمون کے متن کو مزید واضح کرنا چاہیں گے۔ کیونکہ پچھلے مضمون میں میں نے ذکر کیا تھا ڈاکٹر امجد ثاقب کا۔ اور ان کے ساتھ ساتھ میں نے شعیب سلطان خان اور اختر حمید خان کا ذکر بھی کیا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ ان تینوں شخصیات نے افسری چھوڑی تب جاکر انہیں وہ آزادی ملی کہ یہ کچھ کر سکے۔ جس سے میں یہ ثابت کررہا تھا کہ حکومت اور حکومت کی نوکری سے تبدیلی نہیں آتی، بلکہ آزادانہ منصوبوں سے اور لوگوں کی اپنی محنت اور کاوشوں سے آتی ہے۔

حسنِ اتفاق ملاحظہ کیجیے کہ عین اس وقت جب میں اپنا مضمون لکھ رہا تھا ڈاکٹر امجد ثاقب کا انٹرویو جیو ٹی وی کے پروگرام "جرگہ" پر نشر ہوا (10 دسمبر، 2023ء)۔ عموماً ڈاکٹر امجد صاحب بہت کم انٹرویو دیتے ہیں۔ یا غالباً انہیں مدعو زیادہ نہیں کیا جاتا۔ خیر، یہ انٹرویو بھی اس زمن میں لیا گیا کہ وہ چئیرمین بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بنے ہیں اس نگران حکومت میں۔

ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب نے انٹرویو میں کچھ ایسا کہا جس نے مجھے مجبور کردیا کہ میں ان کے الفاظ اپنے اس مضمون میں شامل کروں۔ اگر میں پہلے انٹرویو دیکھ لیتا تو پچھلے مضمون میں ہی ان کے یہ الفاظ شامل کرلیتا۔ کیونکہ ڈاکٹر امجد صاحب وہی بات کر رہے ہیں جو میں نے ان کے اور شعیب اور اختر صاحب کے بارے میں کی۔ امجد صاحب نے اپنے لفظوں میں ہمارے پچھلے مضمون کے بیانیے کی تائید کی۔ غور سے ان کے الفاظ ملاحظہ کیجیے۔ امجد صاحب بولے:

"میں نے سول سروس کیوں چھوڑی؟ اس لیے چھوڑی کہ میرے مزاج کے مطابق نہیں تھی۔ تو انسان کو زندگی تو ایک ہی دفع ملتی ہے۔ وہ مقام جہاں خواہش قلبی اور فرض منصبی مل جائیں خوش بختی کہلاتا ہے۔ تو انسان کو اس مقام کی تلاش کرنی چاہیے جہاں اس کی دل کی خواہش اور اس کا منصب ایک ہوجائے۔ تو مجھے سول سروس میں ایک بند خانے میں رہنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ وہاں پر سبسروئینس ٹو رولز اینڈ ریگولیشنز ہے۔ کرئیٹوٹی نہیں ہے۔ انوویشن نہیں ہے"۔

آپ کو یاد ہوگا ہم نے یہی بات آپ سے مسلسل کی ہے اپنے مضامین میں۔ ریاست کے کاموں میں کوئی فائدہ نہیں۔ آزادانہ طور پر جو کام ہوتا ہے اس میں فائدہ بھی ہے اور معیار بھی۔ یہاں ڈاکٹر امجد جیسے قابل اور پڑھے لکھے کامیاب شخص بھی یہی کہہ رہے ہیں۔

پروگرام کے اختتام پر میزبان سلیم صافی نے ان سےکہا: "ڈاکٹر صاحب آخر میں ایک پیغام اس ملک کے غریب ترین لوگوں کے نام اور ایک پیغام اس ملک کے امیر ترین لوگوں کے نام"۔ امیر لوگوں کے بارے میں امجد صاحب نے جو کچھ کہا وہ ہم بیان نہیں کرتے البتہ غریبوں کے لیے جو انہوں نے پیغام دیا وہ یہ تھا۔ وہ بولے:

"سر!غریب کے لیے تو یہی پیغام ہے کہ اس کو غربت کی زنجیر کو توڑنا ہے۔ اپنی محنت سے، اپنی جدوجہد سے، علم کے حصول سے، ہنر کے حصول سے۔ وہ خود توڑے گا۔ جیسے کہا اقبال نے کہ ہم خود تراشتے ہیں منزل کے راہ و سنگ۔ ہم وہ نہیں ہیں جن کو زمانہ بنا گیا۔ ان کو خود سے۔۔ یہ اٹھیں گے نہیں جب تک، تب تک وہ نہیں بدلیں گے"۔

سبحان اللہ! یہ ہیں وہ لوگ جنہیں معاشرے کا مقبول چہرہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اکثر یوتھیوں اور عمرانڈوز کو پتہ بھی نہیں ہوگا کہ یہ شخص کون ہے۔ خیر، ڈاکٹر امجد صاحب کے قول پر غور کیجیے۔ پچھلے مضمون میں ہم نے آپ سے یہی کہا تھا۔ مغالطہ عظیم جس کا ذکر ہم بار بار کر رہے ہیں، اس سے بہت سے مفروضے جنم لیتے ہیں۔ وہ لوگوں کو مجبور کرتےہیں سیاست کی طرف، حکومت تبدیل کرنے کی طرف، نعرے بازی کی طرف۔ لیکن حقیقت میں قومیں تبدیل ہوتی ہیں"انسانی سرمائے" سے۔

دو منٹ کے لیے ذرا سوچیں آج چین کیوں اتنی ترقی کرگیا؟ اس کی وجہ تجارت ہے۔ اور تجارت۔۔ خاص طور پر جس قسم کی تجارت چین نے اپنائی ہے۔۔ اس کے لیے قابل اور ہنر مند افراد چاہییں۔ اور ہنر اور تعلیم کا سیاست اور جلسوں اور مسالے دارنعروں اور دھرنوں اور احتجاجوں سے کوئی واسطہ نہیں۔ ہنر اور تعلیم جس کی مانگ ہو، اس کے لیے مسلسل مشق اور تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی قابل باورچی سے پوچھیں اس کے کھانوں کے ذائقے کے پیچھے اس کی کتنے دنوں کی محنت ہے۔ یہی حال ہر ہنر مند کا ہے۔

دوستو! اب ہم امریکا کے ابتدائی ایام پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔ اب چاہے آپ مطالعے کے شوقین ہوں یا فلم دیکھنے کے، آپ کے لیے ان مضامین میں وافر حوالے دیے جائیں گے۔ اکثر لوگ آج کل کتب کا مطالعہ نہیں کرتے۔ لہذا میں کتب کا سہارہ بعد میں لوں گا، پہلے کچھ فلموں اور ڈراموں کا حوالہ دوں گا۔

ویسے تو بہت سی فلمیں وابستہ ہیں امریکی تاریخ سے، لیکن ہم یہاں چند آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔ ویگن ماسٹر (1950)، دا مین ہو شوٹ لیبرٹی ویلنس(1962)، اسٹارز ان مائے کراؤن(1950)۔۔ یہ وہ چند فلمیں ہیں جنہیں آپ ملاحظہ کریں گے تو آپ کو اس وقت کے امریکا کی ایک جھلک ملے گی۔

امریکا جب آزاد ہوا تھا تب اس کی ریاستوں کی تعداد پچاس نہیں تھی۔ مشرقی ساحل، جس کے ذریعے گورے امریکا داخل ہوئے تھے، صرف وہاں تک ابتدائی امریکا محدود تھا۔ باقی جو دنیا کے نقشے میں آج ہمیں امریکا نظر آتا ہے وہ خالی میدان کی مانند تھا۔ مقامی امریکی، جنہیں ریڈ انڈینز کہا جاتا تھا، وہ آبادی اور تعلیم اور ہنر اور ترقی کے حوالے سے پسماندہ تھے۔ لہذا گوروں کو جن لوگوں کا سامنہ تھا وہ ان سے کئی گنا زیادہ پسماندہ تھے۔

لیکن پسماندگی کے باوجود یہ ریڈ انڈینز انتہائی بہادر اور جنگجو تھے۔ میدان خالی تھا، گورے وہاں آکر آباد ہوتے رہے، لیکن ریاست کے پاس اس وقت اتنے پیسے نہیں تھے کہ ہر جگہ پولیس اور فوج کو بھیجے لوگوں کے تحفظ کے لیے۔ اکثر وہ خالی علاقے لوگوں نے اپنی مدد آپ آباد کیے۔ اور اس دوران کئی بار گوروں کی آبادی پر ریڈ انڈینز دھاوا بولتے تھے۔ مردوں کو دردناک تشدد سے دوچار کرنے کے بعد مار دیا جاتا تھا۔ عورتوں کے ساتھ زیادتی ہوتی تھی اور ان کی عزت ان کے مردوں کے سامنے لوٹی جاتی تھی۔

صرف یہی مشکل نہیں ہوتی تھی، بلکہ اپنا سامان بغیر آج کے طرز کی جدید شاہراہوں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا بذات خود ایک دشوار گزار کام تھا۔ فرنگستان (یورپ) سے امریکا تک کا سفر کرنا، اپنا بھاری سامان لانا، پھر مشرقی ساحل پر پہنچنے کے بعد ان خالی جگہوں پر جانا، جہاں نہ ریاست آپ کو تحفظ دے گی نہ کوئی اور، جہاں مقامی امریکی آپ کو گھس بیٹھیا سمجھتے ہیں، جہاں تک پہنچنے کے لیے آپ کو مشکل دشوار گزار راستوں کا سامنہ کرنا پڑے گا، اپنے جان اور مال کے تحفظ کی زمے داری خود لینی پڑے گی، یہ کوئی معمولی کام نہیں تھا۔

آج جو امریکا جاتے ہیں، بڑے مزے میں ہیں۔ جہاز میں بیٹھے اور وہاں پہنچ گئے۔ وہاں ساری ریاستیں، ان کی شاہراہیں، ان کا نظام، ان کی حکومت، ان کی خوشحالی، سب موجود ہے۔ اس دور کے گوروں نے اس خالی خطے میں اپنے آپ کو آباد کیا، کئی ریاستیں بنائیں۔ اس قدر خوشحالی لائی کہ آج سب اس ملک کو جانا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ سب کتنی مشکلات کے باعث حاصل ہوا، کتنی جانوں کے نذرانے کے بعد، کتنے لوگوں کے خون اور پسینے سے، اس کا اندازہ آپ ان فلموں کو ملاحظہ کرکے دیکھیں۔

آج ہم پاکستان کو گالی دیتے ہیں۔ کہتے ہیں یہاں سے زندہ بھاگ۔ میں نےجب یہ فلمیں دیکھیں مجھے یہ حیرانی ہوئی کہ امریکی مغرب کی جانب جاتے گئے، حتی کہ مشرق سے مغرب تک ان کی حکومت قائم ہوگئی، لیکن اس سب کے لیے انہیں خطرہ مول لینا پڑا۔

آپ فلم "ویگن ماسٹر" میں دیکھیں کہ کیسے سفر ہوتا تھا، کتنا مشکل تھا پہاڑوں اور دریاؤں کو پار کرنا اپنے بھاری سامان اور مال مویشی کے ساتھ۔ بیچ راستے بھوک اور پیاس کا سامنہ کرنا اپنے بیوی بچوں کے ساتھ۔ امن و امان کی صورت حال انتہائی ناساز تھی۔ فلم "دا مین ہو شوٹ لیبرٹی ویلنس" میں فلم کا مرکزی کردار بتاتا ہے کہ جب وہ مغرب کی جانب بڑھا تو سب سے پہلےڈاکوؤں نے اس کا سامان لوٹا، اس دوران ایک خاتون جو ان کے ساتھ سفر کر رہی تھی اس کے ساتھ ڈاکوؤں نے جب بدتمیزی کی تو فلم کا مرکزی کردار احتجاج کرتا ہے۔ ڈاکو پھر اس بندے کی جو دھلائی کرتے ہیں اس سے وہ بندہ سخت زخمی ہوجاتا ہے۔ وہ زخمی حالت میں شیرف سے کہتا ہے کہ انہیں گرفتار کرو، تو شیرف کہتا ہے میں یہ نہیں کرسکتا، کیونکہ ایک ہی جیل ہے، اور اس میں میں خود سوتا ہوں رات کو۔ یہ تھے تب کے امریکی حالات۔ لیکن مجال ہے کہ کسی امریکی نے اپنے ملک کو گالی دی ہو، ملک کے خلاف بدگمانی پھیلائی ہو، کبھی کہا ہو امریکا سے زندہ بھاگ۔

اسی طرح فلم "سٹارز ان مائے کراؤن" میں ایک گاؤں دکھایا گیا ہے۔ اس میں آپ دیکھیں کہ کیسے ایک سیاہ فام بندے کی زمین اور اس کی فصل جلا دی جاتی ہے کیونکہ وہ کسی مالدار کو اپنی زمین نہیں بیچتا۔ لیکن اگلے ہی دن اس کے پڑوسی آکر اس کی مدد کرتے ہیں، وہ اسے اس حالت میں اکیلا نہیں چھوڑتے۔

فلم میں دکھاتے ہیں کہ ایک ہی ڈاکٹر ہے پورے گاؤں میں، اور وہ جب بیمار اور ضعیف ہوجاتا ہے تو اس کا بیٹا اس کی جگہ لیتا ہے۔ بیٹے کو البتہ شہر جانے کا شوق ہے، لیکن وہ اپنے والد اور اپنی ہونی والی اہلیہ کی خاطر اپنے خواب ادھورے چھوڑ دیتا ہے۔ گاؤں میں جب وبا پھیلتی ہے تو وہ اکیلا پورے گاؤں کے لوگوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ فلم کے ایک منظر میں دکھایا جاتا ہے کہ وہ کام سے اس قدر تھک جاتا تھا کہ اسے نیند راستے میں سفر کے دوران پوری کرنی پڑتی تھی۔ آج ہمارے ملک میں کتنے والدین اپنے بچوں کو کہتے ہیں کہ ہمارے گاؤں اور شہر کی خدمت کرو؟ شہر جاکر زیادہ معاوضے کے بجائے اپنے گاؤں یا شہر کے لوگوں کی خدمت کرو۔ کتنی پاکستانی بیویاں یہ چاہتی ہیں کہ ان کے شوہر اپنے شہر رہ کر، کم کما کر، لوگوں کی خدمت کریں؟ جب ہمارے اعمال اور ترجیحات ہی مختلف ہیں تو ہمارے نتائج بھی کچھ اور ہونگے۔

لہذا وہاں بھی لاقانونینت تھی، وہاں بھی غربت تھی، ترقی نہیں تھی، لیکن سب نے مل کر حالات بدلے۔ اپنے ملک کو گالیاں نہ دیں، اس کے خلاف بدگمانی نہیں پھیلائی کہ بھئی!یہاں سے زندہ بھاگ۔

آپ یہ ساری فلمیں دیکھیں، اور اس قسم کی دوسری "اولڈ ویسٹ" فلمیں بھی دیکھیں۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ ملک جو آج ہمیں چمکتے نظر آتے ہیں، اس چمک کے پیچھے کتنی قربانیاں ہیں، کتنی محنت ہے۔

اگلے مضمون میں مزید اس موضوع پر بحث ہوگی۔ فی الحال وقت کی قلت کے باعث ہم اپنی آج کی قسط کو ختم کرتے ہیں۔ ہمیں اجازت دیجیے۔ اپنی دعاؤں میں ہمیں شریک رکھیےگا۔

اور ہاں! اپنے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ یہ مضمون ضرور تقسیم کیجیے۔ بشرطیکہ آپ کو ہمارے یہ سلسلہ وار مضامین پسند آئیں۔ اللہ حافظ!

Check Also

Dimagh To War Gaya

By Basham Bachani