Mismanagement
مس مینجمنٹ
ہماری ایک کولیگ ہیں جن کو اپنی تعریف سننے کا خبط سوار رہتا ہے اوپر سے وہ گفتگو کی بھی بہت شائق ہیں۔ شاگرد ان کی کمزوری سے واقف ہیں، پھر آج کل کے بچے استادوں کے بھی استاد ہیں۔ سنا ہے جس کو اپنی تعریف سننے کا شوق ہو اسے فتح کرنا آسان ہوتا ہے۔ اب ہوتا کیا ہے ادھر استانی صاحبہ کمرے میں داخل ہوئیں، ادھر سب نے کمر کس لی۔ پہلی آواز آئی "مس سبز رنگ آپ کو کتنا جچتا ہے نہ" اب مس دسیوں مرتبہ دیکھے ہوئے لباس کو دوبارہ سر سے پاؤں تک دیکھتی ہیں اور مزید سننے کے لیے "واقعی؟" کہتی ہیں۔ "جی میڈم، اور آپ کا جوتا تو آج غضب ڈھا رہا ہے؟"
بات پاپوش سے میچنگ اور پھر کنٹراسٹ تک جاتی ہے، کلاک انکشاف کرتا ہے کہ ستائش و پذیرائی کے دوران پندرہ منٹ گزر گئے اب اگلے پندرہ منٹ میں ٹیسٹ نہیں ہو سکتا۔ کلاس اپنا مقصد پا لیتی ہے اور استانی "اتنے قلیل وقت میں آئے اور چل دیے" کی تصویر بنی چل دیتی ہیں۔ اگلا پیریڈ لڑکوں کی کلاس میں ہے، تعریف کے وہ ماہر نہیں لیکن باتوں میں لگانا جانتے ہیں۔ ٹیسٹ تحریک آزادی کے متعلق ہے لیکن بجے نبض شناس ہیں جانتے ہیں کہ استانی صاحبہ خان صاحب کی پکی سپورٹر ہیں۔
ادھر مس نے مارکر اٹھایا ادھر بچے نے سوال اٹھا دیا۔ "مس عمران خان آخر اتنے یوٹرن کیوں لیتے ہیں؟" ایک ہی جملہ دل چیر جاتا ہے، مارکر بند کیا، لیکچر ویکچر بھول کے عمران خان کی عظمت کے گن گانے لگ گئیں۔ بچوں نے پاؤں پسار لیے کہ آج کا دن بھی ٹل گیا، پتا تب چلا کہ جب وہ قرضوں اور آئی ایم ایف کے مدعے پہ پہنچیں اور اگلے پیریڈ کی گھنٹی بج گئی۔ کلاس ایک بار پھر بچ گئی۔ اب کی بار انہوں نے تہیہ کر لیا کہ ایسی باتوں میں نہیں آنا، جب پہلی آواز آئے گی "مس آج تو آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں" تو دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے توجہ دیے بنا اپنا کام شروع کر دوں گی۔
اب جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئیں، کافی دیر خاموشی رہی۔ طویل خاموشی ایک دو باتیں بھی ہوئیں تو موسم پہ۔ سارا پلان چوپٹ ہوگیا تھا، آخر پریشان ہو کر پوچھ ڈالا، کیا میں آج اچھی نہیں لگ رہی؟ پچھلے ڈیسک سے کسی نے اثبات میں سر ہلا دیا، اگلا پورا پیریڈ اس بات کی پڑتال کرتے گزر گیا کہ کیوں اچھی نہیں لگ رہی؟ دنیا ادھر کی ادھر تو نہ ہوئی لیکن مس ہوگئیں۔