Qazi Hameedullah Khan
قاضی حمیداللہ خان
راقم الحروف کی درس نظامی سے فراغت 2010 کی ہے۔ جب درس نظامی کا آغاز ہو ا تھا، تو گلگت بلتستان بالخصوص ضلع دیامر و کوہستان کے دورہ حدیث کے طلبہ اور نئے فضلاء سے ایک نام بڑی کثرت سے سننے کو ملتا تھا۔ اس نام کے ساتھ ہی علم و حکمت اورفن و فلسفہ کی چند کتابوں کے نام بھی سننے کو ملتے تھے۔ یہ کتب بہر حال درس نظامی کے اٹھ سالہ نصاب کا حصہ نہیں تھیں۔ وہ نام نامی شیخ الحدیث مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ کا تھا۔
عموماً یہ طلبہ "قاضی صاحب، قاضی صاحب" سے اپنے استاد محترم کو یاد کیا کرتے تھےاور جن بڑی خارجی کتب(یعنی درس نظامی کے نصاب سے الگ کتب) کا تذکرہ کرتے ان میں اقیلدس، مطول، صدرا، قاضی، حمداللہ، خلاصہ شرح خیالی قابل ذکر ہیں۔ جن طلبہ نے قاضی صاحب مرحوم سے یہ کتابیں پڑھی تھیں، وہ بڑے فخریہ انداز میں بتایا کرتے تھے۔ بعض دفعہ تو ان طلبہ میں ان خارجی کتب کی تحصیل پر کچھ علمی تفاخر بھی آجاتا۔
سچ کہوں تو مجھے بھی فنون کی کچھ کتب قاضی صاحب ؒ سے پڑھنے کا شوق چڑھا تھامگر پھر شہادۃ العالمیہ سے فراغت کے بعد فوری طورپر پروفیشنل زندگی کا آغاز ہوا، جس کی وجہ سے حضرت قاضی صاحب نوراللہ مرقدہ اور دیگر کباراہل علم سے شرف تلمذ حاصل نہ ہوسکا جس کا قلق ہمیشہ رہے گا۔
قاضی حمیداللہ خان ؒ صوبہ خیبر پختون خواہ کے مشہور گاؤں چاسدہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی ابتدائی تعلیم چارسدہ میں حاصل کی۔ درس نظامی کی اکثر کتب اٹھ سال میں جامعہ دارالعلو م حقانیہ اکوڑہ خٹک میں کبار اہل علم و فن سے پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ دو سال معقولی علوم کی تحصیل کے لیے سوات گئے اور علوم عقلیہ میں مہارت حاصل کی۔ دورہ حدیث شریف کی تکمیل جامعہ اشرفیہ لاہور سے کی جہاں انہیں شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا ادریس کاندھلوی ؒ اور مولانا رسول خان جیسے کبار اہل علم سے استفادہ کا موقع ملا۔
1966 میں، مدرسہ اشرف العلوم گوجرانوالہ میں درس و تدریس کا آغاز کیا اور زندگی کی تمام بہاریں گوجرانوالہ میں علوم نبوت کی تدریس میں گزاری۔ مدرسہ انوارالعلوم گوجرانوالہ کے مہتمم بھی رہے۔ 2002 میں بھاری اکثریت سے قومی اسمبلی کا ممبر بنے۔ مخلوط میراتھن ریس کے حوالے سے پوری دنیا کی میڈیا کا توجہ کا مرکز بنے۔ قاضی مرحوم نے آمر مشرف کے دور میں اپنی کمال فراست سے میرا تھن ریس کی مخالفت کی اور آخری حد تک گئے اور لہولہان ہوئے۔
امیرالمومنین ملا عمر مجاہدؒ نے بھی قاضی مرحوم سے شرف تلمذ حاصل کیا تھا۔ قاضی صاحبؒ سے پاکستان بھر کے طالبان علوم نبوت علمی استفادہ کیا تھا۔ آپ کے تلامذہ ملک کے چبہ چبہ میں علوم نبوت کی تدریس و ترویج کرنے میں منہمک ہیں۔پاکستان کی طرح گلگت بلتستان میں بھی قاضی حمیداللہ خان نوراللہ مرقدہ کا فیض برابر جاری رہا۔ بلاشبہ گلگت بلتستان و کوہستان کے سینکڑوں علماء نے قاضی حمیداللہ خان ؒ سے علوم و فنون کی مدول کتب پڑھی ہیں۔ اور پھر انہیں حضرات نے گلگت بلتستان میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اور بڑے بڑے مدارس و جامعات کا قیام عمل میں لایا ہے۔
2009ء کے گلگت بلتستان کےصوبائی الیکشن میں قاضی صاحب مرحوم گلگت تشریف لائیے اور جمیعت علماء اسلام گلگت بلتستان کے صوبائی اسمبلی کے لیے نامزد امیداروں کی بھرپور کمپیئن بھی کی۔ داریل تانگیر، چلاس اور گلگت کے دورے کیے اور بڑے عوامی اجتماعات سے خطاب کیا۔ گلگت بلتستان کے علماء کرام اور مختلف سیاسی لیڈروں نے حضرت قاضی صاحب سے ملاقاتیں بھی کی۔ بہت سارے لوگ قاضی صاحب ؒ کے بیانات اور علمی و سیاسی خیالات سے مستفید بھی ہوئے اور ان کی دلیرانہ اور بے خوفی پر عش عش بھی کرنے لگے۔
گلگت بلتستان میں حضرت قاضی ؒ کے سینکڑوں تلامذہ موجود ہیں۔ ان میں چند ایک کا مختصر تعارف اور دینی خدمات کے ساتھ قاضی حمیداللہ خانؒ پر ان کے تاثرات قلمبند کرتے ہیں۔گلگت بلتستان کے سب سے معروف عالم دین، اہل سنت والجماعت گلگت بلتستان و کوہستان کے امیر، مرکزی جامع مسجد گلگت کے خطیب، سب سے قدیم اور بڑی دینی درسگاہ جامعہ نصرۃ الاسلام گلگت کے رئیس، فاضل دیوبند حضرت مولانا قاضی عبدالرزاق ؒ کے فرزند ارجمند اور میرے بزرگ و شفیق دوست حضرت مولانا قاضی نثاراحمد صاحب حفظہ اللہ نے بھی قاضی حمیداللہ خان ؒ سے کافی عرصہ تعلیم حاصل کیا ہے۔
قاضی نثاراحمد صاحب اپنے استاد محترم کے حوالے سے انتہائی نیک جذبات رکھتے ہیں۔ وہ قاضی صاحب مرحوم پر اپنے مستقل تاثرات قلم بند کررہے ہیں تاہم میرے استفسار پرانہوں نے اپنے تاثرات نوٹ کرواتے ہوئے کہا " حضرت استاد محترم انتہائی شفیق تھے۔ مجھ ناچیز سے انتہائی محبت سے پیش آتے تھے۔میں نے قاضی حمیداللہ خان ؒ سے درجہ سادسہ کی کتب کے علاوہ منطق و فلسفہ میں اقیلدس، مطول، صدرا، قاضی، حمداللہ، خلاصہ شرح خیالی اور توضیح تلویح پڑھی ہیں۔ استاد محترم کی درس اور خطابت میں بہت گرفت تھی۔ مشکل اسباق کو انتہائی سہل انداز میں پیش کرتے تھے۔
طلبہ کے ساتھ اولاد و الا معاملہ فرماتے تھے۔ حوصلہ دیتے تھے۔ طلبہ میں تحریکی شعور بیدار کرتے اور انہیں دینی خدمات پر ابھارتے تھے۔ طلبہ کو چھٹیوں میں بھی پڑھاتے تھے۔ میں نے خود حضرت ؒ سےکچھ کتابیں سالانہ تعطیلات میں بھی پڑھا ہے۔ تعطیلات میں دن بارہ بجے تک تفسیر میں بیٹھتا تھا، شام کے وقت حضرت سے فنون کی کتابیں پڑھتا ر ہا ہوں۔ وہ پڑھانے کے بڑے دلدادہ تھے۔ تدریس میں انہیں سکون ملتا تھا اس لیے دن بھر پڑھاتے مگر چہرے پر تھکن محسوس نہیں ہوتی۔ عوام اور علماء سب کے لیےان کے دروس یکساں مفید ہوتے تھے۔
میں حضرت کی غیر موجودگی میں جمعہ بھی پڑھایا ہے۔ حضرت ؒ نے مجھے جمعہ پڑھانے کا حکم دیا تھا۔ میں بہت دفعہ حضرت استاد ؒ کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا ہوں۔ حضرت گلگت تشریف لائے تو بھی تفصیلی ملاقاتیں ہوئی۔ مجھ سے بہت خوش ہوئے۔ جب گلگت سے واپس جارہے تھے تو ائیر پورٹ تک میری گاڑی میں بیٹھے اور دعائیں دی۔"۔مولانا مفتی شیرزمان صاحب مہتمم جامعہ دارالعلوم غذر گاہکوچ بھی حضرت قاضی صاحبؒ کے جید تلامذہ میں ایک ہیں۔ مفتی شیرزمان صاحب کا تعلق ضلع غذر سے ہے۔
مفتی صاحب نے 1995 میں جامعہ دارالعلوم سے فراغت حاصل کی اور 1996 میں دارالافتاء والارشاد ناظم آباد سے مفتی رشیداحمد صاحب نوراللہ مرقدہ سے تخصص الفقہ مکمل کیا1998میں ضلع غذر میں جامعہ دارالعلوم غذر کا سنگ بنیاد رکھاجہاں ابھی بنین و بنات کا بڑی تعداد زیر تدریس ہے۔ سات سو کے قریب رہائشی طلبہ و طالبات علوم نبوت سے مستفید ہورہے ہیں۔ مفتی شیرزمان نے 1992 میں قاضی حمیداللہ خانؒ سے منطق میں قاضی حمداللہ، خیالی، صدرا اور بلاغت و معانی میں مختصرالمعانی، مطول، تلخیص پڑھی ہیں۔
مفتی شیرزمان صاحب نے قاضی حمیداللہ خانؒ کے متعلق فرمایا: "سبق کا مضمون بہت اچھے انداز میں پیش کرتے۔ دریا کو کوزے میں بند کرتے۔ ان کو کتابیں از بر تھی۔ عام فہم انداز میں پڑھاتے۔ والد کی طرح شفیق تھے اور اخلاقی تربیت بھی کرتے تھے۔ جب استاد محترم کی والدہ کا انتقال ہوا تو گھر میرے حوالہ کیا تھا۔ صفائی ستھرائی کی ذمہ داری بھی دی تھی۔ گھر بہت سادہ تھا گویا کہ دیہاتی لوگوں کی طرح ان کا رہن سہن تھا۔ استاد محترم کو سلام عرض کرنے وقتا فوقتا گوجرانوالہ حاضر ہوتا رہا ہوں۔ بیماری کے دوران خصوصی عیادت کے لیے گیا تھا۔ میرے ساتھ کوہستان کے معروف عالم دین مولانا دلدار صوبائی ممبراسمبلی کے پی کے، مولانا بشیر پنکھڑ(مدرس)، مولانا ابراہیم پٹن(مدرس) اور مولانا عبدالقدوس پٹن (مدرس) میرے ہم درس تھے۔ اس کے علاوہ ضلع دیامر کے کئی علماء نے قاضی حمیداللہ خان سے شرف تلمذ حاصل کیا ہے"۔
ڈاکٹر محمد نصیر جامعہ دارالعلوم کراچی کے 2001 فاضل ہیں۔ کراچی یونیورسٹی سے اصول دین میں ایم اے اور 2019 میں کراچی یونیوسٹی سے پی ایچ ڈی مکمل کیا اور کراچی میں 14 سال مسلسل مدرسہ نعمانیہ میں تدریس کی۔ گوہرآباد سے ان کا تعلق ہے۔ گومل یونیورسٹی شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے 1995 میں قاضی صاحب سے پڑھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اور مولانا جانباز گوہرآباد درکل والے نے خصوصیت کے ساتھ قدوری کا کتاب البیوع قاضی ؒ سے پڑھنے کی سعادت حاصل کی ہے۔
ڈاکٹر محمد نصیر نے حضرت قاضی صاحب ؒ کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا:"مولانا جانباز اور مجھے1995 میں مظاہرالعلوم میں، درجہ ثالثہ کی کافیہ اور شرح تہذیب پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ میں نے حضرت سے قدوری کی کتاب البیوع الگ سے پڑھنے کی درخواست کی تو استاد فرمایانے فرمایا" آؤ چلاسی ملا، آپ دونوں کو کتاب البیوع شروع کرواتا ہوں کرکے پڑھایا، حضرت انتہائی شفیق، ہمدرد اور علم دوست تھے، حضرت چاہتے تھے کہ چھوٹا یا بڑا طالب علم جو ان کے پا س پڑھنے کے لیے آتا وہ پڑھانے میں کبھی بھی تامل نہیں کرتے بلکہ ہر ایک کو پڑھاتے۔"
مولانا عبدالبر کا تعلق چلاس بٹوکوٹ سے ہے۔ دارالعلوم چلاس نزد ڈگر کالج چلاس کے مہتمم ہیں۔ مدرسے کا دوسرا کیمپس گیٹی داس میں ہے۔ 2007ء ک انہوں نے دارالعلوم چلاس کا سنگ بنیاد رکھا۔ عبدالبرصاحب نے مولاناقاضی حمیداللہ جان سے 2003 سے 2006 تک تعلیم حاصل کی ہے۔ 2006 میں قاضی صاحب سے بخاری شریف پڑھ کر درس نظامی سے فراغت حاصل کی ہے۔ مولانا عبدالبرصاحب تدریس کے بہت شوقین ہیں۔ منطق کی کتب و رسائل، ہدایہ اولین وآخرین، کافیہ و ہدایت النحو اور دیگر فنون کی تدریس کرتے ہیں۔ مولانا عبدالبر صاحب نے قاضی حمیداللہ خان ؒ کے متعلق کہا:
" میں نے بہت سارے علماء و شیوخ سے تعلیم حاصل کی ہے مگر سچی بات یہ ہے کہ قاضی حمیداللہ خانؒ سے بہتر اور اچھا مدرس پوری زندگی میں کسی کو نہیں پایا۔ وہ صحیح معنوں میں اکابرین دیوبند اور سلف صالحین کا جانشین تھا، اکابر کی سوانحی علوم میں تدریس کے حوالے سے جو اوصاف پڑھے ہیں وہ تمام کے تمام قاضی ؒ کی تدریس میں پائے جاتے تھے۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں حضرت قاضی صاحبؒ کے تدریسی اور علمی اوصاف بیان کروں۔
میں نے قاضی ؒ سے ہدایہ اولین و آخرین، بخاری شریف، قاضی حمداللہ، مسلم الثبوت، خیالی پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔"قاضی صاحب کے گلگت بلتستان میں سارے تلامذہ ہیں۔ مولانا امان اللہ ہڈرو دیامر، مولانا محبت شاہ گیس گوہرآباد وغیرہ کی ایک لمبی فہرست ہے۔برادرم شیبر میواتی صاحب کا ممنون و مشکور ہوں کہ انہوں نے ایک صاحب علم انسان پر لکھنے کا داعیہ پیدا کیا۔ مسلسل مجھے یاد دلاتے رہے۔ تب گلگت بلتستان میں حضرت والا کے فیضان پر چند حرف جوڑنے کا موقع ملا، جو قاضی صاحب ؒ کی شخصیت پر پبلش ہونے والے خصوصی نمبر میں شائع ہونگے۔
عمومی طور پر ریاست و حکومت کی طرح اہل علم و فن اور ذرائع ابلاغ کے احباب بھی گلگت بلتستان کو نظرانداز کرتے ہیں لیکن میواتی صاحب جیسے دل والے لوگ گلگت بلتستان کو بھی اپنی علمی و قلمی کاوشوں میں شامل کرتے ہیں۔ اس پر اللہ رب العزت انہیں جزائے خیر دے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ قاضی حمیداللہ خانؒ کے درجات بلند فرمائے، ان کے فیوض و برکات سے دنیا بھر کی طرح گلگت بلتستان کو بھی منور کرے اور میواتی بھائی کی علمی وقلمی کاوش کو قبول فرمائے اور چند حرف جوڑنے پر ہمیں بھی اجر دے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔