Karachi Ke Sabiq Don (1)
کراچی کے سابق ڈان (1)
اسی کی دہائی سے پہلے کراچی میں سیاسی جماعتوں کی دہشت گردی۔ بھتہ خوری اور منظم جرائم کا کوئی وجود نہیں تھا اور عمومی طور پر شہر کا ماحول پرسکون تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ اس دور میں جرائم نہیں ہوتے تھے لیکن یہ ضرور ہے کہ ان کی سیاسی۔ مذہبی اور لسانی گروہوں کی جانب سے سرپرستی نہیں ہوتی تھی۔ البتہ شہر کے مختلف علاقوں اور بستیوں میں مقامی غنڈے جنہیں عرف عام میں دادا کہا جاتا تھا ہوا کرتے تھے وہ چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث تو ہوتے تھے لیکن ان کے ہاتھوں علاقے کے لوگوں کی عزت محفوظ رہتی اور محلے کے شرفا کو دیکھ کر دادا لوگ بھی راستہ بدل لیتے یا نظریں جھکا کر راستہ دے دیتے تھے۔ اسی طرح محلے کی خواتین سے بھی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جاتی تھی اور اگر کہیں باہر کا کوئی اوباش ان کے پیچھے آ جاتا تو اس کی ایسی تواضع کی جاتی کہ وہ دوبارہ اس طرف کا رخ نہ کرتا۔ محلے کا دادا اپنے علاقے میں امن و امان کا ضامن ہوتا تھا اور علاقے میں ہونے والے چھوٹے موٹے واقعات اور جھگڑوں کو بھی نمٹا دیا کرتا تھا۔
سنہ اسی کے دہائی کے آخر میں کراچی میں بے امنی۔ قتل و غارت گری۔ بھتہ خوری اور دہشت گردی باقاعدہ انڈسٹری بن گئی جن کی پشت پناہی میں مختلف سیاسی و مذہبی تنظیموں کے علاوہ انتظامیہ اور سرکاری ادارے کے ملوث ہونے کے بھی ثبوت ملے ہیں جس کی وجہ سے شہر میں باقاعدہ جرائم کو فروغ ملا جن میں منشیات۔ اسلحہ۔ اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے ذریعے یومیہ کروڑوں کا لین دین ہوتا تھا۔
ستر کی دہائی کے آخر تک شہر میں شراب ممنوع نہیں تھی۔ نائٹ کلب۔ ہوٹلوں میں شراب کے علاوہ کیبرے اور دوسرے ڈانس شوز بھی ہوتے اور غیر ملکی رقاصائیں اپنے فن کا مظاہرہ بھی کرتیں تھیں۔ اس زمانے کی ایک مصری رقاصہ سامعہ جمال کا نام آج بھی ذہن میں نقش ہے جس کی تصاویر اکثر شام کے اخبارات میں سرورق پر چھپیں۔ عام لوگوں میں برداشت تھی اور شائقین بلا خوف خطر اپنی پسند اور بساط کے مطابق "انجوائے" کرتے تھے۔
شراب کی دکانوں پر کھلے عام خرید و فروخت ہوا کرتی تھی جہاں سے اہل ذوق اپنے من پسند مشروب خرید سکتے تھے اس کے علاوہ پوش علاقوں میں باقاعدہ بار ہوتے تھے جہاں شاعر۔ ادیب اور فنکار اپنے مخصوص بار میں اکٹھا ہوتے اور مے نوشی کے ساتھ علم و ادب پر بحث ہوتیں لیکن حفظ مراتب اور شائستگی سے گری کوئی حرکت کبھی دیکھنے میں نہیں آتی۔ بار کے ویٹرز بھی اپنے روزمرہ کے گاہکوں کو خوب پہچانتے اور اگر صاحب کی جیب خالی بھی ہو تو تشنہ نہیں بھیجتے اور ڈیبٹ کریڈٹ چلتا رہتا۔
پرانے شہر اور لیاری کے آس پاس کے علاقوں میں بار کے علاوہ ساقی خانے بھی ہوتے جنہیں مقامی زبان میں"گتہ" کہتے۔ یہاں دیسی شراب جسے کلاکوٹ وہسکی کہتے ملتی تھی اس کا اثر ولائتی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتا۔ ان ساقی خانوں میں کھسروں کا ناچ بھی ہوتا جسے کچی شراب یا ٹھرہ پینے کے بعد لوگ بڑے شوق سے دیکھتے اور کبھی کبھی چاقو بھی نکل آتے اور چھوٹے موٹے جھگڑے تو ہوتے ہی رہتے تھے اور مقامی دادا فریقین کا "کمپرومائز" کرا دیا کرتے۔ پینے والوں کو باآسانی ان کا مشروب میسر تھا۔ چرس اور افیم عام نہیں تھی اور نچلے درجے کا نشہ سمجھا جاتا تھا اور ہیروئن یا آئس وغیرہ کا تو کوئی نام بھی نہیں جانتا تھا۔
بھٹو صاحب کی حکومت کے خلاف نو جماعتوں پر مشتمل پی این اے کی تحریک چلی جس نے ان کو ہلا کے رکھ دیا۔ بھٹو صاحب روشن خیال اور انتہائی مغرب زدہ ہونے کے باوجود اپنا اقتدار بچانے کے لیے مذہبی کارڈ استعمال کرنے پر مجبور ہو گئے اور انہوں نے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی خاطر کئی "اصلاحات" کا اعلان کیا جن میں شراب نوشی پر پابندی بھی شامل تھی جس کے بعد سارے بار اور شراب کی دکانیں بند کردی گئیں بلکہ لوٹ لی گئیں۔
کیا اس پابندی کے بعد شراب بند ہوگئی اور لوگ متقی و پرہیزگار ہو گئے؟ جی نہیں۔ بلکہ شراب کی بیوپاری زیر زمین چلے گئے اور وہی شراب بلیک مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت ہونے لگی جو نہیں افورڈ کر سکتے تھے انہوں نے متبادل نشہ ڈھونڈ لیا۔ چرس۔ مینڈریکس اور مختلف قسم کی ڈرگز عام ہوگئی اس کے علاوہ گھروں میں کشید کی گئی غیر معیاری شراب پینے سے سیکڑوں افراد ہر سال مر جاتے یا وہ اپنی بینائی کھو دیتے اور یہ کاروبار مقامی پولیس کے تعاون کے بغیر ممکن نہ تھا۔
فساد افغانستان کے بعد ہیروئن اور دوسری منشیات کے ساتھ اسلحہ منظم جرائم کا ایک طوفان پاکستان میں در آیا۔ یہی نہیں بلکہ سیاست اور سیاسی مذہبی گروہوں میں لسانیت اور مسلکی تنازعات میں اسلحہ کا استعمال بھی عام ہوگیا اور ملک لہولہان ہوگیا۔ اس کے بعد مقامی داداؤں کی جگہ سیاسی جماعتوں کے مسلح گروپس نے لے لی جو پولیس انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی ٹکر لینے لگے یا پھر انہی کی پشت پناہی میں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اپنے مخالفین کو منظر سے غائب بھی کر دیتے۔
اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف جب کراچی کے مختلف علاقوں میں مقامی دادا ہوتے تھے۔ انہیں ڈان کہنا تو قطعی مناسب نہ ہوگا کیونکہ وہ منظم جرائم پیشہ نہیں تھے۔
بچپن سے کئی نام کسی دیو مالائی کردار کی طرح ذہن پر چھائے ہوئے تھے۔ ان میں ایک نام حاجی قاسم بھٹی کا تھا جو سونے كا اسمگلر تھا اس کی سخاوت کے قصے بہت عام تھے وہ صدر ایوب اور اسکندر مرزا كا قریبی دوست تھا۔ شنید ہے کہ قاسم بھٹی نے کڑے وقت میں کئی من سونا حکومت کو دے دیا تھا۔ ایک اور مشہور اسمگلر سیٹھ عابد بھی تھا جو سونے کی اسمگلنگ کے لیے جانا جاتا تھا کہتے ہیں سرکاری اداروں کی ایما پر اس نے پاکستان کے لیے ایٹمی پلانٹ میں استعمال ہونے والی مشنری اور دیگر سامان بھی پاکستان کے لیے اسمگل کیا۔ واللہ اعلم باالصواب۔
اسی زمانے میں کراچی میں شیرو۔ دادل اور کالا ناگ خوف و دہشت کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ ان کی سرگرمیاں کراچی کے قدیمی علاقوں لیاری۔ کھڈہ۔ بغدادی۔ کلاکوٹ اور چاکیواڑہ میں ہوتیں لیکن ان کی دہشت پورے شہر میں تھی۔ سنا ہے کہ بعد میں یہ تائب ہو گئے تھے۔ کالا ناگ بھی اپنے وقت کا بڑا دادا تھا جب وہ کھلی جیپ میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کسی جگہ پہنچ جاتا تو لوگوں کو جیسے سانپ سونگھ جاتا۔ لیکن اس کا قتل دو غیر معروف نوجوانوں کے ہاتھ ہوا جنہیں بعد میں علم ہوا کہ انہوں نے کالا ناگ کو ڈھیر کر دیا ہے۔ ان دونوں قاتلوں کو کئی برس کی جیل ہوئی۔ رہائی کے بعد ان میں سے ایک سے میری ملاقات ہوئی اس کا نام مقصود تھا بقول اس کے ایک معمولی تکرار کے بعد ان دونوں نے چاقو کے وار کرکے اسے قتل کر دیا اور جب انہیں معلوم ہوا کہ مرنے والا مشہور بدمعاش کالا ناگ ہے تو خود ان پر تھرتھری طاری ہوگئی۔
جوبلی سنیما۔ تبت سینئر اور اس کے اطراف میں اعظم اور سکندر کا طوطی بولتا تھا۔ یہ دونوں سگے بھائی تھے۔ ان کی بڑی دہشت تھی یہ دونوں پہلوان بھی تھے اور علاقے کے جانے مانے دادا بھی۔ جب میں آئل کمپنی میں تھا تو اعظم کے داماد اور سکندر کے بیٹے كا میں نے تقرر کیا دونوں انتہائی شریف اور محنتی کارکن تھے انہوں نے ڈرلنگ میں خوب ترقی کی۔ آج بھی وہ میرا بہت احترام کرتے ہیں
شہر کے وسطی ایریا میں بیگ اور شدن کا ڈنکا بجتا تھا۔ یہ دونوں رام پوری تھے اور سنا ہے ان کی چھری کی کاٹ ایسی ہوتی تھی کہ مضروب کو کافی دیر تک خبر ہی نہیں ہوتی تھی کہ اس کا کام تمام ہوگیا ہے۔
ملیر۔ کورنگی اور لانڈھی کے علاقوں میں ناصر عرف نوشہ اور اصغر لنگڑے کا راج تھا۔ وہ دادا گیری کے علاوہ جوئے کا اڈا بھی چلاتے تھے۔ اصغر لنگڑے کا علم نہیں لیکن نوشہ اور قمر ٹیڈی ایک قتل کے الزام میں جیل گئے اس کیس میں نوشہ کو سزائے موت ہوئی اور قمر ٹیڈی بری ہو گئے۔
پی ای سی ایچ ایس اس زمانے میں ایک پوش آبادی تھی جہاں اعلی سرکاری افسروں اور تجارت و صنعت سے وابستہ لوگ رہا کرتے تھے اس وقت ڈیفنس کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ پی سی ایچ ایس کو عموماً سوسائٹی کے نام سے جانا جاتا تھا وہاں ایک اچھے خاندان کا بگڑا نوجوان مجید ٹیڈی کے نام سے مشہور ہوا جو شروع میں اسلامیہ کالج کی اسٹوڈنٹ یونین میں دنگے فساد کیا کرتا تھا بعد میں اس کے ساتھ کئی اور لوگ شامل ہو گئے ایک نذیر ٹی ٹی بھی تھا۔ ان دونوں کی دادا گیری سوسائٹی اور اس کے اطراف کے علاوہ ملحقہ علاقوں اور ناظم آباد تک پہنچ گئی۔ مجید اچھے گھرانے کا نوجوان تھا لیکن بری صحبت نے اسے برباد کر دیا اس کا انجام بھی برا ہوا اور ایک جھگڑے میں اس کے اپنے دوست ظفر بھورا نے اس کی کمر پر چاقو سے وار کیا جس کی وجہ سے اس کا نچلا دھڑ بے جان ہوگیا اور وہ بیساکھیوں کا محتاج ہو کر رہ گیا۔
جہانگیر روڈ۔ مارٹن کوارٹر اور پی آئی بی کالونی میں ایک بدمعاش بوڑم کے نام سے مشہور ہوا لیکن زیادہ دیر نہیں چل سکا۔
جوا اور سٹہ لے حوالے سے اسم ناتھا کا بھی بہت شہرہ تھا۔ جو لسبیلہ کے علاقے میں سٹہ چلایا کرتا تھا اس کا نیٹ ورک پورے شہر میں پھیلا ہوا تھا۔ سٹہ کھلنے والوں کو عرف عام میں سٹیری کہا جاتا تھا۔ اسلم ناتھا کے آڈے پر شام سات بجے سٹہ کا ایک نمبر کھلتا اور رات گیارہ بجے دوسرا نمبر کھلتا۔ نمبر بھی ایک دلچسپ مگر شفاف عمل سے کھلتا جسے گھڑیا کھلنا کہتے تھے وہ اس طرح کے ایک چھوٹے سے گھڑے نما برتن میں ایک روپے کے نئے نوٹ کی نئی گڈی کھول کر ڈال دیے جاتے پھر گھڑیا کو خوب ہلایا جاتا اور ایک نوٹ نکال کر اس کے نمبر کا آخری نمبر اوپن نمبر کہلاتا اور سارے شہر کے نیٹ ورک پر پھیلا دیا جاتا جس کا نمبر لگ جاتا اسے ایک روپے کے نو روپے ملتے اسی طرح رات گئے دوسرا نمبر کھلتا اگر کسی کے دونوں نمبر لگ جاتے تو اسے ایک روپے کے عوض نوے روپے ملتے اور جس کے دونوں نمبر لگ جاتے اس کی عید ہوجاتی۔
سٹیری نمبر گیم کے اس چکر میں گھن چکر بن جاتے ہر وقت ذہن پر صرف نمبر ہی ہوتے۔ توہم اس قدر بڑھ جاتا کہ پاگل پن کی حد تک پہنچ جاتا ہر بات اور ہر چیز میں نمبر ڈھونڈتے اگر کسی نے گالی بھی دی ہوتو اس کے نمبر اخذ کرلیتے۔ ماں بہن کی گالیوں کے بھی مخصوص نمبر ہوتے۔ سٹیری آتی جاتی کاروں کے آخری نمبر دیکھتے اور نمبر اخذ کر لیتے تھے۔ ان کے پیر اور بابا بھی ہوتے جو خود بھی نشئی ہوتے اور نمبر بتاتے تھے۔ انہیں سدھ کہا جاتا تھا۔ اگر کوئی اس چکر میں پڑ جاتا تو اس سے نکلنا مشکل ہو جاتا۔ خواب میں بھی سٹیری کو سٹے کے نمبر ہی آتے۔ اسلم ناتھا کا انجام بھی اچھا نہیں ہوا اور وہ ایک انڈر ورلڈ بدمعاش شعیب خان کے ہاتھوں مارا گیا۔
لالو کھیت اور گولیمار کے علاقہ میں قمر ٹیڈی۔ رئیس ملا۔ پیر جن اچھن اور شبو مشہور تھے۔ ان میں قمر ٹیڈی کا شہرہ دور دور تک تھا۔ قمر دبلا پتلا لیکن انتہائی پھرتیلا اور دلیر جوان تھا جو چاقو زنی کا ماہر تھا اس کے سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی پر ایک گہرے گھاؤ کا نشان تھا میرے پوچھنے پر بتایا کہ ایک جھگڑے میں کسی نے اس پر گپتی (انتہائی تیز دو دھاری چاقو جو خنجر سے بڑی ہوتی ہے) سے سیدھا سینے پر وار کیا تو میں نے اسے اپنی مٹھی میں بھینچ لیا ورنہ گپتی سینے میں آر پار ہوجاتی۔ قمر اپنے جگری یار نوشہ کی سزائے موت کے بعد جرائم سے تائب ہو كر تبلیغی جماعت میں شامل ہوگیا۔ شنید ہے کہ قمر کا بھی کئی برس پہلے انتقال ہوگیا ہے۔
ناظم آباد نے یوں تو ہر شعبہ میں بڑے پیدا کئیے۔ تعلیم۔ کھیل۔ سیاست۔ فنون لطیفہ ہو یا دادا گیری ناظم آباد کا اپنا مقام ہے۔ ناظم آباد سے متصل رضویہ کالونی سے تصویر بھورا۔ ظفر۔ رئیس پہلوان۔ شاہین۔ افضال اور میکش دادا کا بہت نام تھا۔ میکش شاعری بھی کرتے تھے نام نامعلوم کیا تھا لیکن مشہور میکش کے نام سے تھے۔ گورنمنٹ اسکول ناظم آباد کے پیچھے ایک ریسٹورنٹ میں اکثر جمگھٹا لگائے نظر آتے۔
جاری۔۔