Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Awais Qayyum Rana/
  4. Prisoner To President Of Country

Prisoner To President Of Country

صدرِ مملکت کا قیدی

مصر کی 7 ہزار سال کی تاریخ پر کبھی بھی جمہوری حکومت نہیں آئی۔ فرعونوں کا دور تو 2 ہزار سال پہلے ختم ہو گیا لیکن مصر کی سیاست میں فرعونیت کوٹ کوٹ کے بھری ہے۔ ویسے تو مصر میں پارلیمنٹ کے الیکشن ہوتے تھے لیکن صدر فوج سے لیا جاتا تھا۔ سارے اختیار صدر کے پاس ہوتے تھے لیکن پارلیمنٹ کے حیثیت نمائشی تھی۔ جو فوجی آفیسر بھی صدر بنتا وہ عموماً اپنی موت تک صدر رہتا تھا۔

2011 تک یہ ہی صورتحال رہی لیکن پھر ایک انقلاب نے نئی تاریخ رقم کر دی۔ مصر کا صدر حسنی مبارک 80 کی دہائی سے اقتدارمیں تھا اور لگتا یہ ہی تھا کے وہ اپنے موت تک صدر رہے گا۔ لیکن جنوری 2011 میں اس کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے۔ قاہرہ کی سڑکیں لوگوں سے بھر گئی۔ عوام نے دھرنا دے دیا۔ عوام کو کچلنے کے لئے فوجی ٹینک بھی آئے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہو سکا۔ آخر 11 فروری 2011 کو حسنی مبارک نے استعفی دے دیا۔ جب استعفی کا اعلان ہوا لوگوں نے جشن منانا شروع کر دیا۔ لیکن کسی کو معلوم نہیں تھا جیل سے بھاگا ہوا ایک قیدی مصر کا نیاصدر بنے گا۔ یہ قیدی کون تھا اور جیل سے کیوں بھاگا؟

مصر میں 1928 سے ایک تنظیم قائم ہے جس کا نام ہی اخوان المسلمون۔ یہ تنظیم پر امن طریقہ سے مصر میں اسلامی نظام کے قیام کے لئے جدوجہد کر رہی تھی۔ اس تنظیم کے کارکنوں نے جنوری 2011 کے انقلاب میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا تھا۔ اس دوران تنظیم کےسینکڑوں کارکنان کو گرفتار کر لیا۔ لیکن احتجاج جاری رہا۔ کیونکہ پولیس اور فورسز کی توجہ مظاہرین پر تھی اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طاقتور مجرم گروہوں نے اپنے ساتھیوں کو چھڑوانے کے لئے جیلوں پر حملہ کر دیا۔ انہوں نے قاہرہ کی 4 بڑی جیلیں توڑی اور تمام قیدی فرار ہو گئے ان فرار ہونے والوں میں اخوان المسلمون کے ساتھ بڑے لیڈر بھی شامل تھے۔ ان میں سب سے بڑا لیڈر تھامحمد ُمرسی آل آیات۔

مرسی ایک کسان کا بیٹا تھا پر محنت سے انجینئر بنا۔ اس نے سکالرشپ سے مٹئیریل سائنس میں PHD بھی کی۔ اب یہ ڈاکٹر مرسی کہلاتا تھا۔ اس نے اخوان المسلمون کو جوائن کیا اور سرگرم رکن بن گیا۔ اخوان المسلمون پر الیکشن لڑنے پر پابندی تھی اس لئے سن2000 میں مرُسی نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا اور کامیاب ہوا اور مرسی 2005 تک پارلیمنٹ کا حصہ رہا۔ 2011 کے انقلاب کے بعد اب یہ ہی ُمرسی مصر کا ایک اہم ترین کردار بننے جا رہا تھا۔ ُحسنی مبارک کے استعفی کے بعد مصر میں صدارتی انتخابات کا اعلان ہوا کیونکہ اخوان المسلمون پر پابندی تھی تو انہوں نے ایک نئی جماعت فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے نام سے رجسٹر کروا دی۔

مرسی کو اس پارٹی میں بھیج دیا لیکن پارٹی نے جس شخص کو صدارتی انتخاب کے لئے ُچنا وہ مرسی نہیں بلکہ ایک اور لیڈر محمدخیرت الشاطر تھا۔ تاہم مصر میں صدر کا امیدوار بننا آسان نہیں تھا۔ مصری قوانین کے مطابق مصلح افواج کی سپریم کونسل کسی بھی شخص کو نا اہل قرار دے سکتی تھی۔ کونسل نے الشاطر کو نا اہل کر دیا لیکن پارٹی نے بیک اپ کے لئے پہلے ہی مرسی کو نامزدکیا ہوا تھا۔ چنانچہ الشاطر کے ہٹنے کے بعد مرسی کا صدارتی امیدوار نامزد کر دیا گیا۔

یوں 2012 میں مصر میں صدارت انتخابات ہوئے۔ فوج نے مرسی کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا کر دیا۔ یہ ائیر فورس ک سابق کمانڈراحمد شفیق تھا۔ یہ ایک فوجی افسر کو جمہوری طور پر صدر بنانے کے کوشش تھی تاہم یہ کوشش ناکام رہی۔ الیکشن تو مرسی نےجیت لئے لیکن فوج نےانہیں اقتدار منتقل نہیں کیا بلکہ الیکشن کے نتائج بھی روک لئے گئے۔ جس پر اخوان المسلمون کے کارکن مشتعل ہو گئے ہزاروں کارکنوں نے پھر سے دھرنا دے دیا اور مطالبہ کرنےگے کے الیکشن کے نتائج کا فوراً اعلان کیا جائے۔ ایک ہفتہ تک ایسےلگ رہا تھا فوج اقتدار پر قبضہ کر لے گی لیکن عوام کے پریشر کی وجہ سے 6 روز بعد الیکشن کمیشن نے نتائج کا اعلان کر دیا۔ مرسی52% ووٹ لے کر مصر کے پہلے جمہوری صدر بن گئے۔ قاہرہ میں مرسی زندہ آباد اور فوج مردہ آباد کے نعرے لگنے لگے یہ ایک بہت بڑاانقلاب تھا کیونکہ پہلی دفع ایک سولین جمہوری طریقہ سے مصر کا صدر بنا تھا۔ فوج نے وقتی طور پر مرسی کو صدر تو تسلیم کرلیا تھا لیکن فوج اور مرسی دونوں جانتے تھے کہ وہ ایک دوسرے کی برتری کو تسلیم نہیں کریں گے۔

مرسی نے اقتدار میں آتے ہی فوجی کی سیاست میں مداخلت روکنے کی کوششیں شروع کر دی مصر میں فوج کا سربراہ ہی وزیرِ دفاع ہوتا ہے۔ مرسی نے آتے ہی وزیرِ دفاع اور مصلح افواج کے کمانڈر ان چیف محمد حسین کا دونوں عہدے سے ہٹا دیا اور اس کی جگہ وہ اپنی پسند کا کمانڈر ان چیف اور وزیرِ دفاع لے آئے جس کا نام تھاعبدالفتح جو مصر کا موجودہ صدر ہے۔ یہ سب مرسی نے فوجی بغاوت روکنے کے لئے کیا۔ 22 نومبر 2012 کو مرسی نے ایک اور حکم نامہ جاری کیا کوئی عدالت اس کے کسی فیصلے کے خلاف کوئی حکم جاری نہیں کر سکتی تھی۔ لیکن مصر میں اس حکم نامے کا شدید ردِ عمل آیا اپوزیشن جماعتوں کو لگتا تھا مرسی تمام اختیارلے کر ڈکٹیٹر بننا چاہتا ہے۔ پورے ملک میں مظاہرے شروع ہو گئے تو مرسی نے حکم نامہ واپس لے لیا لیکن مظاہرے نہیں رک رہے تھے۔

مظاہروں کی اور وجہ نیا آئین، خراب معیشت اور مرسی کا استعفی تھا۔ مظاہرین نے اخوان المسلمون کے دفاتر کو جلا دیا اور تحریرسکوائر پر قبضہ کر لیا اور مرسی کے استعفی تک دھرنا دے دیا۔ آرمی چیف جس کو مرسی نے خود تعینات کیا تھا اس نے مرسی حکومت کو 48 گھنٹوں میں مظاہرین کے مطالبات ماننے کی ڈیڈ لائن دے دی نہیں تو اقتدار پر قبضہ کرنے کی دھمکی دی جس پرمرسی نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا میں اس ملک کا جمہوری صدر ہوں اور میں حق لئے جان بھی دے دوں گا۔

تاہم ڈیڈلائن ختم ہوتے ہی فوج نے مرسی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ مرسی کو گرفتار کر کے قریب ایک فوجی اڈے پے منتقل کیا گیا اور پھر بدنام زمانہ "طورہ جیل" بھیج دیا گیا۔ اخوان المسلمون کے کارکنان نے مرسی کے حق میں کارکن لاکھوں کی تعداد میں اکھٹے ہوئے اور ایک جیل پر حملہ کر دیا انکے خیال میں مرسی وہاں موجود تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ فوج نے ان مظاہرین پر فائر کھول دئیے اور سینکٹروں لوگ مارے گئے اور زخمی ہوئے۔ اس طرح فوج نے عوام کو کچل کے حکومت بنا لی اور کمانڈر ان چیف السیسی نے 4 سال کے لئے صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔

صدر بنتے ہی السیسی نے 3 بڑے کام کئے۔ اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دے دیا۔ اخوان المسلمون کے ہزاروں کارکنوں کو جیل بھیج دیا۔ اور تیسرا کام یہ کیا کے مرسی کا ٹرائل شروع کر دیا۔

مرسی پر چار بڑے الزام تھے۔ گیارہ جیلیں توڑنے، 50 سے زائد پولیس والوں کا قتل، 20 ہزار لوگوں کو بھگانے اور پولیس اسٹیشن پر حملے۔ قطر کو مصر کی خفیہ دستاویزات حوالے کرنے اور عدالت کی توہین کرنے کے تھے۔

نومبر 2013 میں جب مرسی کو ٹرائل کے لئے لایا گیا تو اس نے اپنے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دیا۔ مرسی کو جب بھی جیل لایا جاتا اسکو لوہے کے ساونڈ پروف ایک پنجرے میں بند کیا جاتا تھا۔ مرسی کو جیل توڑنے کے کیس میں پہلے سزائے موت سنائی گئی جس کو بعدمیں ایک عدالت نے دوبارہ ٹرائل کا حکم دیا لیکن باقی مقدموں میں 25 سال 20 سال اور 3 سال قید سنائی گئی۔ تمام انٹرنیشنل اداروں نے مرسی کے ٹرائل کو جعلی اور ڈرامہ قرار دیا تھا۔ لیکن یہ مقدمات بند نہیں کئے گئے۔

مرسی کو اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد پھر کبھی آزادی کا سورج دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ وہ 2013 سے 2019 تک مسلسل قید میں رہا اسے قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔ 6 سال میں صرف 3 بار اسے اپنے گھر والوں سے ملنے دیا گیا۔ اور ہر ملاقات میں سیکیورٹی اہلکارموجود رہے اور انکی ہر بات کو نوٹ کرتے رہے۔ مرسی کے پاس کوئی بیڈ نہیں تھا وہ زمین پے سوتا تھا۔ اخبار، کتابیں، کاغذات قلم کچھ بھی نہیں تھا۔ زرا سوچیئے تو سہی پانچ سال قیدِ تنہائی!

مرسی اکثر ججوں سے شکایت کرتا تھا کہ اسے علاج کی سہولت نہیں مل رہی۔ لیکن کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ 2018 میں برطانیہ کی سیاست دانوں اور وکلا نے مرسی کی قید کی تحقیقات کی انہوں نے کہا کے مرسی کی قید تشدد کی کیٹگری میں آتی ہے۔ گروپ نےخدشہ ظاہر کیا کے قید کے خراب حالات کے وجہ سے مرسی کی موت ہو سکتی ہے۔ اور وہ سچ ثابت ہوئی۔

ایک دن مرسی کو عدالت لایا گیا جہاں اس پر جاسوسی اور حماس کے رہنماؤں سے خفیہ تعلقات کا مقدمہ چل رہا تھا۔ یہاں اس نے 5 منٹ گفتگو کی لیکن اچانک گر پڑا۔ مرسی کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اس کی موت کی تصدیق کر دی۔ مرسی کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی تھی۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے مرسی کی موت کا زمہ دار السیسی حکومت کو ٹھہرایا۔ اقوام متحدہ سمیت اور ایمنیسٹی انٹرنیشنلسمیت کئی تنظیموں نے مرسی کی موت کی غیر جانب درانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ لیکن سب سے سخت ردِ عمل ترک صدر طیب اردگان کا تھا جس نے مرسی کی موت کو قتل قرار دیا اور ترکی میں اس کی غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی گئی۔

مصر میں They Killed Him کا ہیش ٹیگ بھی چلتا رہا۔ دنیا تو مرسی کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی تھی لیکن مصرحکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کر کے مرسی کی موت کو عام واقع قرار دے کر دبانے کی پوری کوشش کی۔ آپ کو کیا لگتا مرسیکے قتل کا کون زمہ دار ہے اور کیا اس واقع کی تحقیقات ہونی چاہیں؟

Check Also

Az Toronto Maktoob (4)

By Zafar Iqbal Wattoo