1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asifa Ambreen Qazi/
  4. Na Doobne Wala

Na Doobne Wala

نہ ڈوبنے والا

ٹائٹین آبدوز کی تباہی پر مجھے بدقسمت ٹائی ٹینک یاد آ گیا۔ رات میں نے اپنے بچوں کو ٹائٹینک کی کہانی سنائی تو یوں محسوس ہوا کہ میں بھی بحر اوقیانوس کے برفیلے پانی میں کھڑی ٹائٹینک کا ملبہ دیکھ رہی ہوں۔ ٹائی ٹینک کی کہانی ایک ایسی المناک کہانی ہے جس نے ایک صدی سے لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔ یہ ایڈونچر، شوق اور بالآخر تباہی کی کہانی ہے۔ بدقسمت ٹائٹینک کا پہلا سفر ہی آخری تھا۔

سب سے بڑا مسافر بردار Titanic ایک برطانوی لگژری بحری جہاز تھا۔ اسے بننے میں تین سال لگے کیونکہ اسے دنیا کے سب سے بڑے اور پرتعیش جہاز کے طور پر بنایا گیا۔ اس پر 840 کمرے، جیمنازیم، کافی روم، سموکنگ روم، سینماء، کیفے اور دوسری کئی سہولیات تھیں۔ اس جہاز کو شمالی آئرلینڈ میں تیار کیا گیا تھا۔ اس کی مضبوطی دیکھ کر ٹائٹینک نام رکھا گیا۔ جس کا معنی، نہ ڈوبنے والا، ہے۔ اس کو ڈیزائن ہی ایسے کیا گیا کہ ڈوبنے کے امکانات نہیں تھے۔ اس میں اعلیٰ درجے کے واٹر ٹائٹ کمپارٹمنٹس اور جدید ترین ٹیکنالوجی موجود تھی۔

10 اپریل 1912 کو ٹائٹینک اپنے پہلے سفر پر انگلینڈ ​​سے نیو یارک شہر کے لیے روانہ ہوا۔ جہاز میں 2200 سے زیادہ مسافر سوار تھے، جن میں اس وقت کے چند امیر ترین افراد بھی شامل تھے۔ مسافروں میں تاجر، امریکہ میں بہتر زندگی کے خواہاں تارکین وطن اور عملے کے ارکان شامل تھے۔

سفر شروع ہوا۔ سفر کے چار دن بعد 14 اپریل 1912 کو رات تقریباً 11:40 پر ٹائی ٹینک شمالی بحر اوقیانوس میں ایک آئس برگ سے ٹکرا گیا۔ آئس برگ کو اطراف سے چیر دیا، اندر داخل ہونے والا پانی اتنا تیز تھا جیسے سیلاب آگیا ہو۔ عملے نے مسافروں کو لائف بوٹس پر نکالنا شروع کر دیا۔ تاہم، جہاز میں صرف 20 لائف بوٹس اور چار چھوٹی کشتیاں تھیں۔ جو چوبیس سو میں سے صرف 5 سو افراد کو بچا سکتی تھیں۔ ہر طرف افراتفری اور قیامت تھی۔ جس سے انخلاء کا عمل غیر منظم ہوتا گیا۔ لائف بوٹس میں خواتین اور بچوں کو ترجیح دی گئی جبکہ بہت سے مرد پیچھے رہ گئے۔

آہستہ آہستہ جھکنے لگا، باقی مسافروں میں خوف و ہراس پھیل رہا تھا۔ منجمند کر دینے والے پانی کی خوفناک لہریں تھیں اور ہر طرف چیخ و پکار تھی۔ ٹائٹینک کو مکمل ڈوبنے میں 3 گھنٹے لگے۔ 15 اپریل 1912 کو صبح 2 بج کر 20 منٹ پر ٹائی ٹینک ٹوٹ کر بحر اوقیانوس کے برفیلے پانیوں میں ڈوب گیا۔ صرف 750 افراد زندہ بچے جن میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تھے۔ اس سانحے نے 1، 500 سے زیادہ لوگوں کی جانیں لے لیں۔

برسوں سے ٹائی ٹینک کی کہانی کتابوں، فلموں اور دستاویزی فلموں کا موضوع ہے۔ جہاز کا ملبہ 70 سال بعد 1985 میں دریافت ہوا تھا، جو سمندر کے فرش پر 12000 فٹ کی گہرائی میں پڑا تھا۔ ملبے سے بہت سے چیزیں برآمد ہوئیں جو بدقسمت جہاز میں سوار افراد کی زندگیوں کی کہانیاں بیان کرتی تھیں۔

ٹائٹینک اور ٹائٹن کی کہانی فطرت کے سامنے انسانی کوششوں کی نزاکت اور زیادہ اعتماد کی کہانی ہے۔ اب جب بھی ٹائٹینک کا ذکر ہوگا۔ بدقسمت آبدوز ٹائٹین کا بھی نام لیا جائے گا۔ کچھ ابھر کر امر ہوتے ہیں اور کچھ ڈوب کر داستانوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔

Check Also

Aankh Ke Till Mein

By Shaheen Kamal