Hamara Private Taleemi System
ہمارا پرائیویٹ تعلیمی سسٹم
یہ سچ ہے ہمارا پرائیویٹ تعلیمی سسٹم فیسوں کے معاملے میں بہت ظالم ہے، نجی تعلیمی اداروں کے قیام سے جہاں تعلیم عام ہوئی وہاں حکومت بالکل ہی ہاتھ جھاڑ کر پیچھے ہٹ گئی، وہاں مہنگے پرائیویٹ سکول جونکوں کی طرح والدین کا خون چوسنے لگے۔ کل سے ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں دو بچے سکول سے باہر سڑک پر بیٹھے ہیں اور بتا رہے ہیں فیس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے سکول والوں نے اندر داخل نہیں ہونے دیا۔ ویڈیو میں کتنی حقیقت ہے یہ خدا بہتر جانتا ہے لیکن پرائیویٹ سیکٹر میں کافی عرصے سے پڑھا رہی ہوں کچھ باتیں عرض کر دوں۔
پہلی بات یہ کہ والدین کے اگر مالی حالات خراب ہو جائیں اور انہیں معلوم ہو کہ اب وہ بڑے پرائیویٹ سکولز کی فیس ادا نہیں کر سکیں گے تو ایسی کیا مجبوری ہے کہ بچوں کو پھر بھی مہنگے سکول میں بھیج کر خود کو مقروض بنا دیا جائے؟ کیا برانڈڈ سکول ہی بچوں کے روشن مستبقل کی ضمانت ہیں؟ والدین نے کبھی ان سکولوں میں کامیابی اور ناکامی کا صحیح تناسب معلوم کیا؟ حقیقت یہ ہے کہ صرف ماہانہ ایکٹیویٹیز کی بنیاد پر وہ ہزاروں روپے اضافی وصول کرتے ہیں، ورنہ اب پورے پاکستان میں پرائمری تک نصاب یکساں ہے یا کم از کم آکسفورڈ کا نصاب ہر نجی سکول میں ہے۔
دوسری طرف سکول سسٹم اس قدر بے رحمانہ ہے کہ ایڈوانس فیس وصول کرنے کے باوجود اگر کسی مہینے بچے کی فیس وصول نہ ہو تو کلاس سے باہر نکال دیا جاتا ہے، مجھے شہر کے ایک بڑے کیمبرج سسٹم میں پڑھاتے ہوئے عرصہ ہو گیا، فیس کی عدم ادائیگی پر طالب علم کو ایگزامینیشن ہال سے اٹھا دیا جاتا ہے، اور وہ گھںٹوں باہر بینچ پر بیٹھ کر اپنے والدین کو کی کئی گئی کال کے جواب کا انتظار کرتا ہے۔
صرف اس بچے کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگائیے، اس کی عزت نفس چند روپوں کی خاطر روند دی جاتی ہے۔ میں نے خود بچوں کو کلاس سے باہر نکالنے پر روتے ہوئے دیکھا ہے، میں نے خود ایک چٹ پر لکھا نام وصول ہونے پر طالب علموں کو دوران لیکچر بیگ سمیت کلاس سے باہر جانے کو کہا ہے۔ بطور ماں مجھے معلوم ہے اس دوران کیا کیفیت ہوتی ہے، سو بار اس بچے کی جگہ اپنا بچہ رکھ کر سوچتی ہوں۔ لیکن اس بچے کے ساتھ زیادتی میں والدین اور تعلیمی ادارہ دونوں ملوث ہیں۔
مہنگے سکولوں کو گالیاں دینے کی بجائے کم فیس والے سکولوں کو ترجیح دیں، کون سا برانڈڈ سکول ہے جو آپ کا بچہ زبردستی داخل کرتا ہے؟ بروقت فیس نہ لیں تو سکول کے اخراجات کیسے چلیں۔ اس لیے دس ہزار کا برانڈڈ سوٹ قرض لے کر پہننے کی بجائے دو ہزار کا مناسب سا لے لیجیے کہ مقصد تن ڈھانپنا ہے نمائش کرنا نہیں۔
والدین صرف بھیڑ چال دیکھ کر اپنے گھر کی نصف آمدنی برانڈڈ سکولوں کو دینے پر تلے ہیں، اور نجی ادارے یہ سمجھتے ہوئے کہ والدین کے پاس پیسوں کی بہت ریل پیل ہے مسلسل بوجھ بڑھائے جاتے ہیں۔ اگر آپ کے مالی حالات کمزور ہیں تو بچوں کو مہنگے سکولوں میں مت پڑھائیے، اگر افورڈ نہیں کر سکتے تو اپنی چادر کے اندر ہی پاوں پسارئیے۔
بطور ایک ٹیچر میں آپ کو یہ بات بتا رہی ہوں کہ شاندار بلڈنگ، برانڈڈ نام، آکسفرڈ کا نصاب، مہنگا یونیفارم اور اکیڈمی کی ٹیوشن آپ کے بچے کی کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔ میں لاکھوں میں فیس دینے والے بچوں کو بھی ایسے سسٹم میں ناکام ہوتے دیکھتی ہوں۔ والدین کی توجہ، بچوں پر بھرپور انفرادی محنت ایک بچے کا مسقبل سنوار سکتی ہے۔