Pakistan Aik Zarai Mulk
پاکستان ایک زرعی مملكت
کروڑہا رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ملک خداداد پر۔ ایسا ملک جو دنیا کو کھلاتا ہے۔ جی بالکل آپ نے صحیح سنا۔ ایسا ملک جو دنیا کو کھلاتا ہے۔ ملک پاکستان تمام تر معاشی، سیاسی اور سماجی مشکلات کے باوجود ایک زرعی مملكت ہے۔ ایک ایسا زرعی ملک جس کی زمین سے نکلنے والا اناج دنیا کے ایک بڑے حصے کا پیٹ پالتا ہے۔
ملک پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی نعمت سے نوازا ہے، پاکستان کا موسم، پانی کی فراہمی اور زرخیز زمین زراعت کے لیے ہر لحاظ سے مناسب اور بہترین ہے، پاکستان کے کل رقبے 79.6 ملین ایکڑ میں سے 23.7 ملین ایکڑ کا حصہ قابل کاشت اور زرعی ایریا ہے، پاکستان اپنی سرزمین سے پیدا ہونے والی فصلوں سے بہت سا زرمبادلہ حاصل کرتا ہے، پاکستان کی جی ڈی پی (گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ) کا 18.9% تک کا حصہ زراعت سے حاصل ہوتا ہے اور تقریباً آبادی کا تیسرا حصہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر زراعت اور خوراک کے شعبے سے منسلک ہیں۔ پاکستان کے اہم قدرتی وسائل میں زرخیز زمین اور پانی شامل ہیں۔
صوبہ پنجاب اپنے پانچ دریاؤں اور زرخیز زمین کی وجہ سے کپاس، گنے اور گندم کی فصل کی زیادہ تر پیداوار پیدا کرتا ہے اسی طرح سندھ اور پنجاب کی آم کی فصل بھی ملكی معیشت میں اہم حصہ ملاتی ہے۔ پاکستان کے پاس اُبجاؤ اور زرخیز زمین ہے ہماری زمین سونا اگلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جبکہ دیگر بہت سے ممالک میں ایسی زرخیز زمین نہیں ہے۔
پاکستانی سرزمین ایک رپورٹ کے مطابق سالانہ 24.9 ملین میٹرک ٹن گندم پیدا کر رہا ہے جو کہ عالمی درجہ بندی میں ساتویں نمبر پر۔ کپاس 22 لاکھ 15 ہزار میٹرک ٹن۔ مکئی کی فصل 6.3 ملین ٹن پیداوار سالانہ جو عالمی سطح پر بیسویں نمبر پر ہے۔ چنے کی فصل کی پیداوار کیلئے پاکستان تیسرے نمبر پر۔
چاول کی سالانہ پیداوار 10.8 ملین ٹن عالمی سطح پر دسویں نمبر پر۔ گنے کی سالانہ پیداوار 67.1 ملین ٹن دنیا میں پانچویں نمبر پر۔ ماہی گیری سے حاصل ہونے والی خوراک 5 لاکھ 15 ہزار ٹن۔ پیاز 17 لاکھ میٹرک ٹن ساتواں نمبر۔
آم 1.95 ملین میٹرک ٹن اسی طرح سبزی اور گوشت کی پیداوار میں بھی پاکستان ٹاپ 10 ممالک کی فہرست میں آتا ہے۔ دودھ کی پیداوار میں ہم عالمی سطح پر چوتھے نمبر پر سب سے زیادہ پیداوار دے رہے ہیں۔ اسی طرح کینو اور مالٹے کی پیداوار میں ہم چھٹے نمبر پر ہیں، اسی طرح آڑو کی پیداوار میں پاکستان پانچویں اور کھجور کی پیداوار میں چھٹے نمبر پر پیداوار دے رہا ہے۔ خشک میوہ جات اور مسالحہ کی بھی پیداوار ہے لیکن ہمیں باہر سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور پاکستان میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتی ہے۔ کوئی بھی ملک یا جسم اس وقت تک کھڑا نہیں رہ سکتا جب تک کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی طاقتور نہ ہو۔ لیکن باقی شعبہ زندگی کی طرح پاکستان میں زراعت کا شعبہ بھی مسائل اور مشکلات کا شکار ہے۔
پاکستانی زراعت کو سب سے زیادہ مسائل موسمیاتی تبدیلی سے ہو رہے ہیں۔ ہر سال بدلتے موسم، بڑھتے ٹمپریچر، بے وقت بارشیں اور آندھیاں کھڑی فصلوں کو مسلسل نقصان پہنچا رہی ہیں جس کی وجہ سے سالانہ پیداوار میں کافی حد تک کمی آجاتی ہے اس پر ہر سال آنے والے سیلابی ریلے اور زمینی کٹاؤ مزید آفت ڈھا رہے ہیں۔ یہ سیلاب اور زمینی کٹاؤ زمین کی اوپری تہہ کو بہا لے جاتے ہیں جس کی وجہ سے زمین کی زرخیزی کم ہوتی جا رہی ہے اور اس پر مزید یہ کہ زمین پر زیادہ کاشت کاری بھی مسائل پیدا کر رہی ہے۔
دوسرا اہم مسئلہ پانی کی کمی کا ہے۔ کچھ علاقوں میں زیر زمین پانی کو بہت زیادہ مقدار میں پمپ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کا لیول بہت نیچے جا چکا ہے اور دریائی پانی کی رسد میں بھی طلب کی نسبت کمی محسوس کی گئی ہے۔ اس پر پڑوسی ملک بھارت کی جانب سے آبی جارحیت اور پاکستان میں ڈیمز اور پانی محفوظ کرنے کے دیگر ذرائع کی کمی کی وجہ سے لاکھوں گیلن پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ جس سے بہت سا علاقہ خشک یا نیم خشک سالی کے قریب ہے۔
اس کے علاوہ انسیکٹس اور پولینیشن میں مددگار جانداروں کی کمی بھی ایک نماياں پہلو ہے۔ یہ سب تو قدرتی مسائل ہیں اگر ہم انسانی مسائل کی بات کریں تو ہماری زراعت کو بہت سے انسانی مسائل کا بھی سامنا ہے جن میں سب سے اہم زراعت سے وابستہ لوگوں کا کم پڑھا لکھا ہونا اور جدید ٹیکنالوجی اور مشینی زراعت سے دوری ہے، زراعت سے وابستہ افراد زیادہ تر دیہی علاقوں سے ہوتے ہیں جدید ٹیکنالوجی سے لاعلمی اور منڈیوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے زراعت متاثر ہوتی ہے، اس کے علاوہ زراعت ایک مشقت طلب اور سخت کام جس کا معاوضہ بلا شبہ کام کے مقابلے نہ ہونے کے برابر ہے اور اپنی معاشی حالت اور سہولیات کے فقدان کو دیکھتے ہوئے بہت سے افراد شہروں کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے مین پاور بھی کم ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک میں کسانوں کو سبسڈی اور مراعات دی جاتی ہیں اور کم قیمت فصل حاصل کی جاتی جس کے نتیجے میں ترقی پزیر ممالک (جیسے کہ پاکستان) عالمی منڈی میں وہ قیمت حاصل نہیں کر پاتے۔
دیگر مسائل میں عالمی سطح پر غذائی قلت اور پسٹسائیڈز کا بڑھتا ہوا استعمال، طلب میں اضافہ اور رسد میں کمی، ذخیرہ اندوزی اور غیر قانونی سمگلنگ شامل ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان قومی سطح پر زراعت کی ترقی کے لیے اقدامات لے۔ جس میں کسانوں کو بلا سود قرضے، سولر بجلی سے چلنے والے ٹیوب ویل کی فراہمی، کھاد کی فراہمی، ذخیرہ اندوزوں کے خلاف ایکشن، سبسڈی، فیول کی قیمتوں میں کمی، مراعات، تجارتی راستوں اور منڈیوں تک رسائی، لاگت کے حساب سے کسان کو ریٹ کی فراہمی اور زراعت کی جدید ٹیکنالوجی اور اصولوں کی تعلیم و تربیت دے۔
کیونکہ ایک جسم بنا مضبوط ریڑھ کی ہڈی کبھی نہیں اٹھ سکتا۔