Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Basham Bachani
  4. Mehangai Aur Hum

Mehangai Aur Hum

مہنگائی اور ہم

والدہ صاحبہ اور پھوپھی جان ساتھ بیٹھی تھیں۔ گفتگو ہو رہی تھی، مہنگائی پر، میں اور میری بڑی پھوپھی زاد بہن یہ کہہ رہے تھے کہ مہنگائی آج کا مسئلہ نہیں، ہر دور کے لوگوں کا مسئلہ ہے، جبکہ والدہ صاحبہ اور پھوپھی جان کا کہنا تھا کہ نہیں آپ لوگوں کو کیا پتہ۔ پرانا دور کتنا سستا تھا۔ لوگوں کا آج جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ خیر، اس واقعے کو بھی اب 15 سال ہونے جا رہے ہیں۔

جب نئی نئی پی پی پی کی حکومت 2008ء میں آئی یہ تب کی بات ہے۔ لیکن اگر آج میں والدہ صاحبہ اور پھوپھی جان سے پوچھوں کہ 2008ء کی قیمتوں پر آپ کو سامان لاکر دوں؟ تو دونوں خوشی کے مارے بے ہوش ہوجائیں گی۔ من حیث القوم ہم صرف جذباتی ہوکر معاملات کے بارے میں سوچتے ہیں۔ وہ جو اوپر اللہ میاں نے دماغ دیا ہے۔ اس کا استعمال شاز ونادر ہی ہوتا ہے۔ مہنگائی کے حوالے سے بھی ہمارا یہی رویہ ہے۔

حکومتیں تبدیل ہو جائیں، مہنگائی کی رفتار اور رخ ایک ہی جانب ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ ہر آنے والی حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ مہنگائی پر قابو پائے گی۔ حکمرانی جس بھی جماعت کی ہو، چاہے پی ٹی آئی آئے یا پی پی پی یا ن لیگ، مہنگائی کا یہی حال رہے گا۔ کوئی ایک ملک بتائیں جہاں قیمتیں ایک ہی جیسی ہیں؟ کوئی ایک ملک جہاں آج سے بیس یا سو سال پرانی قیمتیں اب بھی برقرار ہیں؟ مسٹر بین تو ہر کسی نے دیکھا ہوگا کبھی نہ کبھی۔

اس میں ایک قسط ہے، جس میں مسٹر بین کپڑے دھونے کے لیے دکان جاتا ہے اور واشنگ مشین کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور سامنے موجود ایک پوسٹر کو ملاحظہ کرکے غصے کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے غصے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ پوسٹر میں پرانی قیمت دو پاؤنڈ کاٹ کر نئی قیمت تین پاؤنڈ لکھی گئی ہوتی ہے۔ اور یاد رہے یہ مسٹر بین کی اقساط آج سے تیس سال پہلےنشر ہوئی تھیں۔ پھر یہ بھی دیکھیں کہ مسٹر بین برطانوی کردار ہے، جو برطانیہ میں ہی رہتا ہے۔ کسی غریب ملک میں نہیں۔

اور کچھ نہیں آپ صرف یوٹوب پر جاکر "سرچ بوکس "میں کسی مغربی معروف اور مستند چینل کا نام لکھیں، مثلاً سی این این یا فوکس یا اے بی سی، اور پھر "انفلیشن "(مہنگائی)کا لفظ لکھیں۔ دیکھیں پھر کتنی وڈیوز آپ کو ملتی ہیں مہنگائی پر۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن ممالک نے جدید ٹیکنولوجی دنیا کو عطیہ کی، جنہوں نے خوفناک بیماریوں سے ابن آدم کو نجات دلوائی، جنہوں نے جوہری دھماکے کیے، وہ مہنگائی کیوں نہیں ختم کر پائے؟

جواب یہ ہے کہ مہنگائی ختم نہیں کی جاسکتی۔ اسے قابو کیا جاسکتا ہے یا کم، اگر اقتصادی حقیقتوں کو مد نظر رکھا جائے۔ چلیں ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں، ایک شخص کو پانچ مختلف ادارے، یا چلیں دس ادارے ملازمت کی پیش کش کرتے ہیں۔ اب اس بندے سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں؟ کیا وہ سب سے زیادہ تنخواہ، مراعات اور رتبہ دینے والے ادارے کے پاس جائے گا یا جو سب سے کم تنخواہ، مراعات اور رتبہ دے گا؟

کیا وہ کسی کم ساکھ رکھنے والے ادارے کے پاس جائے گا یا جس ادارے کی قابلیت اور نام پر ہر کسی کو اعتماد ہے؟ اس کا جواب دینے کے لیے آپ کو ماہر اقتصادیات ہونا ضروری نہیں۔ ہر کسی کو اس سوال کا جواب معلوم ہے، لہذا میں جواب کو رہنے دیتا ہوں۔ لیکن کسی بندے کو ایک بھی جگہ سے ملازمت کی پیش کش نہ ہو، وہ کئی مہینے اور سالوں ملازمت حاصل کرنے کی تگ و دو میں گزار چکا ہو، اگر اسےاچانک کسی جگہ سے ملازمت کے آثار ظاہر ہوتے ہیں تو کیا وہ نخرے دکھائے گا؟

وہ بیچارہ تو فی الحال جلد اس ملازمت کو پکڑ ے گا۔ کیونکہ اس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔ اب روزانہ کے حساب سے جو ہم چیزیں لیتے ہیں، انہیں آپ اس بندے کی مانند لیجیے، جس کو ہر جگہ سے ملازمت کی پیش کش ہے۔ جیسے ہمیں ضروری چیزوں کی ضرورت رہتی ہے، ویسے ہی قابل لوگوں کی قابل اداروں کو رہتی ہے۔ لہذا تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ملازمین کی مانگ رہتی ہے۔ اسی طرح ضروری اشیا بھی ہر کسی کو چاہییں۔

اب ہماری آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ اس رفتار سے ہماری پیداوار بڑھ نہیں رہی۔ لہذا قیمتیں آسمان کو تو جائیں گی۔ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ہم کھانے والی قوم ہیں۔ کسی بھی شہر جائیں، ریسٹورینٹ اور فاسٹ فوڈ کے مراکز ڈھیروں ملیں گے آپ کو۔ شادی حالز میں جائیں تو کسی کی بھی شادی ہو، کھانا بے دریغ نوش کیا جارہا ہوتا ہے اور بہت سارا کھانا ضائع بھی ہوتا ہے۔ جبکہ زیادہ کھانے سے صحت کے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

اور ہم اپنی آنکھوں کے سامنے لوگوں کو مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن کتابوں کی دکانیں کتنی ملیں گی آپ کو؟ کتنے ورزش کے مراکز ملیں گے آپ کو؟ لہذا، میں جس قیمت پر 2016ء میں کتابیں خریدتا تھا، آج بھی اسی قیمت پر خریدتا ہوں، کیونکہ کتابوں کی زیادہ مانگ ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان میں قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ لوگ ویسے اتنا نہیں کھاتے جتنا افطار کے وقت رمضان میں کھاتے ہیں۔

اور ویسے تو دال روٹی سے کام چل جاتا ہے۔ لیکن رمضان میں ہر کسی کو تلی ہوئی اشیاء چاہیے ہوتی ہیں، لہذا ہر چیز کی قیمت بڑھتی ہے۔ تیل تو ہم باہر سے منگواتے ہیں۔ لہذا اس کا تو کچھ نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر تیل دریافت کرنے پر کام نہ کیا جائے۔ بشر طیکہ پاکستان میں بہت سارا تیل زیر دھرتی ہو۔ اور اس کے لیے کافی وقت اور سرمایہ چاہیے۔ تیل ایک دن میں دریافت نہیں ہونا۔

اگر ہو بھی گیا تو ایک دن میں ہماری گاڑی کی ٹنکی اس سے نہیں بھرنی۔ اس تیل کو پھر اس قابل بنانے کے لیے بھی بہت سارا سرمایہ اور وقت چاہیے۔ لہذا اس حوالے سے تو ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ لیکن جہاں مرغی، دال، سبزی، آٹے اور چینی کا سوال ہے، ہم کچھ کر سکتے ہیں (کیونکہ ہم زرعی ملک ہیں اور یہ ساری چیزیں بناتے ہیں) ہم یا تو اپنی آبادی کو قابو کریں اور اسے اپنی پیداوار کی شرح سے ہم آہنگ کریں یا پھر ہم اپنی پیداوار کو آبادی کی رفتار سے ہم آنگ کریں۔

اس کے علاوہ جو کچھ آپ کو بتایا جاتا ہے کہ جی فلاں کی حکومت آئے گی تو یہ ہو جائے گا، فلاں پالیسی سے یہ ہو جائے گا، کچھ نہیں ہوگا۔ بڑا حیران ہوتا ہوں، جب پڑھے لکھے صحافیوں کو کبھی پی ٹی آئی کبھی ن لیگ کی حکومت پر مہنگائی کے حوالے سے تنقید کرتے دیکھتا ہوں۔ جیسے ن لیگ اور پی ٹی آئی جگہ جگہ جاکر دکان والوں کو اور صنعت کاروں کو کہتی ہیں کہ بھئی قیمت بڑھاؤ۔

آبادی تو ہم اس قدر رکھیں گے نہیں، جس قدر ہم سنبھال سکیں۔ پھر کہا جاتا ہے کہ جی اللہ پالنے والا ہے۔ جی بالکل۔ سو فیصد صحیح کہا۔ لیکن تربیت کس نے کرنی ہے؟ والدین بس بچے کرتے رہیں اور تربیت بھی اللہ کے ذمے ہے؟ پھر والدین کا کیا کام؟ بچہ یتیم خانے میں بھیج دیں۔ حیرت ہوتی ہے، ان لوگوں پر جو قوم کے حال کو دیکھ کر بھی کہتے ہیں کہ جی آبادی بڑھاؤ، اللہ دینے والا ہے۔ جب کہ قوم کے اعمال کا انہیں بخوبی علم ہے۔

اور انہی اعمال پر ہر جمعے کے خطبے میں تنقید بھی ہوتی ہے۔ لیکن اسی بہتات کی ہمایت بھی ہوتی ہے۔ گویا ہم جان بوجھ کر ایک ایسے کاروبار میں پیسے لگا رہے ہیں، جو ڈوب رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم کہیں کہ بھئی بچے پیدا کریں، اگر صحیح تربیت کر سکتے ہیں۔ پہلے ایک کریں اور پھر دیکھیں کس قدر اسے انسان کا بچہ بنا سکتے ہیں۔ بصورت دیگر اگلا بچہ نہ کریں۔ کیونکہ ایک کی صحیح تربیت اور تعلیم آپ سے ہو نہیں رہی، مزید کی گنجائش نہیں۔

لیکن نہیں۔ ایسا نہیں کہا جائے گا۔ بے شک دن رات گناہ کریں لوگ، لیکن ہماری اس کثرت سے ہمیں بتایا جاتا ہے کہ (نعوذباللہ) رسول پاک ﷺخوش ہونگے۔ کثرت حقیقی ہو تو بات سمجھ آتی ہے۔ یہاں تو خود علماء غیر مسلموں سے گزارش کرتے ہیں کہ اسلام کا اصل چہرہ مسلمانوں سے نہیں احادیث اور سیرت نبویﷺ سے حاصل کریں۔ تو پھر کس منہ سے انہی مسلمانوں کی آبادی بڑھانے کی بات کی جارہی ہے؟

اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اس حوالے سے حکومت کیا کرسکتی ہے؟ جواب ہے کچھ بھی نہیں۔ کیا حکومت لوگوں کی نجی زندگی میں داخل ہو کر بے لگام اور غیر تربیت یافتہ بچوں کی پیدائش کو روک سکتی ہے؟ میں خود نہیں چاہوں گا ایسا ہو۔ دوسرا یہ ہے کہ ہم پیداوار بڑھائیں۔ دوسرے ممالک فی ایکڑ جو پیدا وار رکھتے ہیں، ہم اس کے قریب بھی نہیں وجوہات بے شمار ہیں۔ جدید طریقے نہیں اپنائے جاتے کاشتکاری کے، پانی میسر نہیں یا ضائع ہو جاتا ہے۔

صحیح بیج یا کھاد کا استعمال بھی ایک اہم پہلو ہے۔ معتدد چیزیں ہیں۔ اب جدید طریقے کیسے اپنائے جائیں؟ ابھی چند دنوں پہلے ہمارے ایک رشتے دار جو کہ ایک ایم این اے کے چچا جان ہیں، ان کی زرعی زمین کے قریب سے ٹرانسفارمر چوری ہوگیا۔ تو کون بھلا مہنگی مشینری باہر سے منگوائے گا، جب ایسے حادثات ہوتے رہتے ہیں؟ پھر جدید مشینری سے کئی کسان اور مزدور بے روزگار ہونگے، ان کا کیا کرنا ہے؟ لہذا یہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں۔

اب اس سب کا حل صرف ایک ہے، ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں۔ اللہ تب ہی قوم کی مدد کرتا ہے۔ جب وہ قوم اپنی غلطی پر نادم ہو۔ لیکن میڈیا کھولیں یا لوگوں کی بحث و مباحث ملاحظہ کریں، آپ کو ایک ہی نقطہ نظر آئے گا، ہائے مر گئی عوام اور حکمرانوں نے ظلم کر دیا۔ جبکہ حکمران عوام کے ہی اعمال کا نمونہ ہیں۔ اللہ نے قوموں کے ساتھ جو انہیں کھیلا نعوذ باللہ۔

کہ جس ملک کے حصے میں اچھے حکمران آئے وہ ترقی کر جائے، باقی کچھ قومیں برے حکمرانوں کی وجہ سے گرتی رہیں۔ نہیں، اللہ انصاف کرتا ہے۔ اور وہ انصاف پی ٹی آئی والے انصاف سے مختلف ہے۔ ہر کسی نے اپنا حصہ ڈالا ہے مہنگائی میں، جب تک ہم اعتراف نہیں کریں گے کہ غلطی ہماری ہے نہ کہ کسی بھی دور کے کسی بھی حکمران کی، ہم آگے نہیں بڑھیں گے۔ ہم بس حکمران تبدیل کرتے رہیں گے، اپنی حالت نہیں۔

اللہ ہمیں صحیح سمجھنے کی اور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Check Also

Dr. Shoaib Nigrami

By Anwar Ahmad