Molana Fazal Ur Rehman Sahib Ki Power Politics
مولانا فضل الرحمن صاحب کی پاور پالیٹکس
پاکستان کی سیاسی جماعتیں عمومًا اقتدار کی سیاست یعنی پاور پالیٹکس کی ہی علمبردار ہیں، اور اس حوالے سے مجھے کبھی کوئی شُبہ نہیں ہوا۔ یہاں ایک اہم فرق نظری اور عملی سیاست کے درمیان موجود ہے، جسے سمجھنا ضروری ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں بلند نظریات اور اصولی اہداف تو بیان کرتی ہیں، لیکن جب عملی سیاست کا میدان ہوتا ہے، تو ان نظریات کو پش پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ حقیقت میں، پاکستان میں سیاست عملی طور پر پاور پالیٹکس کے اصول پر چلتی ہے اور کوئی جماعت اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
دینی جماعتیں بھی اس سیاست سے الگ نہیں ہیں، بلکہ ان کا کردار بھی اسی پاور پالیٹکس کا حصہ بن چکا ہے۔ بحیثیت ایک طالب علم کے، میں پاکستانی سیاست کو خاص طور پر دینی جماعتوں کی سیاست اور ان کی حکمت عملیوں کو گہرائی سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس ضمن میں مولانا فضل الرحمن کی شخصیت اور سیاست ہمیشہ سے میری توجہ کا مرکز رہی ہے اور بہت ساری چیزیں وقتاً فوقتاً لکھتا رہتا ہوں۔ مولانا کی جماعت کے گلگت بلتستان چیپٹر کو بھی باریک بینی سے دیکھتا ہوں اور ان پر بھی تبصرہ و تجزیہ اور بعض دفعہ مشورے بھی دیتا رہتا۔ اسے مجھے فرق نہیں پڑتا کہ مولانا کے لوگ ان تجزیوں و مشوروں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں یا ہنسی میں اڑا دیتے ہیں۔ بہرحال میں اپنا کام کرتا رہتا۔
پاکستانی سیاست میں اقتدار کی سیاست، یا پاور پالیٹکس، ہمیشہ سے مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ اس پاور پالیٹکس کا مظہر دینی جماعتیں بھی ہیں، جن کا سیاسی کردار اکثر اور بیشتر اقتدار کے حصول یا اثر و رسوخ بڑھانے کے گرد گھومتا ہے۔ میرے نزدیک یہ برائی نہیں، کیونکہ پاکستان میں سیاست ہی اسی لئے کی جاتی ہے تو برائی چہ معنی دارد۔
اس تناظر میں مولانا فضل الرحمن کی شخصیت اور سیاست ایک اہم مثال ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنی سیاسی زندگی میں ہمیشہ پاور پالیٹکس کا ہنر مندی سے استعمال کیا ہے۔ ان کی سیاست کا محور اقتدار کے مراکز میں اپنے جثہ یعنی ممبران کی تعداد سے زیادہ جگہ بنانا اور اپنے مخالفین کو زیر کرنا رہا ہے، اور وہ اس فن میں یدطولی' رکھتے ہیں، یہ کوئی برائی نہیں بلکہ سیاست کا حصہ اور تقاضہ ہے۔ مولانا کے پاس مختلف سیاسی ہتھیار اور کارڈز ہیں، جو وہ اپنی مہارت سے وقت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کی سیاست میں ایک بہت بڑا سیاسی کارڈ دینی مدارس کا نیٹ ورک ہے۔ وہ ان مدارس کو نہ صرف مذہبی تعلیم کے ادارے سمجھتے ہیں بلکہ سیاسی طور پر ایک مضبوط اڈے کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں اور اعلانیہ خود کو ان کا محافظ سمجھتے ہیں اور ان کے لئے ہر جگہ یہاں تک کہ اسمبلیوں میں بھی آواز بلند کرتے ہیں۔ یہ مدارس لاکھوں طلباء اور ان کے خاندانوں کو مولانا کے سیاسی اثر و رسوخ کے دائرے میں لے آتے ہیں۔ مدارس کے علماء کی مدد سے مولانا مذہبی ووٹرز کے بڑے طبقے کو اپنی طرف مائل رکھتے ہیں، جس کا عملی مظاہرہ کئی انتخابات میں دیکھنے کو ملا ہے، مولانا مدارس دینیہ کے کندھے پر رکھ کر اسٹیبلشمنٹ کو بھی مکا دکھا دیتے ہیں اور جب مولانا کا مکا لہرا رہا ہوتا ہے تو اسٹیبلشمنٹ کے ایوانوں میں ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔
دوسرا اہم کارڈ آئین پاکستان ہے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب آئین کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مولانا کے آئینی تناظر اتنے زیادہ ہیں کہ خود آئینی ماہرین ان تناظرات کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ آئین کے تحت کام کرنے اور آئینی حقوق کے تحفظ کا نعرہ بلند کیا ہے، جس سے وہ جمہوریت کے داعی اور مذہبی حقوق کے محافظ کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ یہ نعرہ ان کے سیاسی کیمپ میں مختلف طبقوں کو شامل کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کی پاور پالیٹکس کی ایک واضح مثال ان کی قیادت میں جمعیت علمائے اسلام کی 2019 کی آزادی مارچ ہے۔ اس مارچ کا مقصد حکومت کے خلاف دباؤ ڈالنا اور وزیراعظم عمران خان کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنا تھا۔ مولانا نے دینی مدارس کے طلباء اور دیگر کمیٹیڈ کارکنوں کو اپنے ساتھ لے کر اسلام آباد کی طرف مارچ کیا، جس نے حکومت کو سیاسی دباؤ میں مبتلا کر دیا۔ یہ مارچ ایک اہم سیاسی چال تھی جس سے مولانا نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور حکومت کو مجبور کیا کہ وہ ان کی موجودگی کو سنجیدگی سے لے۔ اس مارچ نے طاقت کے ایوانوں کو بھی واضح پیغام دیا کہ تم بند کمروں میں درست فیصلے نہیں کررہے ہو، لہذا اپنا منہج بدل لو بلکہ سدھر جاؤ۔
اسے پہلے مشرف دور میں بھی متحدہ مجلس عمل کی شکل میں مولانا نے اپنی پاور پالیٹکس کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا۔ تب حکومت کیساتھ تمام دینی سیاسی جماعتوں کو بھی اپنا تابع بنا لیا تھا۔
مولانا کی پاور پالیٹکس کی ایک اور حالیہ مثال 2022 کی سیاسی حالات ہیں، جب مولانا نے حکومت میں شامل ہوتے ہوئے سیاسی بساط پر اپنے کارڈز کا استعمال کیا۔ جب اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو گرانے کی کوشش کی، تو مولانا اس اتحاد میں شامل ہو گئے اور حکومت کی تبدیلی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس وقت مولانا نے سیاسی مفاہمت کے ساتھ ساتھ اپنی پارٹی کے لیے اہم حکومتی عہدے بھی حاصل کیے، جس سے ان کی پاور پالیٹکس کی مہارت ایک بار پھر ظاہر ہوئی۔
مولانا فضل الرحمن کی سیاست کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ وہ اپنی حریف جماعتوں کو بھی اکثر سیاسی چالوں میں الجھا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جب دیگر سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ مولانا پسپائی اختیار کر چکے ہیں، یا ان کی سیاست ختم ہوچکی ہے یا انہیں جبری اسمبلیوں سے باہر رکھ کر زیرو کر دیا گیا ہے تو وہ اچانک ایسی چال چلتے ہیں جو انہیں دوبارہ مرکزِ اقتدار میں لا کھڑا کرتی ہے۔ ان کی سیاسی حکمت عملی اکثر سیاسی میدان کو الجھا کر رکھ دیتی ہے اور ان کے حلیف و حریف دونوں ہی ان کی چالوں کا اندازہ لگانے میں ناکام رہتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کی پاور پالیٹکس کے یہ چند نمونے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی سیاست کے ایک ایسے کھلاڑی ہیں جو وقت کے ساتھ اپنی چالوں اور سیاسی تدابیر سے اقتدار کے قریب رہتے ہیں اور اپنے مخالفین کو مات دیتے ہیں۔ مولانا کی سیاسی مہارت اور ان کی پاور پالیٹکس کی حکمت عملی پاکستانی سیاست میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے، اور آنے والے وقتوں میں بھی ان کی یہ سیاست مختلف انداز میں جاری رہے گی۔
مولانا کی پاور پالیٹکس کی ایک نمایاں خصوصیت ان کی سیاسی تدابیر اور وقت کا درست انتخاب ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کون سی چال کب چلنی ہے اور کس طرح اپنے حلیف اور حریف دونوں کو حیران کرنا ہے۔ جب مولانا اپنے پتے کھیلتے ہیں، تو ان کے مخالفین اور اتحادی دونوں ہی ورطہ حیرت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں مولانا نے جو سیاسی گیم کھیل کر سب کو حیران کیا ہے، وہ ان کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حزب اقتدار اور اختلاف کے دونوں گروہ مولانا کے پاس حاضری دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ کیا اس سے بھی بڑی سیاسی مہارت اور پاور پالیٹکس کا درست استعمال کوئی اور کرسکتا ہے؟ مولانا نے حالیہ ہفتوں میں حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ ان کی شرائط پر مذاکرات کرے، اور اس دوران انہوں نے اپنی سیاسی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور اپوزیشن کے اپنے شدید ترین مخالفین کو بھی نماز میں اقتداء کراکر تصاویر وائرل کروالی گئی اور اب وہ لوگ دیر تک ان زخموں کو خجلاتے رہیں گے اور مولانا اپنی مخصوص مسکراہٹ سے سب کی ہنسی اڑاتے رہیں گے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی سیاست پاور پالیٹکس کی ایک واضح مثال ہے، مولانا کے یہ سیاسی حربے اور حکمت عملیاں پاکستانی سیاست میں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں اور ان کی حکمتوں اور سیاسی حرکیات کا انداز مستقبل میں بھی کئی سیاستدانوں کے لیے سبق آموز رہے گا۔