Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amirjan Haqqani
  4. Masroofiyat Aur Pesha Warana Maharat Mein Sukoon

Masroofiyat Aur Pesha Warana Maharat Mein Sukoon

مصروفیت اور پیشہ وارانہ مہارت میں سکون

یہ انسانی کی فطرت ہے کہ وہ مصروف رہے اور اپنی توانائیاں مثبت سرگرمیوں میں استعمال کرے۔ اگر ہم لوگوں کو صحیح راہ دکھا کر، مفید کاموں میں مشغول رکھیں، تو نہ صرف وہ خود بہتر بنیں گے بلکہ پوری ریاست کا ماحول بھی مثبت ہوگا۔ ماضی کی ترقی یافتہ اور حال کی ترقی یافتہ قوموں کا مطالعہ یہی بتاتا ہے۔

اگر کسی نوجوان کو کام میں مصروف رکھا جائے، تو وہ اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے اور اپنی شخصیت کو نکھارنے میں لگا رہتا ہے۔ اس کی تخلیقی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں اور وہ معاشرے کا ایک مفید فرد بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس، بے کاری انسان کو نہ صرف بیزاری کی طرف لے جاتی ہے بلکہ اسے منفی سرگرمیوں میں بھی مبتلا کر سکتی ہے۔ ہمارے سماج کی بنت ہی بے کاری پر منتج ہے۔ بے کاری کا یہ عملی درس انہیں گھر ہی سے ملنا شروع ہوجاتا ہے۔

اس کے علاوہ، جب لوگ اجتماعی کاموں میں حصہ لیتے ہیں تو ان میں بھائی چارہ اور محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی کمیونٹی کے لوگوں کو تعمیری سرگرمیوں میں مشغول کریں تاکہ وہ اپنی توانائیاں ریاست کی ترقی میں لگا سکیں اور ایک خوشحال اور پر امن معاشرہ تشکیل دیں۔

مصروفیت میں سکون اور خوشی ہے، اور مصروفیت ہی انسان کو بے راہ روی سے بچاتی ہے۔ ریاست کی ترقی اور امن کے لئے لوگوں کو کام اور ایکٹیوٹیز میں مشغول رکھنا ناگزیر ہے۔

یہ عمومی باتیں ہیں۔ اب ہم کچھ باتیں پروفشنل احباب کے لئے عرض کیے دیتے ہیں۔ یہ بدیہی حقیقت ہے کہ پیشہ ورانہ مصروفیت ہی کامیابی کی کلید ہے۔ بلکہ کلید اعظم ہے۔

پیشہ ورانہ زندگی میں ترقی اور کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ ہر فرد اپنے پیشے سے متعلق سرگرمیوں میں مستقل مشغول رہے۔ یہ نہ صرف اس کی ذاتی ترقی کا باعث بنتی ہے بلکہ ادارے اور معاشرے کی بھی بھلائی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

جب پیشہ ور افراد اپنے کام سے جڑے رہتے ہیں تو ان کی مہارتوں میں نکھار آتا ہے۔ مسلسل مشق اور تجربے سے وہ اپنی فیلڈ میں ماہر بن جاتے ہیں، جو نہ صرف ان کے ذاتی کیریئر کے لئے مفید ہے بلکہ ان کے ادارے کی کارکردگی کو بھی بڑھاتا ہے۔ ایک ڈاکٹر جو اپنی تعلیم اور تجربے میں مسلسل اضافہ کرتا ہے، وہ بہتر علاج فراہم کر سکتا ہے۔ اسی طرح، ایک انجینئر جو جدید تکنیکوں اور ٹیکنالوجیز سے واقف ہوتا ہے، وہ بہترین منصوبے بنا سکتا ہے۔ ایک استاد جو تدریس کے نت نئے طریقے سیکھ کر ہی بہترین استاد بن سکتا ہے۔ بلکہ ایک استاد کو اکیسویں صدی میں تدریسی میتھڈ پر عبور ہونا چاہیے۔

پیشہ ورانہ سرگرمیاں مشغولیت کا ایک بہترین ذریعہ ہیں جو پیشہ ور افراد کو بے کار اور منفی سرگرمیوں سے دور رکھتی ہیں۔ جب افراد اپنی مہارتوں کو بہتر بنانے اور نئے چیلنجز قبول کرنے میں مشغول رہتے ہیں، تو ان کے اندر ایک مثبت جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ خود کو معاشرے کا مفید حصہ سمجھتے ہیں اور اپنی خدمات کو بہتر انداز میں پیش کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب اپنی پیشہ وارانہ مہارتوں اور مصروفیات کو چھوڑ کر، اپنے حدود سے تجاوز کیا جاتا ہے تو پھر ناکامی لازم ہوتی ہے۔ معاشرے بگڑتے ہیں اور ریاست زوال پذیر ہوتی ہے۔

پیشہ ورانہ دنیا میں ہر فرد کی مہارت اور علم ایک خاص دائرے میں محدود ہوتا ہے۔ جب لوگ اپنے مخصوص پیشے سے ہٹ کر دوسرے پیشوں میں قدم جما لیتے ہیں تو یہ عموماً تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ ہر پیشہ اپنی جگہ ایک سائنس اور فن ہے، جسے سیکھنے اور سمجھنے میں برسوں لگتے ہیں۔ اور برسوں کے بعد ہی کوئی کندن بن جاتا ہے۔

ایک ڈاکٹر کا کام مریضوں کا علاج اور مرض کی تشخیص کرنا ہے، لیکن اگر وہ انجینئرنگ کے میدان میں قدم رکھے، تو وہ نہ تو صحیح طریقے سے علاج کر سکے گا اور نہ ہی انجینئرنگ کے مسائل کو حل کر پائے گا۔ اسی طرح، ایک انجینئر کو اگر وکالت کی ذمہ داریاں سونپ دی جائیں، یا وہ خود سے وکیل بننے کی ایکٹنگ کرے گا تو وہ قانونی پیچیدگیوں میں الجھ کر رہ جائے گا۔ انجینئرنگ کا شعبہ بہر حال تباہ ہوگا۔

ایک استاد تدریس و تربیت کا کام چھوڑ کر سیاست کرنے لگے تو سیاست کا بیڑہ غرق ہوجائے گا۔ لیکن تعلیم تو ہوگی ہی برباد۔

ایک فوجی سرحدوں کی حفاظت چھوڑ کر تعلیم، سیاست، معیشت اور داخلی معاملات کو چھیڑنے لگے گا تو ریاست کا زوال پذیر بننا لازمی ٹھہرتا ہے۔

ایک عالم تحقیق و تدریس اور اجتہاد و تفقہ کا کام چھوڑ کر فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوگا تو دین کا نقصان ہوگا۔ ہمارے ہاں یہ نقصان بھی روز ہوتا رہتا ہے۔

اگر ریاست کے یہ بنیادی اجزاء و اراکین مل کر ناچ گانے اور ڈھول باجوں کی محفلیں جمائے، ان کی نگرانی کریں، بجٹ صرف کریں اور اس پر اترائیں بھی تو پھر "طاوس و رباب آخر" والی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔

یاد رہے کہ تفریحی محافل کا انعقاد کرنے کی ذمہ داری بھی اس پیشہ سے منسلک مخصوص لوگوں اور اداروں اور انجمنوں کی ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک بھی یہی لوگ تفریحی محافل جماتے ہیں۔ دیگر پیشوں اور محکموں سے منسلک لوگ نہیں۔

تعلیمی، سیاسی، انتظامی، عسکری اور افسرشاہی کا کام نہ مخلوط و غیر مخلوط محافل کا انعقاد کرنا ہے اور نہ ہی ناچ گانے کی رنگین محفلیں جمانا ہے۔ جن کا کام انہیں کو ساجھے۔ مگر ہمارے ہاں الٹ ہوتا ہے۔

ہر پیشے کے ماہرین اپنی جگہ پر ہی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔

پیشہ ورانہ تباہی کی وجہ یہ ہے کہ ہر فیلڈ میں مہارت اور تجربہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرے پیشے میں قدم رکھنے سے نہ صرف اس فرد کی اپنی کارکردگی متاثر ہوتی ہے بلکہ اس کے آس پاس کے لوگوں اور ادارے پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک ناتجربہ کار شخص کسی بھی شعبے میں داخل ہو کر صرف نقصان کا باعث بنتا ہے، جس سے اس کی اپنی ساکھ اور دوسروں کا بھروسہ دونوں مجروح ہوتے ہیں۔

پیشہ ورانہ حدود کی پابندی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہر کام کو اس کے ماہرین پر چھوڑ دیا جائے۔ جب ہر فرد اپنے مخصوص میدان میں کام کرے گا اور اپنی مہارت کو بہتر بنائے گا، تو ہی معاشرے میں توازن اور ترقی ممکن ہو سکے گی۔ پیشے کی حدود کا احترام نہ صرف فرد کی کامیابی بلکہ مجموعی طور پر معاشرے اور ریاست کی بھلائی کے لئے بھی ضروری ہے۔

لہٰذا، ضروری ہے کہ ہم اپنے پیشے سے وفادار رہیں اور اپنی مہارتوں کو بہتر بناتے رہیں۔ غیر متعلقہ پیشوں میں مداخلت صرف تباہی کا پیش خیمہ ہے، اور اس سے بچنے کے لئے ہمیں اپنے میدان میں محنت اور لگن کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔

اس کے علاوہ، پیشہ ور افراد کی مصروفیت ان کی ذہنی صحت کے لئے بھی فائدہ مند ہے۔ کام میں مصروف رہنے سے انسان کا ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے اور اسے اپنی صلاحیتوں پر اعتماد آتا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں معنویت محسوس کرتے ہیں اور ان کی خوشی میں اضافہ ہوتا ہے۔

لہٰذا، ضروری ہے کہ ہم اپنے پیشہ ور افراد کو ان کے پیشے سے متعلق سرگرمیوں میں مصروف رکھیں تاکہ وہ اپنی مہارتوں کو بہتر بنا سکیں اور معاشرے میں ایک مثبت کردار ادا کریں۔ پیشہ ورانہ مصروفیت ہی کامیابی کی کلید ہے جو نہ صرف فرد بلکہ پوری ریاست کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہے۔

Check Also

Hum Wohi Purane Lutere Hain

By Muhammad Salahuddin