Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Arslan Khalid/
  4. Inqilab Ki Naveed

Inqilab Ki Naveed

انقلاب کی نوید

رمضان المبارک اور قرآن کریم کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کو ہدایت دینے اور روشن دلیلیں دینے والا اور حق وباطل میں فیصلہ کرنے والا ہے۔ رمضان المبارک کی آمد اور اس کے روزے زندگی میں ایک انقلابی عمل بر پا کرکے اسے تقوے کی اعلیٰ منازل پر فائز کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ایمان والو! ہم نے تم پر رمضان کے روزے فرض کیے جیسے تم سے پچھلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تمہیں تقویٰ اور پرہیز گاری حاصل ہو۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام اور انوارتجلیات کامنبع و سرچشمہ ہے۔ قرآن ہدایت اور روشنی ہے یہ تو اقوام میں انقلاب برپا کرنے کے لیے نازل کیا گیا تھا، اس پر عمل کرنے والوں کو سارے جہاں پر فضلیت بخشی گئی۔ ہماری سوچ کیوں کہ محدود ہو گئی کہ ہم نے اِسے اتنے معمولی کاموں کے لیے سمجھ لیا اور اتنے پر اکتفا کر لیا کہ بس کسی پریشانی یا موت، میت کے وقت قرآن پڑھوا دیا جائے، آسیب زَدہ یا بیمار پر اس سے ہوا کر دی، بیٹی رخصت کرتے وقت اس کے سر پر سائبان کر دیا جائے، کہیں اپنا کردار داؤ پر لگا ہو تو اپنی ذات بچانے کےلئے یا اپنی سچائی یا جھوٹ کے تصفیے کے لیے، ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے بہ طور قسم اٹھالیا جائے، کیا ہمارا قرآن سے بس اتنا ہی تعلق ہے؟ جب کہ اللہ تعالیٰ واضح طور پر قرآن مجید میں غور کر نے کا حکم فرما رہا ہے کہ تو کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے یا اُن کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔

ایک مقام پر اپنے اس کلام کی عظمت کو بیان فرمایا کہ پہاڑ بھی خوف سے ریزہ ریزہ ہوجاتے، اگر یہ قرآن اس پر نازل ہو جاتا۔ انسان کے قلب کو اللہ تعالیٰ نے قرآن سے مزین فرمایا اور پھر ارشاد فرمایا کہ بے شک ہم نے آسمانوں زمینوں اور پہاڑوں پر اپنی امانت پیش کی، تو وہ اس کے اٹھانے پر آمادہ نہ ہوئے اور اس کے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑ ا زیادی کرنے والا، نادان تھا، ظلم کی تعریف یہ ہے کہ کسی شے کو اس کی جگہ سے ہٹا دینا ظلم ہے۔ آیت میں ظلم بہ معنیٰ قوت برداشت ہے۔ یعنی انسان نے خود کو اس بوجھ اٹھانے کے قابل سمجھا۔ رسول اللہ ﷺ نے رمضان اور قرآن کے باہمی ربط کو اس حدیث پاک میں یوں بیان فرماتے ہیں مفہوم: "کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا روزِقیامت روزنے اور قرآن دونوں بندے کی رب کے حضور وشفاعت کریں گے، روزے عرض کریں گے اے رب العزت میں نے اس دن کے وقت کھانے پینے اور لذت شہوات سے روکے رکھا پس میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما، اور قرآن پاک یہ عرض کرے گا کہ اے رب میں نے اسے رات کی بھر پور نیند سے محروم رکھا کہ راتوں کو اٹھ کر تلاوت کرتا تھا پس میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں کی شفاعت کو قبول فرمائے گا۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں رسول اللہ ﷺ شب بیداری فرماتے یوں تو سال بھر، آٹھوں پہر صبح و شام زندگی کا ہر لمحہ یا د خدا میں بسر ہوتا تھا۔ لیکن رمضان المبارک میں خصوصی اہتمام فرماتے تھے، حدیث پاک میں ہے جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کمر ہمت باند ھ لیتے، شب بیداری فرماتے اور اہل و عیال کو بھی بیدا ر فرماتے۔ اسو ہ رسول ﷺ یہ درس دیتا ہے کہ ہم ان ساعات کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی بخشش کا ساماں کریں غفلت کی دبیز چادر کو اتا ر پھینکیں اور عبادات پر کمر بستہ نہیں ہو سکتے تو کم از کم اَخلاق و کردار تو سنوار سکتے ہیں۔ رمضان المبارک انسانی زندگی میں حقیقی انقلاب کی نوید سناتا ہے۔ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی جس طرح بڑے پیمانے پر ہمارے معمولات و مشغولات میں تبدیلی آتی ہے لوگوں میں نیکی کا جذبہ بڑھ جا تا ہے، مساجد میں نمازیوں کی تعد اد بڑھ جاتی ہے، سڑکوں، بازاروں، محلوں، گلی کوچوں میں ایک مسرت کا سماں بند ھ جاتا ہے۔

اعتکاف کرنے والوں کی بڑی تعداد ہر محلے کی مساجد میں موجود ہوتی ہے خوش آئند بات یہ ہے کہ اکثریت نوجوانوں کی ہے لیکن ضروری یہ ہے کہ اعتکاف کے نفس روح کو سمجھا جائے اور شرعی تقاضوں کے مطابق ادا کیا جائے۔ ان حقائق کی روشنی میں ہونا تو یہ چاہیے کہ رمضان کے بعد بھی رمضان المباک کے روحانی اثرات ہم پر قائم رہیں اور رمضان کے بعد بھی ہمارے شب و روز کے معمولات اور اطوار میں تبدیلی آئے، لیکن نہایت افسو س سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے۔ شوال المکرام کا چاند آتے ہی سارے بندھن کھل جاتے ہیں اور لوگ رمضان کی کیفیات سے باہر نکل آتے ہیں، جبکہ حدیث پاک میں شب عید کے قیام کا اجر بیان ہوا ہے۔ عید الفطر اور عید الا ضحی کی دونو ں راتوں کی فضلیت بیان اور اس میں عبادت کے بے بہاثواب اور اجر کا بتایا گیا ہے۔ کاش ہم ویسے ہو جائیں جیسا قرآن ہمیں دیکھنا اوربنا نا چاہتا ہے۔ ہمارے اعمال سے جھوٹ، دھوکا، بے ایمانی اور خود نمائی فریبی جیسے افعال ِرذیلہ دور ہو جائیں، نیکی کا جذبہ سارے جذبوں پر غالب آجائے، حُسن سلوک ہماری عادت بن جائے امن ومحبت ہمارا شعار بن جائے۔

Check Also

Muhabbat Aur Biyah (1)

By Mojahid Mirza