Ghurbat, Mehangai Aur Berozgari Ka Khatma
غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ
ہم روزانہ اپنے گھر سے باہر نکل کر، اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر، لوگوں کو پیسے پکڑاتے ہیں۔ اور یہ سب ہم زور یا دباؤ کے بغیر کرتے ہیں۔ کوئی غندہ یا بھتہ خور ہم سے اتنے پیسے نہیں لے سکتا جتنا ہم خود برضا و رغبت کسی کی جھولی میں ڈال آتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ پوری زندگی قائم رہتا ہے۔ کبھی ہمیں اسکول کی فیس ادا کرنی ہوتی ہے، تو کبھی فرنیچر کے پیسے دینے ہوتے ہیں، تو کبھی بجلی کا بل ادا کرنا ہوتا ہے، تو کبھی دوائیاں خریدنی ہوتی ہیں۔
کوئی بندوق کے ذریعے ہمارے اوپر دباؤ نہیں ڈالتا کہ "باہر جاؤ اور پیسہ خرچ کرو"۔ مثلاً، بہت سے لوگ آج کے دور میں بھی میں نے دیکھے ہیں جو نہ یو پی ایس رکھتے ہیں، نہ بیڑی، نہ جنریٹر۔ وہ لوگ بتی کے جاتے ہی کھڑکی کھول لیتے ہیں یا موبائل کے ٹارچ سے رات کو گھر روشن کرکے وقت گزارتے ہیں۔ جبکہ بہت سے لوگ یہ نہیں کرپاتے۔ آج کے دور میں کئی کم آمدن والے بھی اپنے گھر میں یو پی ایس یا جنریٹر کا بندوبست کرکے بیٹھے ہیں۔
کچھ معاملات میں ہم البتہ مجبور ہوتے ہیں۔ اگر جسمانی تکلیف ہے، اور بہت زیادہ ہے، جانے کا نام ہی نہیں لے رہی، تو ہمیں ڈاکٹر کےپاس جانا پڑے گا، دوائیاں خریدنی پڑیں گی۔ بجلی کا بل اگر زیادہ آجائے تو ہمیں رقم ادا کرنی پڑے گی، چاہے ہم نے بجلی زیادہ استعمال کی ہو یا نہ کی ہو، کیونکہ بصورت دیگر واپڈا کا نمائندہ آکر آپ کا میٹر اکھاڑ کے لے جائے گا اور آپ بے یار و مددگار بغیر بجلی کے بیٹھے رہو گے۔
لیکن زیادہ تر پیسہ ہماری جیب سے بغیر کسی زور یا دباؤ کے جاتا ہے، ہماری خواہشات کے عین مطابق۔ بہت کم لوگ آپ کو ایسے ملیں گے جو سو فیصد ضروریات پر خرچ کرنے کے بعد آپ کو شکایت کریں کہ "یار!گزارا ممکن نہیں"۔
ابھی چند دن پہلے میں ایک بیکری میں گیا، جہاں ایک ملازم کسی گاہگ کے ساتھ سیاسی گفت و شنید میں مصروف تھا۔ ظاہر ہے میں وہاں کھڑا تھا تو مجھے ساری گفتگو سنائی دے رہی تھی۔ ملازم نے بہت سارا گٹکا منہ میں رکھا اور پھر گویا ہوا: "یہ معاشرہ غریبوں کا نہیں ہے۔ بہت مشکل ہوگئی ہے زندگی مہنگائی کے بعد"۔ سامنے کھڑے گاہگ کے ہاتھ میں مہنگی سگریٹ کی ڈبی تھی، اس نے لائٹر کے ذریعے سگریٹ جلا ئی اور پھر اپنے منہ سے دانش کے انمول موتی بکھیر کے رکھ دیے۔ بولا: "ہاں یار!معاشرہ تباہ ہے۔ کوئی امید ہی نہیں غریب لوگوں کے لیے"۔
اب آپ دیکھیں ان لوگوں کے پاس گٹکے کے لیے، پان کے لیے، تمباکو کے لیے، سپاری کے لیے، اور بھی بہت ساری غلط چیزوں کے لیے پیسے آجاتے ہیں۔ آج سے چار سال پہلے، میں جب ایک تعلیمی ادارے میں بطور لیکچرر کام کرتا تھا، وہاں میں نے ایک چپراسی کے ہاتھ میں مہنگا سمارٹ فون دیکھا۔ میں حیران ہوگیا کہ "اس کے پاس پیسے کہاں سے آئے یہ موبائل خریدنے کے لیے؟ اس کی تنخواہ بمشکل 10 سے 15 ہزار ہے"۔ ابھی میں یہ سوال پیش کرنے جارہاتھا چپراسی سے کہ اچانک کالج کے ایک ملازم نے مجھے فخریہ انداز میں بتایا کہ "میں نے اسے قسطوں پر یہ موبائل دلوایا ہے اپنے کسی جاننے والے سے"۔
دوسری طرف کوئی بیمہ پالیسی بیچنے والا ان لوگوں کے پاس جاکر کہے کہ بیمہ کرالو، 15 سے 20 سالوں میں رقم کو اضافے کے ساتھ ہم واپس کریں گے، موت کی صورت میں آپ کے گھر والوں کو اچھی رقم ملے گی، یا یہ کہ صحت کی بیمہ پالیسی کرالیں، مشکل وقت میں یہ رقم کام آئے گی جب ہسپتال کا بل دینا مشکل ہوجائے گا، یہ لوگ اس وقت اس بندے کو بھگا دیتے ہیں۔ پوری جدید دنیا کی مثال ہم ایک دوسرے کو دیتے ہیں، کبھی یہ نہیں بتاتے کہ وہاں ہر ذی شعور بندہ اپنی صحت کی بیمہ پالیسی خریدتا ہے، گھر اور گاڑی کی بھی بیمہ پالیسی خریدتا ہے۔
ہم الٹا یہاں فتوے لگا دیتے ہیں کہ یہ غیر اسلامی ہے۔ بھئی!کیسے غیر اسلامی ہوئی یہ بات؟ آپ رقم کمپنی کو دے رہے ہیں، وہ آپ کی رقم کاروباری حضرات کے حوالے کرتی ہے۔ کاروباری لوگ اس سے کاروبار کرتے ہیں، روزگار کے دروازے کھولتے ہیں۔ مرنے کی صورت میں آپ کے زیر کفالت لوگوں کو کمپنی موٹی رقم دے دیتی ہے، بصورت دیگر آپ کی لگائی ہوئی رقم آپ کو 15 سے 20 سال بعد اچھے منافع کے ساتھ واپس ملتی ہے، اس میں کہاں دین کی خلاف ورزی ہوئی؟
خیر، موضوع سے ہٹ کر بات ہوگئی۔ ہم بات کر رہے تھے کہ اکثر پیسہ ہمارے ہاتھوں سے جو جاتا ہے وہ ہماری مرضی سے جاتا ہے۔ مانا کہ کئی بار ہمیں پیسہ بغیر مرضی کے دینا پڑتا ہے۔ لیکن ایسا ہوتا کم ہے۔ کیونکہ جہاں نیت ہماری ہو، ہم غلط چیزوں پر خرچ کرنے کے لیے بھی پیسے نکال لیتے ہیں۔ یہ گٹکا، پان، تمباکو، سپاری، نسوار، وغیرہ، اکثر اوقت ہمارے وہ پاکستانی بھائی استعمال کرتے ہیں جو زیادہ آمدن نہیں رکھتے۔
جہاں ہم کہتے ہیں کہ نوجوان بے روزگاری سے پریشان ہیں، نوکریاں نہیں، وہیں ہمارے نوجوانوں کے پاس اتنا وقت کیسے آجاتا ہے کہ وہ فحش فلمیں دیکھنے کے حوالے سے ملک کا نام روشن کرچکے ہیں؟ یہی وقت انٹرنیٹ پر فری لانسنگ کے ذریعے پیسہ کمانے پر بھی صرف ہوسکتا ہے، وہاں تو حکومت کی کوئی سفارش نہیں چاہیے، نہ اس چیز کا تعلق ملک میں موجود نوکریوں کی صورتحال سے ہے۔ بس نیت چاہیے۔ کتنے نوجوانوں کی کہانی انٹرنیٹ پر موجود ہے کہ انہوں نے گھر بیٹھے لاکھوں، کروڑوں کما لیے یوٹیوب اور فری لانسنگ کے ذریعے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک میں مہنگائی ہے، غربت ہے، بے روزگاری ہے، لیکن جن لوگوں نے ان تینوں چیزوں کو مات دینی تھی، وہ دے گئے۔ انہیں کسی انقلابی لیڈر کی ضرورت پیش آئی اور نہ ہی حکومت کے وضیفے کی۔ بلکہ یوں کہا جائےکہ اگر یہ نظام، حکومت اور حکمران تبدیل کرنے کے پیچھے لگے رہتے، یوتھیوں کی طرح وقت برباد کرکے دوسرے لوگوں کو گالی دینے اور ن لیگ کے لیڈران اور فوج پر لعن طعن کرنے پر وقت صرف کرتے، تو آج یہ کہیں بھی نہیں ہوتے۔ یہ لوگ 9 مئی کے سانحے کی وجہ سے جیل میں ہوتے اور ان کے والدین ان کی ضمانت کے لیے وکلاء کے پیچھے اپنا وقت، توانائی اور سرمایہ ضائع کر رہے ہوتے۔
جیسے کہ میں نے آپ کو کہا کہ ہم بہت سے لوگوں کو اپنا بہت سارا پیسہ دے آتے ہیں اپنی مرضی سے۔ اسی طرح بہت سے لوگ ان میں ایسے ہیں جو صرف آپ کا ہی نہیں، بلکہ پورے شہر، صوبے یا ملک کا بہت سارا پیسہ اپنے پاس منتقل کرتے ہیں۔ ذرا ایک منٹ کے لیے سوچیں کہ آپ کے شہر میں مشہور بریانی کی دکان، جہاں بریانی خریدنے کے لیے آپ کو کئی لمحے انتظار میں گزارنے پڑتے ہیں، وہاں یہ سب کس وزیر، جج یا جرنیل کی سفارش پر یہ سب ہورہا ہوتا ہے؟ اسی طرح وہ درزی جس کی سلائی مشہور ہے، یا وہ حجام جس کی کٹائی کی مہارت کا چرچا پورے شہر میں ہے، یا وہ کوئی بھی شخص جو ان لوگوں کی مانند گاہگوں کی بھیڑ کو متوجہ کرتا ہے اور اپنی منہ مانگی قیمت مانگتا ہے، وہ یہ سب کس کی سفارش پر حاصل کر رہا ہے؟
کوئی سفارش نہیں بھائی جان! سیدھی سی بات ہے: ان لوگوں نے ایسی چیز دینا شروع کی جس کی مانگ بڑھتی گئی، لہذا آج وہ اس چیز کی بدولت کھا رہے ہیں اور خوب کھا رہےہیں۔ فضول سی ڈگریوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے، نوکریوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے، کامیاب لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ کن چیزوں کی مانگ ہے، اور پھر ان چیزوں میں وہ اس چیز کا انتخاب کرتے ہیں جس کو فراہم کرنے کے وہ اہل ہوں۔ امیر لوگ، کروڑ اور ارب بتی لوگ، ہر معاشرے میں موجود ہیں۔ آپ نےسوچنا ہے کہ کیسے ان کی جیب سے پیسے نکالنے ہیں، بغیر بندوق کے۔
ایک چھوٹی سی مثال دے کر میں اس گفتگو کو ختم کروں گا۔
اس سال اللہ تعالی کے فضل سے ہم نے اپنا فلیٹ خریدا۔ اس سے پہلے مسلسل تین سالوں میں ہم نے تین کرائے کے فلیٹز تبدیل کیے۔ ایک فلیٹ چھوڑنا پڑا کیونکہ مالک فلیٹ، فلیٹ کو بیچنا چاہتا تھا؛ دوسرے فلیٹ میں دیمک لگ گئی؛ تیسرے کو اس لیے چھوڑا کیونکہ اپنے فلیٹ کا بندوبست ہوگیا تھا۔ خیر، جس فلیٹ کو خریدا وہ بالکل نئے پلازا میں ہے۔ ابھی ابھی جنوری کے مہینے میں آباد ہوا ہے۔
جب ہم منتقل ہورہے تھے اور بجلی کا کام کرا رہے تھے تو بلڈر کے بندوں نے کہا کہ "آپ ہمارے الیکٹریشن سے کام کروائیں۔ کیونکہ اس نے ہی اس پلازا کا سارا بجلی کا کام کیا ہے۔ آپ اپنے الیکٹریشن کو بلائیں گے تو اسے پتہ ادھر کی وائرنگ وغیرہ کا ہوگا نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کا اور پلازا کا نقصان ہوجائے، کیونکہ بجلی کی تاریں اور سارے فلیٹس ایک دوسرے سے جڑے ہیں"۔
یہ بات صحیح بھی تھی۔ خیر، ہم نے ان کے الیکٹریشن کو کام دیا۔ انہوں نے بخوبی سارا کام کیا۔ آخر میں اچھا معاوضہ بھی طلب کیا۔ بعد میں میں نے سوچا کہ پلازا میں 52 فلیٹز ہیں اور دو پینٹ ہاؤسز۔ پھر پوری عمارت کا بجلی کا کام بھی اس بندے نے کیا ہے۔ ساتھ ساتھ اس نے باقی 51 فلیٹز کا بھی کام کرنا ہے۔ پینٹ ہاؤسز پر وہ پہلے سے ہی کام کر رہا تھا۔ میں نے اندازاً حساب لگایا کہ اس نے کتنا کمایا ہوگا۔ جواب لاکھوں میں آیا اور کروڑ کے قریب۔ اور یہ صرف ایک پلازا سے وابستہ اس کی آمدن ہے۔
اب یاد رہے کہ بلڈر ہمارے ہی شہر سے تعلق رکھتے ہیں، جبکہ الیکٹریشن صاحب کسی اور صوبے کے ہیں۔ روزی کے واسطے اس شہر میں ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے تو نہیں ہوا کیونکہ بلڈر اور الیکٹریشن کے ذاتی تعلقات ہیں یا بلڈر کی کوئی الیکٹریشن سے قربت ہے۔ الیکٹریشن کے پاس قابلیت اور ہنر ہے جس کی وجہ سے وہ غیروں، جیسے کہ میں، بلڈر اور بہت سے شہر کے رہائشیوں، سے پیسے نکال رہا ہے۔ اور ٹھیک ٹھاک نکال رہا ہے۔
ہماری نئی نسل، بے روزگار نسل، اگر اس بات کو جان گئی تو ملک سے بے روزگاری، مہنگائی اور غربت کا خاتمہ ہوجائے گا۔