Hum Modern To Ho Gaye Pata Nahi Muhazib Kab Bane Ge
ہم ماڈرن تو ہوگئے پتا نہیں مہذب کب بنیں گے
ہماری کالونی میں کوڑا اٹھانے والا بچہ اپنے باپ کے ساتھ بلاناغہ آتا ہے۔ عمر محض گیارہ سال ہے۔ لیکن باپ ٹانگ کی معذوری کی وجہ سے اسے ساتھ لاتا ہے، یہ ہر گھر سے کوڑا دان اٹھا کر ریڑھی پہ ڈالتا رہتا ہے اور باپ ریڑھی آگے بڑھاتا رہتا ہے۔ سوائے پانی کے میں نے اسے کسی گھر سے کچھ مانگتے نہیں دیکھا، پانی کے لیے بھی پلاسٹک کی بوتل اس کے پاس ہوتی ہے۔ ایک دن وہ تین دن کی چھٹی کے بعد آیا اور دائیں ہاتھ پہ پٹی بندھی تھی۔
پوچھا یہ کیا ہوا؟ بتانے لگا کہ ریڑھی پہ کوڑے سے پلاسٹک کی چھوٹی موٹی چیزیں چن کر اکٹھی کرتا ہوں، کسی نے کوڑے میں ٹوٹا ہوا گلاس پھینک دیا تھا، میں الگ کر رہا تھا، تو ایک ٹکڑا ہتھیلی میں کھب گیا۔ بہت خون نکلا اور ٹانکے بھی لگے " وہ ہاتھ آگے کرکے ساری کہانی بتا رہا تھا۔ مجھے اس کی تکلیف کا اندازہ تھا، پتا نہیں مرہم پٹی کہاں سے کروائی، لیکن اب کچھ دن کے لیے اسے بائیں ہاتھ سے ہی کام کرنا تھا اور ایک ہاتھ سے کام کرنا کس قدر مشکل ہے۔
وہ آگے بڑھا اور کوڑا اٹھا کر چلا گیا۔ میں سوچ رہی تھی ہم اپنے دائرہ کار میں تہذیب یافتہ کہلانے والے ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا آخر خیال کیوں نہیں رکھتے۔ خواتین ٹوٹے برتن کی کرچیاں، کیل وغیرہ اور مرد استعمال شدہ بلیڈ کوڑا دان میں یونہی پھینکنے کی بجائے کسی شاپر یا اخبار میں لپیٹ پھینکیں تو کتنا وقت لگتا ہے؟ پتا نہیں یہ کرچیاں اور بلیڈ کتنے محنت کشوں کے ہاتھ زخمی کرتے ہیں۔ ہمارے لیے کچرا ہوتا ہے، مگر کسی کے لیے اس کچرے میں بھی رزق ہوتا ہے۔
جانور بھی تو اسی کچرے سے کھانا تلاشتے ہیں، جانے کتنے بے زبانوں کے منہ پر زخم اجاتے ہونگے۔ میں نے کوڑے کے ڈھیر سے کئی بچوں کو پلاسٹک اور لوہے کی بیکار چیزیں چنتے دیکھا ہے، کئی بچے اسی کوڑے سے کھانا نکل کر کھاتے ہیں۔ میں نے کوڑے کے ڈھیر پر خواتین کے سینیٹری پیڈز اور بچوں کے گندے ڈائپرز بھی کھلے پڑے دیکھے ہیں، وہ تمام ذاتی استعمال کی چیزیں جو مرد و زن کو اپنے ہاتھوں سے ڈسپوز آف کرنی چاہیں، وہ کھلے عام کوڑے میں پھینک دی جاتی ہیں۔
اس ملک میں غربت اتنی ہے کہ کئی گھرانے کوڑے کے ڈھیر پر پلتے اور وہیں سے رزق تلاشتے ہیں۔ لیکن ہمیں کچرا پھینکنے کی بھی تمیز نہیں۔ کم ازکم ان معصوم محنت کشوں کا خیال کرنا چاہیے، جو اس کچرے کی ایک ایک چیز کو ہاتھوں سے الگ کرتے ہیں، کتنوں کے ہاتھ زخمی ہو جاتے ہیں اور کتنوں کے ناپاک۔