Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Anwar Ahmad
  4. Mulki Halaat Aur Doosri Hijrat

Mulki Halaat Aur Doosri Hijrat

ملکی حالات اور دوسری ہجرت

میں نے ہجرت کا بیج کیا بویا
پاؤں جڑ سے اکھڑ گِئے میرے

تاریخ انسانی میں ہجرت کوئی نئی بات نہیں یہ عمل مختلف محرکات کی بنا پر ازل سے ہوتا آیا اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ اس کے عوامل معاشی۔ سماجی۔ سیاسی یا کچھ اور بھی ہوسکتے ہیں۔ ہجرت انسان ہی نہیں پرندے اور مختلف جانور بھی موسم کی تبدیلی اور خوراک کی تلاش کے لیے کرتے ہیں۔ اسی میں ان کی بقا ہے۔ لفظ خانہ بدوش جس کے لغوی معنی "کاندھوں پر گھر" وہ لوگ پانی اور چارے کی تلاش میں صحراؤں میں نقل مکانی کرتے رہتے ہیں اور کہیں ایک جگہ ٹھکانہ نہیں بناتے ہیں۔

دور حاضر میں بہتر روزگار اور معاشی ترقی کے لیے ایشیا، افریقہ اور دوسرے ممالک سے متعدد افراد امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا ہجرت کر رہے ہیں اور اب تو یہ حال ہے کہ شاید امیگرنٹس کی تعداد وہاں کی مقامی آبادی سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ ان ترقی یافتہ ممالک نے نئے آنے والوں کے لیے اپنے قوانین میں ترمیم کی اور انہیں مکمل حقوق دیے اور اب یہ تارکین وطن اپنے نئے وطن کی ترقی و تعمیر میں شاندار کردار ادا کر رہے ہیں۔

تاریخ اسلام میں ہجرت کا عمل دو بار ہوا۔ پہلی بار جب مکہ میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا تو نبی کریمﷺ نے مسلمانوں کی ایک جماعت کو ملک حبشہ ہجرت کر جانے کی اجازت دی جہاں کا بادشاہ اور عوام مسیحی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ مسلمانوں کو دوسری بار مکہ سے یثرب (مدینہ) ہجرت کا حکم ہوا جس کی وجہ بھی کفار مدینہ کی ایذا رسانیاں اور مسلمانوں کا سوشل بائیکاٹ تھا۔ اس ہجرت کو مسلمانوں کی تاریخ میں ایک خاص مقام حاصل ہے اور یہی مسلمانوں کے ہجری سال کی ابتدا ٹھہری۔ ہجرت کا یہ مقدس سفر سنت نبوی بھی ہے اور مسلمانوں کے ایک شاندار دور کا آغاز بھی جس کے اثرات تاریخ پر بہت دور رس ہوئے۔

ایک اور عظیم ہجرت تقسیم ہند کے بعد عمل میں آئی جس میں سرحد کے دونوں طرف کے ایک کروڑ سے زائد افراد اپنی پرانی شناخت، اقدار، بسے بسائے گھر اور عزیز و اقارب کو چھوڑ کر ایک نئی منزل کی طرف چل نکلے۔ نقل مکانی کے اس عمل میں دونوں طرف سے ایک ملین سے زیادہ لوگ خاک و خون میں نہا گئے۔ خواتین کی آبروریزی اور لوٹ مار کے ایسے روح فرسا مناظر دیکھنے میں آئے کہ انسانیت شرما جائے۔ دونوں طرف کے ادیبوں اور شاعروں نے اس پر بہت لکھا اور اس انسانی المیہ پر آج بھی سرحد کے دونوں طرف متعدد آنکھیں اشکبار ہیں۔

تقسیم ہند کے بعد انتقال آبادی کے اثرات ہر سطح پر ہوئے سیاست کے علاوہ سماجی اور معاشرتی سطح پر بہت سے خاندان جو اپنے سابقہ وطن میں خوش حال اور قابل عزت جانے جاتے تھے گمنامی اور عسرت کا شکار ہوئے وہیں بہت سوں نے راتوں رات پہچان بدل کر اپنے جسم پر نئی کینچلی چڑھا لی۔ جھوٹے کلیم داخل کیئے اور زمین و جائیداد کے مالک بن کر "باعزت" بن گئے۔ شاید ایسی ہی صورتحال پر کسی نے کیا خوب کہا۔

کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے
ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے

قیام پاکستان کے بعد میرے والدین بھی بہت سے دوسرے مہاجرین کی طرح پاکستان کا خواب آنکھوں میں سجائے اپنی پہچان اور اپنی شناخت مٹا کر ایک انجانی راہ پر چل نکلے اور نئی پہچان "پاکستانی اور صرف پاکستانی" ہونے کی جستجو میں کھوکھراپار بارڈر سے سفر کی صعوبتیں اٹھاتے پاکستان کی سرزمین پر سجدہ ریز ہوئے۔ والد مرحوم بتاتے تھے جب وہ کراچی اسٹیشن پر اترے تو ان کے ساتھ والدہ اور کمسن بچے تھے۔ جیب میں صرف ایک سو دس روپے ان کی کل پونجی تھی۔ اسٹیشن پر کوئی انہیں لینے کے لیے موجود نہیں تھا اور نہ ہی انہیں معلوم تھا کہ جانا کہاں ہے۔ نیا ملک۔ اجنبی لوگ اور منزل نامعلوم۔ جیسے تیسے اسی کسمپرسی کے عالم میں صفر سے نئی زندگی کا آغاز کیا۔ تعلیم یافتہ تھے لہذا جلد ہی ایک برٹش کمپنی میں ملازمت مل گئی اور نیا سفر شروع ہوگیا۔

والد مرحوم اصولوں کے پابند اور سیدھے سچے انسان تھے۔ میں نے انہیں کبھی مصلحتاً بھی دروغ گوئی یا منافقت کرتے نہیں پایا۔ وہ انتہائی خوددار اور پرانی وضع قطع کے دیندار شخص تھے ہمیشہ سیدھی سچی بات کرتے شاید یہی وجہ تھی کہ اکثر عزیز و اقارب سے بھی کٹے رہتے۔ ابا نے اپنی محنت اور دیانتداری سے بہت اچھی زندگی گزاری۔ ایوب خان کے الیکشن میں جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر بی ڈی ممبر بھی منتخب ہوئے۔ وہ آئی ایل او (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) کے ممبر بھی تھے انہوں نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا اور کبھی کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے۔ والد مرحوم کبھی بچت کے قائل نہیں رہے خوب کمایا اور خرچ کیا۔ ہم سب کو اچھے سے اچھا کھلایا وہ دوسروں کو کھلا کر خوش ہوتے تھے۔ ہم چار بھائی اور تین بہنیں تھے۔ ابا کی زندگی ہی میں بیٹے اور بیٹیوں کی شادیاں ہو چکی تھیں۔ انہوں نے پوتوں اور نواسوں کے لاڈ بھی اٹھائے اور ایک بھرپور زندگی گزار کر رخصت ہوئے۔

ہم بھائیوں میں سب سے بڑے آفاق احمد صحافی تھے وہ حریت، مارننگ نیوز، جنگ گروپ اور بزنس ریکارڈر سے منسلک رہے۔ وہ ریڈیو کراچی سے صدا کاری بھی کرتے رہے اسٹوڈیو نمبر نو کے متعدد کھیلوں میں شامل رہے۔ دوسرے نمبر پر اقبال فیصل آرٹسٹ تھے۔ وہ اسٹیٹ بینک کے آرٹ و گرافک کے شعبے میں تھے۔ وہیں انہیں عظیم مصور صادقین صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جس کے سبب ان کی خطاطی اور پینٹنگ کے فن کو جلا ملی۔ جاوید بھائی مجھ سے بڑے تھے۔ وہ بھائی ہی نہیں میرے دوست بھی تھے ان کے جانے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں نے ایک شفیق بھائی ہی نہیں ایک پر اعتماد دوست بھی کھو دیا۔

میں بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور ہمیشہ ہی سے کچھ بڑا سوچتا تھا۔ والد مرحوم اکثر میری باتیں سن کر مجھے شیخ چلی سے تشبیہ دیا کرتے تھے اور میرے لیے دعائیں بھی کرتے۔ بہت سے خواب میری آنکھوں میں بسے تھے جن کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے میں نے سخت جدوجہد کی۔ کئی ملازمتیں کیں اور چھوڑ دیں کیونکہ مجھے وہاں وہ نظر نہیں آتا تھا جہاں کے میں نے خواب دیکھے تھے۔ اسی دوران قومی ایر لائن میں مڈل مینجمنٹ کی ایک پوزیشن کا اشتہار دیکھا، پرکشش جاب تھی درخواست دے دی۔ مقابلہ بہت سخت تھا میں مختلف مراحل سے گزرتا ہوا فائنل انٹرویو تک پہنچ گیا لیکن محض اس بناء پر مسترد کر دیا گیا کہ میرا ڈومیسائل سندھ اربن (شہری) کا تھا اور کوٹہ کے حساب سے وہ پوزیشن سندھ رورل (دیہی) کے لیے مخصوص تھی۔ میں ٹوٹ کر رہ گیا اور اس نا انصافی پر رو دیا کہ مجھے صرف اس بنیاد پر نہیں لیا گیا کہ میری جائے پیدائش کسی مخصوص خطے میں نہیں ہوئی تھی۔ اس زیادتی کے باوجود میں نے ہمت نہیں ہاری اور جدوجہد جاری رکھی۔

آخر سنہ بیاسی میں مجھے ایک ملٹی نیشنل آئل کمپنی میں جاب مل گئی جہاں نہ ڈومیسائل درکار تھا اور نہ ہی کسی رنگ و نسل کی قدغن تھی صرف اور صرف کارکردگی اور اہلیت ہی ترقی کی ضمانت تھی۔ میں نے اپنی تمام تر توانائیاں اور محنت صرف کر دیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا۔ مینجمنٹ نے بھی میری کارکردگی کو سراہا اور حوصلہ افزائی کی۔ سنہ دو ہزار میں مجھے سعودی آرامکو کے ایک آف شور ڈرلنگ پروجیکٹ کے لیے منتخب کر لیا اور مجھے

مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ ریجن کا ایچ آر ہیڈ بنا کر بھیج دیا۔ اس ریجن میں مڈل ایسٹ اور نارتھ افریقہ کے ممالک کے علاوہ پاکستان، بھارت اور فلپائن بھی شامل تھے۔ ذمہ داری بھی اسی لحاظ سے بڑی تھی اور توقعات بھی اسی قدر۔ میں شکر گزار ہوں اپنے رب کا کہ مجھے اس نے سرخرو کیا۔ دس برس سعودی عرب میں گزارے اور سنہ دو ہزار دس میں میں نے ایک شاندار کیریئر کو خیر باد کہا اور قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر گھر آ گیا اور اس کے ساتھ ہی آئل کمپنی میں میرا تقریباً تیس برس کا انتہائی شاندار کیریئر بھی اختتام پذیر ہوا۔ دوران ملازمت مجھے دنیا دیکھنے اور مختلف قومیتوں سے ملنے اور سیکھنے کا موقع ملا اس کے علاوہ کمپنی نے میری شخصیت کی تعمیر اور نکھار میں اہم کردار ادا کیا بلا تفریق رنگ و نسل اور قومیت صرف اور صرف کارکردگی کی بنیاد پر اس مقام تک پہنچا دیا جس کے میں خواب دیکھا کرتا تھا۔

دوران ملازمت کئی مرتبہ مجھے مینجمنٹ نے کمپنی کے ہیڈ آفس ہیوسٹن میں پوسٹنگ کی پیشکش بھی کی۔ مجھے اور میرے اہل خانہ کو امریکی ویزا اور دوسری تمام سہولیات کی پرکشش آفر تھی جو کسی کے لیے بھی ایک خواب ہو سکتا تھا۔ لیکن میں نے بوجوہ معذرت کرلی کیونکہ مجھے اپنے ہی وطن میں اپنے لوگوں کے ساتھ رہنے کی خواہش تھی۔ دوران ملازمت میں نے وہ سب کچھ بہت قلیل عرصے میں حاصل کر لیا جس کے لیے لوگ ایک عمر لگا دیتے ہیں۔ میری اس کامیابی میں نہ صرف میری محنت بلکہ میرے والدین کی خصوصی دعائیں بھی شامل تھیں جن کے بغیر سب لاحاصل ہوتا۔

یوں تو میں ملازمت کے سلسلے میں ملک سے باہر بھی رہا لیکن میں نے کبھی باہر مستقل سیٹل ہونے کا نہیں سوچا اور اپنے بچوں کو پاکستان ہی میں تعلیم دلوائی جبکہ میرے پاس مواقع تھے کہ ان کو تعلیم کے لیے بیرون ملک بھجوا دیتا یا بچوں کو اپنی ہی کمپنی میں مینجمنٹ ٹرینی پروگرام میں بھیج دیتا جو ایک تابناک مستقبل کی ضمانت ہوتا ہے۔ آئل کمپنی میں جاب ملنا آسان نہیں لیکن میں اس پوزیشن میں تھا کہ بآسانی ان کو ایڈجسٹ کر لیتا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ مجھ سے میرے کولیگ اکثر کہتے بھی تھے کہ آپ سب کو اپائنمنٹ کرتے ہیں اپنے بچوں کو اس لائن میں کیوں نہیں لاتے اور میں ہنس کر ٹال دیتا۔ میرا یہ فیصلہ اس وقت تو غیر مناسب بلکہ کسی حد تک غیر دانشمندانہ لگتا تھا لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے بچے بغیر جدوجہد کئیے کچھ حاصل کر لیں اور انہیں ہمیشہ یہی سننے کو ملے کہ باپ نے سفارش اور اپنے اثر رسوخ سے اس مقام تک پہنچا دیا۔

مجھے خوشی ہے کہ میرے بچے اپنی جدوجہد اور محنت کے ذریعے کسی مقام تک پہنچے جس میں نہ تو کسی کی سفارش تھی اور نہ ہی میرا کوئی اثر و رسوخ۔

بڑے صاحبزادے نے آئی بی اے کراچی سے ماسٹرز کیا۔ پاکستان میں کئی ملازمتیں کیں اور مزید بہتری کی تلاش میں لگے رہے۔ آخر ایک ملٹی نیشنل فنانس کمپنی نے انہیں ملازمت کی آفر کی اور سعودی عرب ٹرانسفر کر دیا کچھ عرصے بعد اسی کمپنی نے انہیں کویت بھیج دیا اور پھر وہیں سے بیٹے کو فیملی کے ساتھ نیویارک ہیڈ آفس پوسٹ کر دیا۔ اس طرح وہ امریکہ سدھارے۔ بیٹی کی شادی ہوگئی اور اس کے خاوند انہیں لے کر امریکہ چلے گئے جس میں میرا کوئی دخل نہیں تھا۔

منجھلے صاحبزادے نے کراچی ہی سے ایم بی بی ایس کیا انہوں نے شہر کے مختلف ہسپتال میں کام کیا اور ساتھ ہی USMLE کے امتحانات کی تیاری بھی کرتے رہے اور کامیاب ہوئے جس کے بعد انہیں امریکہ میں ایک میڈیکل یونیورسٹی سے ریزیڈنسی کی پیشکش ہوئی۔ وہ چلے گئے۔ تین سال صبر آزما اور انتہائی محنت کے بعد ماشاءاللہ ایم ڈی کی سند مل گئی۔ میری خواہش تھی کہ وہ اسپیشلائز کریں۔ انہوں نے وہ کر دکھایا اور آج امریکہ میں کینسر اسپیشلسٹ (انکولوجسٹ) ہیں۔

سب سے چھوٹے بیٹے نے بھی آئی بی اے کراچی سے گریجویشن کی۔ اس کے بعد انہوں نے سی ایف اے بھی کر لیا۔ وہ کچھ عرصہ یونی لیور کراچی میں رہے پھر سعودی عرب کے ایک بڑے بزنس گروپ نے انہیں ریاض میں ایک بہت اچھی پوزیشن کے لیے منتخب کر لیا۔ دو سال وہ سعودی عرب میں رہے اسی دوران انہیں امریکہ کی ایک مشہور یونیورسٹی میں اسکالر شپ مل گئی جہاں سے انہوں نے فنانس میں ایم بی اے کیا۔ ابھی وہ آخری سمیسٹر ہی میں تھے کہ ایک مشہور زمانہ کمپنی نے انہیں ملازمت کی پیشکش کی اور اب وہ کئی برس سے سلیکون ویلی میں کام کر رہے ہیں۔

اپنے بچوں کی جدوجہد کا ذکر میں نے خدانخواستہ کسی ستائش یا خود نمائی کے لیے نہیں کیا بلکہ صرف یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ قدرت کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں بعض اوقات ہمارے نہ چاہنے کے باوجود ہوتا وہی ہے جو مقدر میں ہو۔

در حقیقت میں نے اپنے بیٹوں اور اکلوتی بیٹی کو امریکہ یا کسی اور ملک بھیجنے کی نہ تو کبھی تمنا کی تھی اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی بھی طرح ان کی معاونت کی لیکن یہ ضرور ہے کہ میں کبھی ان کے راستے میں بھی نہیں آیا اور بچوں کو ان کی مرضی کے پروفیشن چننے کی پوری آزادی دی۔

یہ تو روئیداد تھی میری اور میرے بچوں کی کس طرح وہ بیرون ملک منتقل ہوئے۔ چلیں وہ تو قانونی طریقوں سے بغیر کسی جبر کے "ہجرت" کر گئے۔

لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ عام طور سے تیسری دنیا کے نوجوان اور خاص طور پر پاکستانی نوجوان اپنے حالات اور معاشی نا انصافیوں کے باعث بیرون ملک روزگار اور بہتر زندگی کی تلاش میں کسی بھی طرح اپنے وطن سے نکل جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر جائز اور قانونی طریقے سے ایسا ممکن نہیں تو وہ بیچارے اپنے چھوٹے موٹے اثاثے فروخت کرکے تو کبھی اپنی جان جوکھم میں ڈال کر اور ایجنٹس کو بھاری رقم دے کر غیر قانونی طریقوں سے کنٹینرز میں چھپ کر یا غیر محفوظ کشتیوں میں سوار ہو کر یورپی ممالک کے خطرناک سفر پر نکل جاتے ہیں۔ راستے کی صعوبتیں اٹھاتے اور جان لیوا خطرات کا سامنا کرتے ہیں کہ کسی طرح یورپ یا کسی خلیجی ریاست پہنچ جائیں اس کوشش میں اکثر جان سے بھی جاتے ہیں اور اگر کسی طرح کچھ خوش نصیب ان ممالک میں پہنچ بھی جائیں تو پولیس سے چھپے پھرتے ہیں اور انتہائی تکلیف دہ ماحول میں رہتے ہیں۔ جبکہ یورپ پہنچ جانے والے کبھی سیاسی یا مذہبی پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لیے کبھی وہ خود کو گے (Gay) ظاہر کرتے ہیں اور کبھی تبدیلی مذہب میں پناہ لیتے ہیں اور اگر کسی طرح پناہ مل بھی جائے تو وہ بیچارے دوبارہ اپنے ملک میں نہ تو واپس آ سکتے ہیں اور نہ ہی کبھی اپنے پیاروں سے مل پاتے ہیں۔ پنجاب اور کے پی میں یہ رجحان زیادہ عام ہے۔ اکثر بارسوخ اور سیاسی افراد اپنے ایجنٹوں کے ذریعے لاکھوں روپے کے عوض ان نوجوانوں کو بیرون ملک کے سنہری خواب دکھا کر ڈنکی سے ایک ایسے سفر پر بھیج دیتے ہیں جہاں سے واپسی شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ یہ گھناؤنا کاروبار مقامی انتظامیہ۔ پولیس اور امیگریشن کے حکام ملوث ہوئے بغیر ممکن ہی نہیں یہ مافیا اتنا طاقتور کیسے ہو سکتا ہے کہ ان پر ہاتھ ڈالنا ممکن نہ ہو۔ اس کے علاوہ ملکی قوانین بھی اس انسانی اسمگلنگ پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

ریاست اپنے شہریوں کے لیے ماں کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کا فرض ہے کہ اپنی بساط کے مطابق اپنے بچوں کی جان مال اور عزت آبرو کی حفاظت کرے اور انہیں بنیادی سہولتیں بہم پہنچائے۔

حب الوطنی کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ اگر اپنے پی وطن میں جان و مال، عزت آبرو محفوظ نہ ہو اور نہ ہی شہریوں کو ان کی اہلیت کے مطابق روزگار ملے اور وقت پڑنے پر مناسب طبی امداد بھی میسر نہ ہو تو محض حب الوطنی کی بنیاد پر کوئی کب تک روز کی بنیاد پر اپنی عزت نفس کا سودا کرتا رہے گا۔ جب کسی کی ساری جدوجہد لاحاصل ہو چکی ہو تو اس کے پاس پھر کوئی جواز باقی نہیں بچتا کہ وہ نقل مکانی پر مجبور نا ہو جائے۔

کچھ خوش نصیب ہوتے ہیں جو اپنی قابلیت کی بنیاد پر یا کسی اسپانسرشپ اسکیم کے تحت آسانی سے باہر چلے جاتے ہیں لیکن بیچارے وہ جن کو یہ سب میسر نہیں اور ان کے کاندھوں پر گھر کی ذمہ داریاں بھی ہیں اور وسائل محدود تو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ خود کو صعوبتوں اور پریشانیوں میں ڈال کر گھر کے اخراجات پورے کرنے کی خاطر گھر سے نکل جاتے ہیں۔ ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا یقیناً آسان نہیں ہوتا ہوگا لیکن مجبوریاں اور ضرورتیں انسان کو وہ سب کچھ کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔

یوں تو پورے ملک میں معاشی۔ سماجی اور معاشرتی استحصال عام ہے لیکن کراچی میں یہ صورتحال مزید گمبھیر نظر آتی ہے۔ کراچی جہاں خواندگی کا تناسب سب سے زیادہ ہے لیکن صوبہ میں رائج کوٹہ سسٹم نے آبادی کے ایک مخصوص طبقے کے لیے ان پر سرکاری اور نیم سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ ذرا سوچیئے اس نوجوان کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی جب کراچی کا ایک تعلیم یافتہ نوجوان جو کسی ملازمت کے لیے علمی معیار پر پورا بھی اترتا ہو لیکن اشتہار میں لکھا دیکھتا ہے کہ "کراچی ڈومیسائل رکھنے والے زحمت نہ کریں"۔ اس کی حب الوطنی کا لیول کیا ہوگا۔ جب وہ دیکھے گا کہ کوئی دوسرا جو قابلیت اور استعداد کے لحاظ سے اس سے بہتر نہیں لیکن محض جائے پیدائش کی بنیاد پر وہ اہل قرار پاتا ہے۔ میں اس کرب کو خوب محسوس کر سکتا ہوں کہ میں قومی ایر لائن کی ایک جاب کے لیے ہزاروں امیدواروں سے مقابلے اور متعدد ٹیسٹ اور انٹرویو کے مراحل سے گزرتا ہوا آخری دس امیدواروں تک آ گیا لیکن مجھے صرف کراچی ڈومیسائل ہونے کے سبب وہ پوزیشن نہیں دی گئی اور کسی دوسرے کو محض اس لیے منتخب کر لیا گیا کہ وہ کسی مخصوص خطہ میں پیدا ہوا تھا۔

ٹالسٹائی کا کہنا ہے "وطن نہ زمین کے ٹکڑے کا نام ہے اور نہ ہی لوگوں کے ہجوم کا نام ہے۔ وطن اس جگہ کا نام ہے جہاں عزت نفس، جان و مال کی حفاظت، روزگار کے منصفانہ معیار، انسانی وقار محفوظ رہے"۔ اس تعریف کے مطابق کیا ایک ایسا نوجوان جو اس سسٹم کا ڈسا ہوا ہو کیا وہ پاکستان کو اپنا "وطن" سمجھنے میں حق بجانب گا جہاں اسے محض کسی مخصوص جگہ نہ پیدا ہونے کی بنا پر مسترد کر دیا گیا ہو۔

کوٹہ سسٹم بھٹو صاحب کے دور میں دس سال کے لیے بنایا گیا تھا تاکہ سندھ کی دیہی آبادی کو ملازمتوں میں حصہ دیا جا سکے لیکن چالیس سال گزرنے کے بعد سیاسی وجوہات اور کراچی دشمنی کی بنا پر اس منحوس سسٹم کو ایک بار پھر 2013 میں پارلیمنٹ کی قرارداد کے ذریعے مزید بیس سال یعنی 2033 تک کے لیے نافذ کر دیا گیا۔ جس کی رو سے سندھ شہری کا کوٹہ 40 فیصد اور دیہی کا کوٹہ 60 فیصد ہے۔ مزید ستم یہ کہ اس چالیس فیصد شہری کوٹے میں وہ غیر مقامی افراد بھی شامل ہو گئے جنہوں نے کسی طرح کراچی کا ڈومیسائل بنوا لیا جبکہ ان کے پاس اپنے آبائی شہر کا ڈومیسائل بھی موجود ہوتا ہے جس کے باعث کراچی کے مقامی نوجوان کی مزید حق تلفی ہوتی ہے جو ہنوز جاری ہے۔

چلیے ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ کوٹہ سسٹم سندھ کے دیہی علاقوں کو ملازمتوں میں حصہ دینے اور انہیں اوپر لانے کے لیے نافذ کیا گیا تھا تو ساتھ یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ کیا دیہی اور شہری تقسیم باقی تین صوبوں میں نہیں ہے لیکن باقی پورے ملک میں یہ فارمولہ کیوں نہیں لاگو کیا گیا۔ مثلاً پنجاب کے کوٹہ پر چاہے وہ پسماندہ اور دیہی علاقے کا نوجوان ہو یا لاہور کا رہنے والا ہو ایک ہی کوٹے پر آتا ہے اسی طرح صوبہ پختون خواہ اور بلوچستان کا شہری اس صوبے کے کسی بھی علاقے کا ہو اسے اسی صوبے کے کوٹہ میں گنا جاتا ہے۔ سندھ میں اس تقسیم در تقسیم کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ سندھ دو لسانی صوبہ ہے۔ دیہی سندھ میں سندھی بولنے والے بستے ہیں جبکہ شہری علاقوں میں اکثریتی آبادی اردو بولنے والوں کی ہے۔ دراصل کوٹہ کی یہ تقسیم ان اردو بولنے والوں کی معاشی حق تلفی اور تعصب کی بنا پر کی گئی ہے جو سراسر سماجی انصاف اور انسانی حقوق کا قتل ہے۔ کوٹہ سسٹم نے لسانیت کو فروغ دیا جس کی وجہ سے دیہی اور شہری علاقوں میں رہنے والوں میں خلیج مزید بڑھی۔

افسوس یہ کہ کراچی کے مقامی اداروں جیسے کہ پولیس، پورٹ ٹرسٹ، کے ای ایس سی، میونسپل کارپوریشن اور اس سے متعلق سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے دروازے بھی مقامی افراد پر بند کئیے جا چکے ہیں۔ کیا کراچی کا نوجوان پولیس کا انسپکٹر یا سپاہی بننے کی بھی اہلیت نہیں رکھتا لیکن حال یہ ہے کہ آپ کسی بھی پولیس اسٹیشن چلے جائیں آپ یہی محسوس کریں گے کہ آپ جہلم یا چکوال میں ہیں۔ کراچی کے تھانوں میں تھانیدار سے سپاہی تک اکثریت غیر مقامیوں کی ہے۔ کیا ملک کے دوسرے شہروں میں بھی ایسا ہی ہے؟ ذرا سوچیئے اور دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کیجیئے گا۔ ان غیر مقامی افراد کو کراچی کے امن اور اس کے مسائل سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے ان کے لیے تو یہ شہر سونے کی کان ہے۔ بھاری رشوتیں دے کر من پسند پوسٹنگیں کرائی جاتی ہیں اور پھر ان اہلکاروں کو مال کمانے کی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ ان کے روابط جرائم پیشہ افراد اور مافیا سے ہوتے ہیں اور یہی اہلکار لوٹ مار اور اسٹریٹ کرائم کو فروغ دیتے ہیں۔

کوٹہ سسٹم میرٹ کا قتل ہے۔ حکومت اوپن میرٹ کو بحال کرنے میں کیوں ناکام رہی یا وہ کرنا ہی نہیں چاہتی۔ یہ کس کا قصور ہے؟ کیوں پورے ملک کے عوام کے لئے یکساں نظام نہیں۔ یہ کس کی غلطی ہے؟ حکمرانوں کی غلطیوں کی سزا عوام کو کیوں اور کب تلک ملتی رہے گی۔ کیا مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کی ہم سے متنفر ہونے کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ یہ سماجی اور معاشی ناانصافی نہیں تھی؟ جب کسی خطہ زمین پر یہ صورتحال ہو تو وہاں کے لوگ بہتر روزگار اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال کی بنا پر نقل مکانی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور یہی کچھ وطن عزیز میں ہو رہا ہے ہر شخص پریشان اور نا آسودہ ہے اور کسی بھی طرح کسی دوسرے ملک ہجرت کر جانا چاہتا ہے۔

کوئی تو وجہ ہوگی جو ہر سال وطن عزیز سے لاکھوں ہنرمند اور اعلی پروفیشنل، ڈاکٹرز اور انجینئرز بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں اس برین ڈرین کی بڑی وجہ وطن عزیز میں پھیلی سیاسی و سماجی بے چینی، معاشی ناہمواری اور قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے۔ ہر شہری اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان و مال کی حفاظت اور ایک بہتر مستقبل کے پیش نظر ملک سے نکل جانا چاہتا ہے۔ خوشی سے کوئی اپنے پیاروں کو نہیں چھوڑتا۔ کچھ لوگ بڑی آسانی سے ملک چھوڑنے والوں پر غیر محب وطن یا کوئی اور الزام تو لگا دیتے ہیں لیکن ان عوامل پر غور نہیں کرتے جس کی بنا پر کوئی اتنا بڑا فیصلہ کیوں اور کن حالات کے تحت کرتا ہے۔ ان حالات کے پیش نظر "دوسری ہجرت" ناگزیر ہوجاتی ہے اور جس کا جیسے بس چلتا ہے وہ دیار غیر میں جا بستا ہے۔ خوشی سے کوئی وطن اور اپنے پیاروں سے دور نہیں جاتا۔ کاش کہ وہ وقت آئے کہ اپنا گھونسلہ چھوڑ کر اڑ جانے والے پرندے لوٹ آئیں اور اپنے ہی آسمان پر پرواز کرسکیں۔

اس نے پوچھا ہے ہجرت کے حوالے سے سوال
فائدہ لکھوں یا لکھ دوں کہ خسارہ ہوا

About Anwar Ahmad

Anwar Ahmad is a renowned columnist and writer. His book in urdu "Kuch Khake Kuch Baten" was launched through the courtesy of Art Council, Karachi. Apart from that, Anwar Ahmad's articles and colums in urdu and english are published in different news papers, blogs and on social media plat form. Anwar Ahmad has also participated in various Talk Shows on TV Channels and on FM Radio.

Anwar Ahmad has blantly written on social, cultural, historical, and sociopolitical issues.

Check Also

Sulag Raha Hai Mera Shehar, Jal Rahi Hai Hawa

By Muhammad Salahuddin