Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Anwar Ahmad
  4. Dr. Shoaib Nigrami

Dr. Shoaib Nigrami

ڈاکٹر شعیب نگرامی

تقسیم ہند کے بعد میرے والدین تو پاکستان آ گئے لیکن ہمارے خاندان کے کچھ افراد نے ہندوستان ہی میں رہنے کو ترجیح دی۔ ان ہی میں میرے خالو مرحوم مولانا محمد اویس نگرامی بھی تھے جو ایک ممتاز عالم دین اور ندوتہ العلوم لکھنؤ میں شیخ التفسیر کے عہدے پر فائز تھے۔

مرحوم خالو مولانا محمد اویس نگرامی کا گھرانا علمی، ادبی اور مذہبی تھا۔ یوں تو ان کے سب ہی بیٹے باعلم تھے لیکن والد کی علمی وراثت کو ان کے تین بیٹوں ڈاکٹر شعیب نگرامی، ڈاکٹر یونس نگرامی اور ڈاکٹر ہارون نگرامی نے برصغیر ہی میں نہیں بلکہ مصر، سعودی عرب اور عالم اسلام سے روشناس کرایا۔ تینوں بھائی ندوتہ العلوم لکھنؤ کے فارغ التحصیل عالم اور جامعہ الازہر قاہرہ سے اسلامی علوم میں پی ایچ ڈی کی سند کے علاوہ مدینہ یونیورسٹی سے ڈی لٹ بھی تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ۔

ایں خانہ ہمہ آفتاب است

مولانا اویس نگرامی کے بڑے بیٹے ڈاکٹر شعیب میرے سب سے بڑے بھائی کے ہم عمر تھے۔ ہمارا خاندان تقسیم کے بعد پاکستان آ گیا تھا اس لیے شعیب بھائی اور ان کے گھرانے سے بس خط و کتابت تک کا تعلق تھا یا کبھی کسی آنے جانے والے سے کوئی خبر مل جاتی۔

میں نے اپنے لڑکپن میں شعیب بھائی کو صرف دو بار دیکھا تھا۔ پہلی بار جب وہ ندوہ سے عالمیت مکمل کرنے کے بعد مزید حصول علم کے لیے لکھنؤ سے الازہر یونیورسٹی قاہرہ جاتے وقت چند گھنٹوں کے لیے کراچی رکے تھے اور میری والدہ سے ملنے گھر آئے تھے اس وقت ان کا حلیہ جو مجھے یاد ہے کسی مدرسے کے طالبعلم کا سا تھا۔ کرتہ اور اوٹنگا پائجامہ پہنے۔ چہرے پر داڑھی اور منہ پان سے لال تھا۔ اماں نے ان کو گلے لگایا اور دونوں خوب روئے۔

دوسری بار جب شعیب بھائی قاہرہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد واپس ہندوستان جا رہے تھے اس مرتبہ بھی کراچی میں ان کا قیام چند گھنٹوں کے لیے تھا۔ ہمارے ایک عزیز مرحوم مبین احسن ان دنوں کراچی ائرپورٹ پر تعینات تھے وہ شعیب بھائی کو تھوڑی دیر کے لیے ہمارے گھر لے آئے۔ اس بار وہ ایک نئے روپ میں تھے۔ کرتا پائجامہ کی بجائے سوٹ اور ٹائی میں ملبوس اور چہرے سے داڑھی غائب لیکن منہ پان سے پہلے کی طرح لال تھا۔ ان دونوں ملاقاتوں میں ہم صرف خاموش تماشائی تھے اور شعیب بھائی سے کبھی کوئی بات نہیں ہوئی۔

شعیب بھائی کو قریب سے دیکھنے اور ملنے کا اتفاق سنہ دو ہزار میں ہوا جب مجھے کمپنی نے آرامکو کے ایک آف شور ڈرلنگ کے پراجیکٹ پر سعودی عرب کے شہر الخبر بھیج دیا۔ الخبر سے متصل دہران ہے جہاں آرامکو کے دفاتر ہیں۔ وہاں پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ شعیب بھائی بھی دہران ہی میں ایک طویل عرصے سے مقیم ہیں۔ ان سے ملنے کی خواہش ہوئی۔ شعیب بھائی کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر یوسف نگرامی جو جدہ میں تھے ان کا فون نمبر لیا اور ایک شام انہیں فون کیا اور اپنا تعارف کرایا تو بہت خوش ہوئے اور پوچھا کہاں ٹھہرے ہو۔ ہوٹل میں کیوں قیام کیا۔ کب آئے۔ پہلے فون کیوں نہیں کیا وغیرہ وغیرہ اور حکم دیا کہ تیار رہو میں گاڑی بھیج رہا ہوں فوراً آ جاؤ۔ میں ان تابڑ توڑ سوالات کے لیے بالکل تیار نہ تھا لہذا کچھ گڑ بڑا سا گیا۔ ان کی سرزنش میں چھپا پیار مجھے اچھا لگا۔ اس شام میرا کہیں اور پروگرام تھا لیکن شعیب بھائی کو ٹالنا ممکن نہ تھا۔ میں تیار ہو کر لاؤنج میں پہنچ کر گاڑی کا انتظار کرنے لگا، کچھ ہی دیر بعد ایک صاحب آئے اور ریسیپشنسٹ سے میرے متعلق پوچھ رہے تھے یہ گفتگو میں نے سن لی اور ان کے قریب آ کر اپنا نام بتایا۔ وہ بہت تپاک سے ملے۔ اپنا تعارف کرایا اور ساتھ لے چلے۔ راستے بھر میں سوچتا کہ میری تو کبھی شعیب بھائی سے کبھی کوئی بات بھی نہیں ہوئی وہ کیسے ملیں گے۔ کیا بات کروں گا۔ ابھی اسی ادھیڑبن میں تھا کہ ان کا گھر آ گیا۔

شعیب بھائی میرے منتظر تھے بہت محبت سے مجھے گلے لگایا بلکہ میرے گال پر ایک ہلکی سی چپت بھی لگا دی کہ آئے ہوئے دو ہفتے ہو گئے اور اب ہمارا خیال آیا۔ میں کیا جواب دیتا۔ بس سر جھکا دیا۔

شعیب بھائی عربی توب (جبہ) میں ملبوس۔ کلین شیو ہاتھ میں بٹوا۔ منھ میں پان اور لہجہ وہی لکھنوی۔ اتنے میں کسی کا فون آ گیا دوسری طرف شاید کوئی عربی تھا جس سے شعیب بھائی بہت روانی سے عربی میں بات کر رہے تھے اور میں ان کی عربی پر حیران تھا۔ فون کے بعد وہ مجھ سے مخاطب ہوئے گھر اور خاندان کے تمام افراد کے بارے میں پوچھتے رہے۔ اتنے میں ذکیہ بھابھی نے کھانے کی نوید سنائی۔ میز پر مزیدار کھانے دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ دو ہفتوں سے ہوٹل کے کھانے کھا کر جی اوبھ گیا تھا۔ گھر کے پکے سادہ کھانے اسٹیو گوشت، ہماری خاندانی ارہر کی دال، چاول اور کئی قسم کی ڈشیں اس کے بعد لکھنوی شاہی ٹکڑے اور مزعفر سویاں آخر میں سردیوں کی سوغات کشمیری چائے۔ بہت دن بعد خوب پیٹ بھر کے کھایا اور دیر تک شعیب بھائی بھابھی اور بچوں سے باتیں ہوتی رہیں۔

شعیب بھائی نے فیصلہ سنایا کہ ہر ویک اینڈ پر رات کا کھانا ان کے ساتھ کھایا کروں جس میں کسی قسم کے عذر کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ شعیب بھائی اچھے کھانے کے شوقین تھے وہ بسیار خور تو نہیں البتہ خوش خوراک ضرور تھے۔ میٹھے کے بہت شوقین تھے حالانکہ شوگر کے مریض تھے لیکن کھانے کے فوراً بعد میٹھے کی فرمائش کرتے۔ کہیں دعوت پر بھی جاتے تو کوئی میٹھی چیز ساتھ لے جاتے۔ اگر کہیں میٹھی ڈش آنے میں کچھ تاخیر ہوتی تو بھابھی بیگ سے وہ مٹھاس نکال کر چپکے سے شوہر کو پکڑا دیتیں اور شعیب بھائی اپنا شوگر لیول پورا کرلیتے۔ حیرت ہے کہ یہی عادت میں نے اپنی اماں اور ماموں میں بھی دیکھی تھی کہ کھانے کے فوراً بعد کچھ میٹھا مل جائے۔ شاید یہی جینیٹک ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔

شعیب بھائی صرف اچھا کھاتے ہی نہیں بلکہ اچھا کھلاتے بھی تھے۔ ان کے گھر کی دعوتیں مشہور تھیں۔ ذکیہ بھابھی کے پکائے کھانے جو کھاتا انگلیاں چاٹتا رہ جاتا۔ ان کے گھر ویک اینڈ کی شام ہی سے علم و ادب کی محفل سج جاتی۔ دمام، الخوبر اور دہران کی معزز شخصیات اور علماء، شاعر، محقق اور ادبی شخصیات اس محفل میں شامل ہوتیں۔ مختلف موضوعات پر بحث مباحثے ہوتے اور مہمانوں کی تواضع بھابھی کے پکائے ہوئے لذیذ کھانوں سے کی جاتی۔

جب تک میں سعودی عرب میں رہا شعیب بھائی بھابھی اور ان کے بچوں نے کبھی گھر سے دوری کا احساس نہیں ہونے دیا۔ ویک اینڈ کے علاوہ بھی اکثر مجھے بلا لیتے اور رات گئے تک باتیں کرتے اور اپنے علم کی روشنی سے میرے تاریک ذہن کو منور کرتے۔ شعیب بھائی الخوبر اور دمام کی معزز شخصیت تھے آئے دن وہ کہیں نہ کہیں مدعو ہوتے اور مجھے ضرور ساتھ لے جاتے اور میزبان کو پہلے سے بتا دیتے کہ ہمارے ساتھ چھوٹا بھائی بھی ساتھ ہوگا اور زور دے کر کہتے یہ ہمارا "کزن" نہیں بلکہ حقیقی خالہ زاد بھائی ہے۔ اس بہانے مجھے بھی شعیب بھائی کے دوستوں سے ملنے اور ان کی محفلوں میں بیٹھنے کی سعادت نصیب ہوئی اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ رشتوں کی ایسی قدر کرنے والوں کی شاید یہ آخری نسل ہو۔ اللہ ایسی شفیق ہستیوں کو تادیر سلامت رکھے۔

ذکیہ بھابھی مرحومہ چند برس پہلے گزر گئیں ان کے لیے مرحومہ لکھتے وقت تکلیف ہوتی ہے۔ بھابھی ایک شاندار شخصیت کی باوقار خاتون تھیں ان کا تعلق الہ باد کے ایک معزز گھرانے سے تھا۔ بھابھی امور خانہ داری کے علاوہ شعیب بھائی کی ادبی اور سماجی محفلوں میں بھی شریک ہوتیں۔ وہ شعیب بھائی کے ساتھ ایک طویل عرصے تک ریڈیو قاہرہ کی اردو سروس میں بحیثیت اناؤنسر حصہ لیتی رہیں۔ ان کا ادبی ذوق بھی ان کی شخصیت کی طرح کمال کا تھا۔ بھابھی اور شعیب بھائی ایک جان دو قالب تھے۔ بھائی انہیں بڑے پیار سے "ذکی" کہ کر بلاتے۔ ان کے بعد شعیب بھائی بجھ سے گئے۔ ان کے مزاج کی شوخی اور شگفتگی کہیں کھوگئی۔ ان دونوں کی محبت اور رفاقت قابل رشک اور مثالی تھی۔ اللہ بھابھی کے درجات بلند فرمائے۔

شعیب بھائی بظاہر تو بہت پر مزاح اور شوخ طبیعت کے مالک تھے لیکن ان کی ہنسی کے پیچھے ایک کرب سنائی دیتا تھا جس کی وجہ ان کے جواں سال بیٹے اسامہ کا صدمہ تھا جو ایک مہلک بیماری کے بعد انہیں داغ مفارقت دے گیا۔ جوان بیٹے کی موت، ابھی جس کے سہرے کے پھول بھی نہیں کھلے تھے کے یوں اچانک چلے جانے سے بھائی اور بھابھی پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا لیکن ان کا صبر کمال کا تھا۔ انہوں نے اس جانکاہ صدمے کو مشیت ایزدی سمجھ کر رب کریم کے سامنے سر جھکا دیا لیکن جب کبھی اسامہ کا تذکرہ ہوتا تو بھابھی کی آنکھیں نم ضرور ہو جاتیں اور ان کے چہرے سے اندر کا کرب صاف محسوس ہوتا۔ کسی بھی ماں باپ کے لیے اس سے بڑا غم اور کیا ہوگا کہ ان کی اولاد یوں اچانک چلی جائے۔

شعیب بھائی کے سب ہی بچے انتہائی مودب اور با اخلاق ہیں جس کی وجہ یقیناً گھریلو ماحول اور والدین کی تربیت ہے۔

شعیب بھائی برج کے شوقین تھے انہوں نے اس کھیل میں کئی ٹورنامنٹ جیتے اور متعدد تمغے اور اعزاز بھی حاصل کیے۔ وہ ہفتے میں کم از کم ایک دن آرامکو کلب یا کسی یورپین دوست کے گھر برج کھیلنے ضرور جاتے۔ برج کی بازی میں خواتین بھی شامل ہوتیں۔ گھر سے جاتے وقت تاش کے پتوں کے علاوہ ان کے پاس ایک ڈبیہ جس میں کتھا چونا لگے پان، بٹوے میں چھالیہ، الائچی اور تمباکو ضرور ساتھ ہوتا۔ ان کے منہ سے لکھنوی قوام کی خوشبو بھی آ رہی ہوتی اور منھ پان سے لال ہوتا جو ان کے عربی ملبوس سے مطابقت تو نہیں رکھتا تھا لیکن یہی ان کی پہچان تھی اور وہ اپنی روایات پر قائم تھے۔

شعیب بھائی گھر میں اور کہیں جاتے بھی تو عربی لباس ہی پہنتے کبھی کبھار کرتہ پائجامہ بھی پہن لیتے۔ لگ بھگ پچاس سال وہ لیبیا۔ مصر اور سعودی عرب میں رہے اور وہیں کے ہو رہے۔ اگر ان کے منہ میں پان اور ہاتھ میں بٹوا نہ ہو تو اندازہ لگانا مشکل ہوتا کہ وہ سعودی نہیں ہیں۔ شعیب بھائی نے مصر اور سعودی عرب کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی وہیں تدریس اور وہیں نشر و اشاعت کے شعبہ میں ملازمت کی۔ مجھے شعیب بھائی مصری علما سے زیادہ متاثر نظر آئے۔ لباس اور وضع قطع بھی انہیں کی طرح تھی۔ ان کے ہم عصر جامعہ الازہر کے نامور عالم اور محقق تھے جن سے وہ رابطے میں رہتے تھے۔ شعیب بھائی نے کئی موضوعات پر جامعہ الازہر قاہرہ اور مدینہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی اور مدینہ یونیورسٹی سے ڈی لٹ کی سند حاصل کی۔ ان کی متعدد کتابیں عربی زبان میں ہیں جو وہاں کے نصاب کا بھی حصہ بنیں۔ شعیب بھائی کا شمار دنیائے عرب کی معروف علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔

شعیب بھائی علم الحدیث کے ماہر تھے۔ چونکہ قدیم عربی زبان عرب کی تاریخ اور عرب ثقافت پر ان کو عبور حاصل تھا لہذا وہ حدیث کی عبارت اور متن سے جان لیتے تھے کہ یہ حدیث ضعیف۔ موزوں یا معتبر ہے۔ ریڈیو دمام سے ان کا ایک لائیو پروگرام "یہ حدیث نہیں ہے" کے عنوان سے کئی برس چلا جس میں وہ فون پر مختلف احادیث کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات اور ان کی صحت کے بارے میں جواب دیتے تھے۔

مولانا مودودی اپنی کتاب "ارض قرآن" کی تکمیل کے لیے جب سعودی عرب اور مصر میں ان مقامات تک گئے جن کا قرآن میں ذکر ہے تو سعودی حکومت نے شعیب بھائی کو مولانا کے ساتھ بطور لائیژان افسر مقرر کر دیا۔ وہ مولانا کے بہت قریب رہے اور ان کی علمیت کے معترف بھی تھے۔ اسی طرح نامور اسکالر عبدالماجد دریا آبادی نے بھی شعیب بھائی اور ان کے خانوادے کے بارے میں اپنی کتاب "خطوط ماجدی" میں بارہا تذکرہ کیا ہے۔

شعیب بھائی کو قدیم عربی زبان پر عبور حاصل تھا انہیں عہد جاہلیہ کے نامور عربی شاعر امر القیس، ابو نواس اور دیگر شعرا کے اشعار ازبر تھے۔ اسی طرح عربی حکایات، محاورے اور استعارے وہ کسی اہل زبان کی طرح روانی سے بولتے اور ہم جیسے عربی سے نابلد کو اس کا مطلب بھی سمجھاتے۔

شعیب بھائی یوں تو مستند عالم اور محقق تھے۔ لیکن وہ روایتی مولویوں اور علماء سے بہت مختلف تھے۔ وہ دین میں اجتہاد کے حامی اور روایتی ملائیت کے مخالف تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ لوگ شوق سے دین کی طرف راغب ہوں نہ کہ شدت کی وجہ سے بیزار ہوجائیں۔

سعودی عرب میں میرا قیام تقریباً دس برس رہا۔ اس دوران تقریباً ہر ہفتے ان کے گھر علم و ادب کی محفلوں میں شامل ہونے کا موقع ملا اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ان مجالس میں بہت باعلم افراد شامل ہوتے اور بہت سے دقیق موضوعات پر بھی باتیں ہوتیں۔ میں ہرگز اس قابل نہیں تھا کہ وہاں کچھ بول پاتا بس خاموشی سے ان کی باتیں سنتا۔ دین کی تشریحات جو مجھے ان مجالس میں سننے کو ملیں وہ روایتی مولویوں کے بیانات سے بڑی حد تک مختلف تھیں۔

بنیادی طور پر میں خود بھی مولویوں کی روایتی تشریح دین سے مطمئن نہیں تھا۔ شعیب بھائی کی محفلوں میں مزید آگاہی ملی اور احساس ہوا کہ برصغیر میں رائج اسلام بڑی حد تک اصل دین سے مختلف ہے۔ میرے ذہن میں بہت سے سوالات تھے اور کچھ جاننے کا تجسس بھی۔ میں نے اپنے طور پر کچھ سمجھنے کی کوشش بھی کی اور جتنا پڑھتا جاتا مزید الجھتا چلا گیا۔ اس تگ و دو میں مختلف مذاہب اور مسالک کا بھی مطالعہ کیا اور جب کبھی زیادہ الجھ جاتا تو شعیب بھائی اور ڈاکٹر یوسف نگرامی کے علاوہ کئی اور علماء سے سوالات کر لیا کرتا اور ان کے جوابات سے بہت آگہی ملتی۔

سعودی عرب میں ایک طویل عرصہ قیام اور ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد شعیب بھائی کئی برس سے اپنے ہونہار بیٹے عقبہ کے ساتھ بحرین میں رہ رہے ہیں۔ بھابھی کے گزر جانے کے بعد اب ان میں پہلی سی شوخی نہیں رہی یوں لگتا ہے کہ حوصلہ ہار بیٹھے ہوں۔ سعادت مند بیٹا ان کی ہر طرح دلجوئی کرتا ہے۔ برج کھلانے بحرین کلب بھی لے جاتا ہے اور اپنے گھر پر شعیب بھائی کے دوستوں کو بھی مدعو کرتا رہتا ہے کہ کسی طرح ڈیڈی کا دل بہلا رہے۔

دعا ہے کہ شعیب بھائی کو صحت اور طویل زندگی عطا ہو اور ہم پر ان کا شفیق سایہ قائم رہے۔

"پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ"

About Anwar Ahmad

Anwar Ahmad is a renowned columnist and writer. His book in urdu "Kuch Khake Kuch Baten" was launched through the courtesy of Art Council, Karachi. Apart from that, Anwar Ahmad's articles and colums in urdu and english are published in different news papers, blogs and on social media plat form. Anwar Ahmad has also participated in various Talk Shows on TV Channels and on FM Radio.

Anwar Ahmad has blantly written on social, cultural, historical, and sociopolitical issues.

Check Also

Riyasat Ke Daimi Idaron Ko Shayad Ab Kuch Naya Karna Pare

By Nusrat Javed