Aab o Dana
آب و دانہ
موجودہ حالات میں عورت کا بھی معاشی طور پر مستحکم اور خود کفیل ہونا ناگزیر ہوتا جا رہا ہے، 2023 کو شدید معاشی بحران کا سال قرار دیا جا چکا ہے اور یہ لہر ابھی سے دنیا بھر میں جاری ہو چکی ہے۔ جس معاشی بحران میں بڑے بڑوں کے کس بل نکل جائیں گے وہاں متوسط طبقے کے سروائیول کا سوال تلوار بن کے سر پہ کھڑا ہے۔ جو گھرانے فرد واحد کی کمائی سے چل رہے ہیں وہ سب سے پہلے اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔
اس سارے منظر نامے میں اگر مقروض ہونے سے بچنا ہے تو خواتین کو گھر کے مردوں کا ہاتھ بٹانا ہوگا، خاتون کی حیثیت بیوی کی ہے، بیٹی یا بہن کی ہو آمدن کے ذرائع ڈھونڈنے ہوں گے۔ کورونا کے دنوں میں، ورک فرام ہوم، نے گھر سے کام کرنے کے عمل کو بہت تقویت دی ہے۔ جاب تلاش کرنے میں دقت ہے تو گھر بیٹھ کر کمانا شروع کیجیے، کم از کم اتنی آمدن ضرور ہو کہ آپ اپنی ذات کا خرچ تو اٹھا ہی لیں۔ تعلیم کم ہے تو کوئی ہنر سیکھیں، کوکنگ، سلائی، کرافٹنگ، ڈیزائننگ، آن لائن سیلنگ، پارلر کا کورس وغیرہ۔
تعلیم اچھی ہے تو ٹیچنگ کی طرف آئیں، ٹیوشن اکیڈمی شروع کریں، فری لانسنگ کی طرف آئیں، یا نیا آئیڈیا تلاش کریں، اپنی اہلیت کو مدنظر رکھ کر ملازمت کے لیے تگ و دو کریں۔ اگر یہ سب بھی ممکن نہیں ہے تو اخراجات پر کنٹرول کیجیے۔ بجٹ کو ہر ماہ نئے سرے سے ترتیب دینا پڑے گا۔
اس وقت سب سے زیادہ ذہنی تناؤ کا شکار گھر کا کفیل یعنی مرد ہے۔ اب آپ کو خود کفیل بننا ہوگا۔ اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں اور آمدن کا وہی محدود ذریعہ۔ شریف مرد کبھی بھی گھر کی عورت سے نہیں کہتا کہ میرا ہاتھ بٹاؤ یا تم بھی کمانے میں مدد کرو، لیکن ایک سمجھدار عورت حالات کی کروٹ سمجھ لیتی ہے اور خود آگے بڑھ کر مرد کا ساتھ دیتی ہے۔
دوسری طرف اگر میری کچھ بہنیں یا آپ کے خاندان کی خواتین اپنے پاؤں پہ کھڑے ہونے کا سفر شروع کر چکی ہیں تو حیران ہونے اور سوال کرنے کی بجائے ان کا ساتھ دیجیے۔ بازو بن جائیے۔ معاشی بحران سے بچنا ہے تو ابھی سے سنبھلنا ہوگا، اور گھر کو ایک عورت سے بہتر کون سنبھال سکتا ہے؟ کانچ کے ہی سہی پر تو ہیں، ذوق پرواز تو ہے۔
آنے والے کل کے لیے۔
۔ Sky is the Limit