Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Khalid
  4. Istaqbal e Ramzan

Istaqbal e Ramzan

استقبال رمضان

ماہِ رمضان بہت ہی برکتوں والا مہینہ ہے، اس ماہِ مبارک میں اللہ کی رحمت گویا ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی مانند ہو جاتی ہے اور ہر نیک عمل کا اجر ستر گناہ بڑھ کر ملتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان کسی بھی مشق سے بغیر منصوبہ بندی اور ذہنی تیاری کے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ انسان کی اسی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ اس کے رسول اکرم ﷺ نے بھی شعبان کے آخری روز ایک خطبہ ارشاد فرمایا تھا جس نے رمضان کے فضائل کے ساتھ اس کی خصوصیات کا بھی ذکر فرمایا اور اس سے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی تلقین بھی کی، حضرت سلمان فارسی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ماہِ شعبان کے آخری دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک اہم خطبہ دیا اور اس میں آپ ﷺ نے فرمایا:"اے لوگو!تم پرایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے جس کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے "۔ قرآن پاک میں بھی اس پاک مہینے کے روزے کی فرضیت کا اعلان کیا گیا ہے" تو جو کوئی بھی تم میں سے اس مہینے کو پائے اس پر لازم ہے کہ وہ روزے رکھے "۔ اس مہینے میں روزہ رکھنا تو فرض ہے جب کہ رات کا قیام نفل ہونے کے باوجود بہت ہی اجر و ثواب کا باعث ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضااور اس کا قرب حاصل کرنے کےلئے کوئی غیرفرض عبادت (یعنی سنت یا نفل)ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستر فرضوں کے برابر ملے گا۔ اس ماہ کی خصوصیات کا ذکر کر تے ہوئے رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا"یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے"۔ یہ مہینہ واقعی صبر کا ہے اس لیے کہ اس میں جائزحلال اور طیب چیزوں سے بھی انسان صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک رُکتا ہے۔ یہ روکنا دراصل صبر اور تقویٰ کی تربیت ہے۔

انسان کی نفسانی خواہشات میں حددو کو پھلانگنے کا رحجان پایا جاتاہے جب کہ تقویٰ یہ ہے کہ انسان سارا سال اپنے آپ کو حرام سے روکے رکھے گناہ سے باز آجائے اورمنکرات سے اجتناب کرے اسی کا نام صبر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی تکلیف یا مصیبت کو خندہ پیشانی سے برداشت کرلینا ہی صبر ہے جب کہ حقیقت میں صبرکا مفہوم بہت جامع اور ہمہ گیر ہے۔ صبر کے تین درجے مقرر کیے ہیں (1)گناہوں سے اپنے آپ کو روکنا(2)اطاعت، بندگی اور دینی فرائض کی ادائی پر کاربد ہونا(3)مشکلات اور سختیوں میں صبر کرنا، خاص طور پر اقامت دین کی جدوجہدکے مراحل میں آنے والی سختیوں کو جھیلنا، برداشت کرنا اور پھر استقامت کا مظاہر ہ کرنا۔ اس اعتبار سے گویا پورادین صبر کی تشر یح میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قر آن پاک میں کئی مقامات پر صبر کو جنت کا ذریعہ قرراردیا گیا ہے۔

اس مبارک مہینے کی دوسری خصوصیات یہ ہے کہ یہ ہم دردری اور غم خواری کا مہینہ ہے، اس ماہ ِ مبارک میں غم گساری اور ہم دردی کے احساسات انسان میں پیدا ہوتے ہیں، غالباً اس کا سبب یہ ہے کہ خوش حال اور کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ جب روزہ رکھتے ہیں تو انہیں کم از کم ان لوگوں کا احساس ضرور ہوتا ہے جو فاقوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ اس ماہِ کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ عام طورپر روزہ رکھنے سے کچھ لوگ اس لیے بھی کتراتے ہیں کہ سارا دن مشقت نہیں ہو سکے گی تو ہماری کارکردگی پر فرق پڑے گا اور اس طرح ہماری کمائی میں کمی آسکتی ہے۔ اس اند یشے کا ازالہ کر دیا کہ ہر گز نہیں ہے۔ بندہ مومن کو یقین ہونا چاہیے کہ روزے کی وجہ سے اس کے رزق میں کوئی کمی نہیں آئے گی چاہے کارکردگی عام دنوں سے کم بھی ہو جائے۔ آپﷺ نے فرمایا:" جس نے اس میں کسی روزہ دار کو افطار کر ایا تو یہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گابغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے "۔

یہاں ایک لمحے رک کر سوچنا چاہیے کہ ہماری ہم دردی اور غم گساری کے سب سے زیادہ مستحق کون لوگ ہیں؟ اس کا جواب یقینایہ ہے کہ ہماری ہم دردی کے مستحق معاشرے کے لوگ ہیں جنہیں عام دنوں میں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں آتی۔ اگر آپ ان کا روزہ افطارکرائیں تو اس سے معاشرے کے اندر جو بھائی چارے کی فضابنے گی اس کا ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ رسول اکرم ﷺ کا خطبہ جاری تھا کہ حضر ت سلمان فارسی ؓنے گویا درمیان میں یہ سوال پوچھ لیا:"اے اللہ کے رسولﷺ ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا" اس پر آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرادے۔ اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلادے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض کوثر سے ایسا سیراب کرے گا کہ جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔ یہاں یہ پیغام ہے کہ جس کو کچھ میسر نہیں ہے وہ اپنے ساتھ کسی کو پانی دودھ یا لسی کے ایک گلاس میں بھی شریک کر لیتا ہے تو یہ بہت اجر و ثواب کی بات ہے۔ لیکن اگر معاملہ یہ ہو کہ خود اپنے لیے تو پکوان سجے ہوئے ہوں اور دوسروں کی صرف شربت یا لسی کے دوگھونٹ پر افطار کروایا جارہا ہے تو یہ پسند ید ہ عمل نہیں ہے۔ اس حوالے سے اصل بات یہ ہے کہ اس کی عملی تعبیر سامنے آنی چاہیے اور ہمیں اس پر بالفعل عمل بھی کرنا چاہیے۔

رسول اکرم ﷺ نے اس ماہِ کوتین حصوں میں تقسیم فرماتے ہوئے ہر عشرے کی الگ خصوصیات کا ذکر فرمایا:اس ماہِ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت درمیانی حصہ مغفرت اور آخری آتش دوزخ سے آزادی ہے۔ استقبال رمضان کے حوالے سے انتہائی اہم خطبے کے آخری الفاظ یہ ہیں۔ اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف و کمی کر دے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا۔ یہ بھی گویا ہم دردی اور غم گساری کا ایک مظہر ہے کہ اپنے ماتحت لوگوں کی ذمے داریوں میں تخفیف کر دی جائے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ انہیں روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ایک حدیث میں اس کی وجہ بھی بیان کی گئی ہے جو شخص (روزہ رکھ کر) جھوٹی بات بنانا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ محض اپنا کھانا پینا چھو ڑ دے۔ اصل ہی روز ہ وہی ہے جو مکمل آداب اور شرائط کے ساتھ رکھا جائے۔ رمضان واقعی نیکیوں کی برسات کا مہینہ ہے اس مہینے میں اگر ہم صحیح معنوں کی محنت کر کے اپنے نفس کی تربیت کر لیں تو اس کا اور کوئی بدل نہیں ہو سکتا اور اگرہم اس ماہ ِ میں بھی اللہ کی رحمت سمیٹنے اور اپنی بخشش کرانے سے محروم رہ جائیں تو پھر ہم سے بڑا بد نصیب اور کوئی نہیں رہ سکتا۔

در حقیقت رمضان المبارک کے دو متوازی پروگرام ہیں ایک ہے دن کا روزہ اور دوسرا ہے رات کا قیام۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایاجس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور اجر و ثواب کی امید کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے گئے اور جس نے رمضان المبارک کی راتوں میں قیام کیا قرآن سننے اور سنانے کےلئے ایمان او ر اجر و ثواب کی امید کے ساتھ اس کے بھی تما م سابقہ گناہ معاف کر دیے گئے اور کھڑا رہا جو قرآن سننے اور سنانے کے لئے ایمان اور اجر ثواب کی امید کے ساتھ اس کی بھی سابقہ تمام خطائیں بخش دی گئیں۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں فرمایا:روزہ اورقرآن قیامت کے روز بند ے کے حق میں شفاعت کریں گے۔ روز عرض کرے گااے رب میں نے اس شخص کو دن میں کھانے پینے اور خواہشات ِنفس سے روکے رکھا تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما اور قرآن پاک یہ کہے گا کہ اپے پروردگار میں نے اسے رات کے وقت سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا لہذااس کے حق میں میری سفارش قبول فرماچناں چہ روزہ اور قرآن دونوں کی شفاعت بندے کے حق میں قبول کی جائے گی اوراس کے لئے جنت اور مغفرت کا فیصلہ فر مادیا جائے گا۔

Check Also

Janaze

By Zubair Hafeez