Karachi Ke Sabiq Don (2)
کراچی کے سابق ڈان (2)
افضال کے والد انوار محمد خان ڈی ایس پی تھے جو ایک طوائف اختری بیگم کے عشق میں گرفتار ہوئے اور اختری بیگم نے انہی کے پستول سے انہیں اپنے گھر ہی میں قتل کر دیا۔ اختری بیگم کیس بہت مشہور ہوا اور اسے ڈی ایس پی انوار محمد خان کے قتل کے الزام میں سزا بھی ہوئی۔ افضال اچھے گھر کا تھا لیکن بری صحبت نے برباد کر دیا اور بدمعاشی میں مشہور ہوا۔
رضویہ کالونی کے تصویر بھورا کا بھی چرچا تھا اس کی رنگت سرخ سفید تھی جس کی وجہ سے بھورا مشہور ہوگیا۔ تصویر ایک معزز سید گھرانے کا بیٹا تھا لیکن برباد ہوگیا۔ اس پر بھی متعدد مقدمات تھے تصویر کی والدہ غرارہ پہنے بیٹے کے پیچھے در بدر کی ٹھوکریں کھاتیں۔ اسے ڈھونڈتیں۔ اس کے مقدمات کی فائلیں لیے وکیلوں اور عدالتوں کے چکر لگاتیں۔ کبھی چہیتے بیٹے کے لیے جیل ملاقات کے لیے جاتیں۔ بیچاری ماں نے کیا نہیں کیا لیکن تصویر نہیں سدھرا۔ منشیات کا عادی بھی ہوگیا جو اس کی موت کا سبب بنا۔
کراچی میں ایک اور بڑا نام شہنشاہ حسین تھا وہ گورنمنٹ کالج ناظم آباد کے تھے۔ اس زمانے میں ہم اسی اسکول میں پڑھتے تھے اور دور سے شہنشاہ حسین کو دیکھا کرتے۔ بہت وجیہ اور خوبرو تھے اور ان کا اسٹوڈنٹس پالیٹکس میں بہت نام تھا ان کے مقابل رانا اظہر علی خان تھے دونوں میں اکثر ٹکراؤ رہتا۔ لیکن ان کی دادا گیری کالج اور یونیورسٹی اور بعد میں کسی حد تک سیاسی رہی۔ بعد میں شہنشاہ نے وکالت شروع کردی اور رانا جھالر والی ہری ٹوپی سر پر سجائے پیری مریدی میں لگ گئے۔
کراچی میں ایک اور نام ابھرا اور کوہاٹی کے نام سے مشہور ہوا۔ کوہاٹی کا پورا نام امیر زادہ کوہاٹی تھا۔ نیا نیا کراچی آیا تھا۔ انتہائی کم گو اور شرمیلا۔ آٹھویں کلاس میں میرا ہم جماعت تھا۔ ہمارا ایک اور کلاس فیلو غیاث بھی تھا۔ بعد میں کوہاٹی بدمعاش کے طور پر سامنے آیا۔ اس کی غیاث سے کبھی نہیں بنی۔ غیاث جناح کالج کے سامنے رہتا تھا۔ دونوں کا جھگڑا ہوا۔ اسی رات کوہاٹی اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ غیاث کے گھر پہنچا دروازے پر دستک دی تو غیاث کے بھائی نے دروازہ کھولا جو انتہائی شریف انسان تھا۔
کوہاٹی اندھیرے میں پہچان نہیں پایا اور اس پر چاقو کے پے در پے وار کرکے قتل کر دیا۔ کوہاٹی گرفتار ہوا۔ مقدمہ چلا اور بری ہوگیا، اس کے بعد کوہاٹی کا نام ہوگیا۔ جناح کالج۔ اسلامیہ کالج اور دوسرے تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹ یونین کے تنازعات میں سرگرم رہتا۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ وارداتوں میں ملوث تھا اور متعدد مقدمات میں ماخوذ تھا۔ بعد میں کوہاٹی نے کے ڈی اے میں ملازمت کرلی اور کچھ عرصے بعد اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر وہ تیسر ٹاؤن اسکیم کا ڈائرکٹر جرنل بن گیا۔ کوہاٹی کا بھی چند سال پہلے انتقال ہوگیا۔ غیاث بہت پہلے کینیڈا چلا گیا تھا اب نجانے کہاں ہوگا۔
ناظم آباد میں ایک بدنام زمانہ سیف اللہ خان بنگش کا اڈہ تھا۔ سیف اللہ کا تعلق کوہاٹ سے تھا وہ دادا یا بدمعاش تو نہیں تھا لیکن اس کا اڈہ چرس۔ دیسی شراب۔ افیم کے علاوہ مینڈریکس اور دوسری نشہ آور ادویات کی فروخت کے لیے جانا جاتا تھا اور ہر قسم کا نشہ وہاں کھلے عام دستیاب تھا جو یقیناً مقامی پولیس کی اعانت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ سیف اللہ خان کے اس کاروبار کا علاقے کے نوجوانوں پر بہت برا اثر ہوا ایک پوری نسل منشیات کی عادی ہوگئی کتنے نوجوان نشہ کی عادت کی وجہ سے گھروں سے بھاگ گئے۔ کئی تو سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آئے اور متعدد بچے نشہ کی لت میں موت کی وادیوں میں کھو گئے اور کتنے ہی گھروں کے چراغ بجھ گئے۔
اب آتے ہیں کراچی کی مضافاتی بستی عزیز آباد اور دستگیر سوسائٹی کی طرف۔ یہ نئی بستی سنہ ساٹھ کے شروع میں آباد ہونا شروع ہوئی۔ مکانات بہت سلیقے سے بنے ہوئے اور سڑکیں کشادہ تھیں۔ مکین مہذب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور اکثریت اردو بولنے والوں کی تھی۔ دستگیر میں چھے نمبر بس کا آخری اسٹاپ تھا جہاں بسوں کے ڈائیور اور کنڈکٹرز کے لیے ایک بانس و چٹائیوں سے بنا "ہوٹل" جسے بسوں کا ٹائم کیپر حسین شاہ چلایا کرتا تھا۔ ڈرائیور۔ کنڈکٹر اور ہوٹل کا عملہ زیادہ تر پٹھان اور ایبٹ آباد و ہزارے سے آئے ہوئے لوگ تھے جو حسین شاہ کی قوت تھے اور ان کی غنڈہ گردی کے سامنے کسی کو آواز اٹھانے کی ہمت نہ تھی۔
محلے کے لوگ صبح باقاعدہ لائن بنا کر بسوں میں سوار ہو کر اپنی ملازمتوں پر جاتے اور اسکول کالج کے نوجوان بھی انہی بسوں میں سفر کرتے۔ حسین شاہ اور اس کے حواری ان سے انتہائی بدتمیزی سے پیش آتے اور اگر کوئی لب کشائی کرتا یا کسی بات پر اعتراض کرتے تو بے دریغ پٹائی بھی کرتے۔ ایک ڈرائیور اور ایک کنڈکٹر تیس سے پینتیس مسافروں پر دادا گیری کرتا اور بے عزت کرتا لیکن سب خاموشی سے برداشت کرتے۔ محلے کے نوجوان اپنے بزرگوں کی آئے دن توہین پر اکثر بس ڈرائیور اور کنڈکٹرز سے الجھ جاتے اور نوبت مار پیٹ تک پہنچ جاتی جس میں ہمیشہ حسین شاہ اور اس کے حواریوں کا پلڑا بھاری رہتا وہ بس کی لائن میں لگے شرفا کو ذرا ذرا سی بات پر دوڑا دوڑا کے مارتا یہی نہیں لوگوں کو اٹھا بھی لے جاتا اور انتہائی تشدد کے بعد چھوڑتا۔
سنہ پینسٹھ کے الیکشن میں کنونشن مسلم لیگ کے امیدوار جنرل ایوب خان اور ان کے مدمقابل متحدہ محاذ کی امیدوار محترمہ فاطمہ جناح تھیں۔ پورے پاکستان سے ایوب خان بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے جبکہ کراچی اور حیدرآباد سے محترمہ کامیاب ہوئیں سارے کراچی کی طرح دستگیر سوسائٹی۔ عزیز آباد اور اطراف کی آبادی نے محترمہ فاطمہ جناح کو ووٹ دیے اور ایوب خان کی حامی جماعت کنونشن مسلم لیگ کو بری طرح شکست ہوئی۔ حسین شاہ گروپ اور کراچی کی پختون اور ہزارے والوں نے ایوب خان کی حمایت کی۔ الیکشن کے نتائج کے بعد شہر میں شدید تناؤ تھا۔
ایوب خان کے صاحبزادے گوہر ایوب نے پختون اور سرحد سے منگوائے مسلح افراد جنہیں چھاچھی (ہزارے اور ایبٹ آباد کے لوگ) کہا جاتا تھا کے ساتھ اپنے والد کی جشن فتح کا جلوس نکالا اور خاص طور سے اردو بولنے والوں کی آبادیوں کو نذر آتش کیا اور قتل و غارتگری کی جس کے نتیجے میں کراچی میں کرفیو لگا دیا گیا۔ پورے شہر میں خوف و ہراس طاری تھا۔ حملہ آور مسلح جبکہ مقامی اردو بولنے والے نہتے تھے اس زمانے میں سیل فون وغیرہ تو تھا نہیں لوگ رات رات بھر جاگ کر پہرہ دیتے اور کسی ممکنہ خطرے سے دوسروں کو خبردار کرنے کے لیے بجلی کے کھمبے بجاتے کچھ لوگوں نے اپنے گھروں کی چھتوں پر پتھروں کا ذخیرہ کر لیا تھا۔
یہیں سے مہاجروں اور پختونوں میں اختلافات کی ابتدا ہوئی، جس کا سہرا گوہر ایوب صاحب کے سر جاتا ہے۔ آج انہی کے بیٹے عمر ایوب ایک سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے جمہوریت اور آئین کی پاسداری کی بات کر رہے ہیں ان کو چاہیے پہلے اپنے والد اور مرحوم دادا جان کی جمہوریت دشمنی اور کراچی پر شب خون مارنے کی داستان پڑھ لیں۔ کراچی کے لوگ کیسے ان مظالم کو بھول سکتے ہیں۔ الیکشن اور ہنگاموں کے بعد ایوب خان مزید طاقتور بن کر ابھرے اور ان کے سپورٹر چھاچھیوں کی بدمعاشیاں عروج پر پہنچ گئیں۔ حسین شاہ بھی چھاچھی تھا اور اس کے چیلے چانٹے بھی وہیں کے تھے۔
دستگیر اور اس کے اطراف کے علاقوں میں ان کی غنڈہ گردی بڑھتی جا رہی تھی لوگوں میں غم و غصہ تھا تو لیکن کسی میں ہمت نہیں تھی کہ سامنے آ سکے۔ انہی دنوں باہر سے آئے دو غنڈوں نے محلے کے لڑکوں سے بدمعاشی کی جس کے جواب میں اہل محلہ نے ان کی خوب پٹائی کی۔ چند دنوں بعد ان کی حمایت میں ایبٹ آباد اور ہزارے سے تعلق رکھنے والے دو افراد دستگیر آئے اور کیفے میجسٹک میں بیٹھے ان لڑکوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔ ان حملہ آوروں میں ایک فوج کا حاضر سروس لیفٹننٹ انوار الرحمن اور دوسرا مشتاق الرحمن تھا جو کسی بینک میں ملازم تھا یہ دونوں کزن بھی تھے اچھے گھرانوں کے پڑھے لکھے خوبرو نوجوان تھے۔ لیفٹننٹ انوار فوج میں جانے سے پہلے بھی کئی جرائم اور غنڈہ گردی میں ملوث رہا تھا۔ شنید ہے کہ اسی نے گوہر ایوب کو جب وہ لیاقت آباد کے ہنگاموں کے دوران گھیر لیے گئے تھے اپنی جان پر کھیل کر نکالا تھا۔
انوار الرحمن اور مشتاق کی فائرنگ اور محلے کے چار لڑکوں کے شدید زخمی ہونے کے بعد محلے کے نوجوانوں نے انہیں گھیر لیا اور وہ دونوں بھاگ کر ایک گھر میں چھپ گئے۔ محلے کو نوجوانوں نے انہیں گھر سے نکال کر شدید زد و کوب کیا جس کے نتیجے میں دونوں موقع ہی پر ہلاک ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد دستگیر سوسائٹی میں سراسیمگی پھیل گئی۔ پولیس نے تفتیش شروع كی۔ مقتولین کے ورثا نے اپنے اثر و رسوخ اور حسین شاہ کی اعانت سے گرفتاریاں شروع کر دیں۔ حسین شاہ نے محلے کے معززین اور ان کے بچوں کا نام دے دیا۔ دو درجن سے زیادہ نوعمر لڑکے گرفتار ہوئے اور ایک انتہائی معزز شخص جناب شعلہ آسیونی کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔
شعلہ صاحب ایک اچھے شاعر اور لکھنوی تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ ہمیشہ سفید کرتا پاجامہ۔ سفید شیروانی اور اسی کپڑے کی ٹوپی۔ پاؤں میں سلیم شاہی جوتے اور ہاتھوں میں پان کی ڈبیا اور بٹوا ہوتا۔ شعلہ صاحب ایک اچھے مقرر بھی تھے۔ مقدمہ چلا۔ شعلہ صاحب نے اپنا مقدمہ کی پیروی خود کی۔ جو لڑکے گرفتار ہوئے تھے وہ کم عمر طالب علم تھے جس کی بنا پر انہیں لانڈھی کی بچہ جیل میں رکھا گیا اور بی کلاس بھی دی گئی۔ مقتولین با اثر گھرانوں سے تھے۔ سرکاری وکیل کے علاوہ بھی ان کی طرف سے شہر کے قابل ترین وکیل پیش ہوئے۔ کئی برس مقدمہ چلا لیکن سارے ملزمان اور شعلہ صاحب پر کیس ثابت نہیں ہوسکا اور سب بری کر دیے گئے۔ یہ مقدمہ دستگیر ڈبل مرڈر کیس کے نام سے بہت مشہور ہوا تھا۔
حسین شاہ کا انجام بھی کچھ اچھا نہیں ہوا۔ ایوب خان کی حکومت جانے کے بعد اسے غنڈہ ایکٹ اور کئی مختلف مقدمات میں گرفتار کرکے سندھ کی کسی جیل میں بھیج دیا گیا جہاں وہ مقامی قیدیوں سے الجھ بیٹھا جنہوں نے اسے جیل ہی میں مار مار کر ختم کر دیا۔ نامعلوم کس مظلوم کی بددعا تھی کہ وہ اس طرح اپنے انجام کو پہنچا۔ حسین شاہ کے چھوٹے بھائی ارشاد شاہ بخاری تھے جو بعد میں کراچی ٹرانسپورٹر ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری ہو گئے تھے ابھی حال ہی میں ان کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔
سنہ اسی سے پہلے جب کراچی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا اس شہر میں برداشت اور رواداری تھی۔ اہل علم موجود تھے اور شائستگی بھی عام تھی اور شہر میں امن و امان بھی تھا لوگ بلا کسی خوف خطر رات کا آخری شو دیکھ کر پیدل ہی گھروں کو چلے جایا کرتے تھے۔ جرائم بھی ہوتے تھے لیکن ان کی سیاسی سرپرستی نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی منظم جرائم کا وجود تھا ہر محلے اور علاقے کے مقامی دادا یا ڈان ہوتے ضرور تھے لیکن وہ شرفا اور خواتین کی عزت بھی کرتے تھے۔ کبھی سننے یا دیکھنے میں نہیں آیا کہ ان کے ہاتھوں کسی کی توہین ہوئی ہو یا کسی سے جگا ٹیکس یا بھتہ وصول کیا گیا ہو۔ اور پھر یکایک منظر بدل گیا۔ مقامی داداؤں کی جگہ سیاسی اور مذہبی گروہوں نے لے لی ان کے ہاتھوں کسی کی عزت اور مال محفوظ نہیں رہا۔ انتظامیہ۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ہی شہریوں کو اپنے ہی نامزد کردہ بدمعاشوں کے ذریعے لوٹنے لگے۔ کسی کی عزت محفوظ نہیں رہی اور شہر ایک مقتل بن گیا۔
چند برس پہلے سپریم کورٹ نے کراچی میں بے امنی اور جرائم کی وجوہات اور ذمے داران کی نشاندہی کے لیے کراچی میں طویل سماعت کی اور اس کی رپورٹ کے مطابق شہر میں چند سیاسی۔ لسانی اور مذہبی جماعتوں اور گروہوں کے علاوہ پچاس سے زیادہ مختلف ریکٹ سرگرم تھے جن کے تانے بانے بیرونی ممالک سے تھے جو بھتہ خوری۔ اسٹریٹ کرائم۔ اغوا برائے تاوان۔ قتل و غارتگری سمیت ہر قسم کے جرائم میں ملوث تھے۔
افسوس کہ یہ رپورٹ بھی داخل دفتر ہوگئی اور کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور نہ ہی شہر سے جرائم کی بیج کنی ہو سکی۔ عام آدمی آج بھی کسی انجانے خوف میں مبتلا ہے اور نہیں جانتا کہ وہ خود یا اس کا بچہ شام کو صحیح سلامت گھر واپس آ جائے گا۔ شہر میں کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ شہری کہیں محفوظ نہیں۔ ایک موبائل فون کے لیے ڈکیت انہیں موت کی نیند سلا دیتے ہیں اور شنوائی بھی کوئی نہیں۔ آخر کب تک یہ ظلم و ستم کا بازار گرم رہے گا۔ اس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔