Goharabad Ka Nirala Pan o Infiradiat
گوہرآباد کا نرالا پن و انفرادیت
آج پڑی بنگلہ میں راقم کے گھر گوہرآباد گیس سے تعلق رکھنے والے پڑی بنگلہ تھانہ کے تھانیدار میراجان صاحب اور پڑی کے کچھ علماء و احباب افطاری کے لیے مدعو تھے۔ گھنٹہ بھر نشست رہی۔ مرکزی موضوع گوہرآباد اور اسکی سماجی صورت حال ہی رہا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ گوہرآباد پورے جی بی میں چند خصوصیات میں سب پر بھاری اور سب پر فائز اور انفرادی پہچان رکھتا ہے۔
سماجی رواداری، اخوت، ہم آہنگی اور درد و بُنت کے اعتبار سے اب بھی گوہرآباد واقعی مثالی پوزیشن میں ہے۔ سیاسی ابتری، رنگارنگی، نیرنگی اور اتھل پھتل کے باجود گوہرآباد کا سماجی سٹرکچر اور انت بُنت واقعی آئیڈیل صورت حال میں ہے۔ بہت سی کمزوریاں دُر آئی ہیں مگر بہرحال صورت حال قابل اطمینان ہے۔
مثلاً گوہرآباد میں کرائم کا ریٹ زیرو ہے۔ اگر کوئی پولیس کیس ہو تو پولیس اطلاع بھیجتی کہ فلاں بندہ تھانہ آجائے اور وہ پہنچ جاتا ہے۔ چھاپے مارنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
شرح خواندگی بہت بہتر ہے۔ اعلی آفیسران کی بہتات ہے۔ چوری چکاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ بدیسی لوگ کوئی نہیں۔ باہر کے لوگوں کو زمین کوئی نہیں بیچتا۔ باہر کے لوگ گوہرآباد میں رہ بھی نہیں سکتے۔ علاقہ انتہائی پُرامن ہے۔ غریب پر کوئی ظلم نہیں کرتا۔ اگر کوئی کرے تو سب مل کر اس کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔
لڑائی جھگڑے کی صورت میں کم لوگ تھانہ تک جاتے ہیں، ورنا وہی گاؤں میں جرگہ داران، ویلیج امن کمیٹی اور دیگر معتبرین معاملہ رفع دفع کرتے ہیں۔ اب تک گوہرآباد کے مرکز یا کسی بڑے گاؤں میں تھانہ یا پولیس چوکی نہیں۔ اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے۔ دور تھلیچی میں تھانہ ہے۔
گوہرآبادی ایک دفعہ دوستی کا ہاتھ ملائے تو کسی صورت دھوکہ نہیں کرتے۔ مفادات کی حد تک دوستی نہیں کرتے۔ خواتین انتہائی محنت کش ہیں۔ بڑے شہروں میں اعلی آفیسران کی پڑھی لکھی بیویاں، بہوئیں اور بیٹیاں بھی اپنے صحن میں اعلی قسم کی سبزیاں اور کیاریاں اگاتی ہیں اور اکثر کے پاس گائے بھی ہوگی۔ گاؤں میں تو یہ عام باتیں ہیں۔
خواتین شاپنگ اور مختلف ڈیمانڈز کے ذریعے شوہر کو کنگال نہیں کرتی۔ گوہرآباد میں خواتین کا حد درجہ احترام ہے۔ خواتین پورے گوہرآباد میں بے دھڑک کہیں بھی جاتی ہیں۔ کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا، نہ ہی جمگھٹے بناکر کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے کا رواج ہے۔
گوہرآباد میں کھبی یہ مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوتا کہ گھر میں کوئی مرد نہیں ہے تو بچوں اور خواتین کو کوئی مسئلہ ہے یا ڈر لگ رہا ہے یا کوئی خطرہ ہے۔ اگر گھر کا مرد بغرض تبلیغ، کام یا نوکری علاقے سے باہر ہے تو خواتین کو کھیتوں میں ہل چلانے، کھیتوں کو پانی دینے، کھیت کھلیان کے دیگر کاموں میں کھبی دقت نہیں ہوتی۔ ہمسایہ اور دیگر رشتہ دار یا اہل علاقہ خوش اسلوبی سے یہ کام انجام دیتے رہتے ہیں۔ کوئی معاوضہ لینے کا سوال ہی نہیں۔
خواتین جتنی محنت کش ہیں مرد اتنے ہی لاپرو بھی ہیں۔ سچ کہوں تو گوہرآباد میں خواتین کی وجہ گھروں کی رونق اور رزق میں برکتیں ہیں ورنا عورتوں کے مقابلے میں، مرد فضول خرچ بھی ہیں اور لاپروا بھی۔ غیرت کے نام پر عشروں میں کوئی قتل ہوتا ہوگا۔ ورنا اس جرم کا فیصد بھی زیرو ہی ہے۔ اکثر لوگ بہنوں کو وراثت میں حصہ دیتے ہیں۔ کم یا زیادہ، کسی نہ کسی شکل میں بہر حال دیا جاتا ہے۔
گوہرآباد میں اگر آپس میں ناراضگی ہو تو شادی بیاہ یا فوتگی کے دنوں میں ایک دوسرے کے پاس پہلی فرصت میں پہنچ کر ختم کر دیا جاتا۔ پھر سب شیر و شکر۔
لوگ رمضان میں اپنا تھلتاپو گھی میں بگھو کر مسجد پہنچتے ہیں۔ وہ سب مل کر افطاری کرتے، مسافروں کے بھی وارے نیارے ہوتے۔ اگر کوئی مرد مسجد نہ بھی جائے تو تھلتاپو (دیسی گھی میں بگھوئی ہوئی گرم روٹی) بچوں کے ذریعے خواتین مسجد پہنچا دیتی ہیں۔
مساجد میں لکڑی خریدی نہیں جاتی بلکہ خواتین گھروں سے بچوں اور مردوں کیساتھ بھجوا دیتی ہیں۔ تبلیغی جوڑ ہو تو خواتین ہر قسم کے کھانے حسب استطاعت پکا کر مساجد پہنچاتی ہیں۔ گوہرآباد میں بڑے بڑے گھر بنانے کا رواج نہیں۔ معمولی سے گھروں میں جوائنٹ فیملیز اتفاق سے رہتی ہیں۔ ایک ہی جگہ (کوٹ) تمام قبائل کے لوگ صدیوں سے رہتے ہیں۔ گھر اور مکان کی دیوار لگی ہوتی ہے۔ اب کچھ کچھ الگ جگہوں میں مکانات بننے لگے ہیں۔
زمینیں آج بھی سب قبائل کی ساتھ ساتھ ہیں۔ کھیتی باڑی اور کھیلیان وغیرہ میں کوئی ایشو پیدا نہیں ہوتا۔ نہ پانی دینے میں۔ البتہ پانی کی قلت ہو تو بھائی بھائی سے بھی الجھتا ہے مگر کھیتی باڑی کے کاموں میں قبائلی و سماجی مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ چھوٹے موٹے معاملات ہوں بھی تو فوراً صلح کروا دی جاتی ہے۔
کسی بھی قیمت پر اولاد کو تعلیم دلائی جاتی ہے۔ اب تو لڑکیوں کی تعلیم پر بھی انتہائی زور دیا جاتا ہے۔ گوہرآباد میں بظاہر قبائلی تعصب زیرو فیصد ہے۔ سیاسی تعصبات کی بات البتہ الگ ہے۔ وہ تعصبات موسمی کھمبیوں کی طرح ہوتے ہیں جو جلد مرجھا جاتے ہیں۔ صرف الیکشن کے دنوں میں۔
شادی بیاہ اور فوتگی کے دنوں میں دیگر قبیلوں کے لوگ سب سے زیادہ پہنچ جاتے ہیں۔ قبائل کا آپس میں شادی بیاہ اور رشتہ داریاں بھی معمول کی بات ہے۔
بنجر آراضی کی تقسیم و حفاظت، جنگلات کی تقسیم و حفاظت، چلغوزوں اور تعمیراتی لکڑ کی کٹائی وغیرہ میں مثالی اتفاق و اتحاد پایا جاتا ہے۔ زوتی سسٹم/ ویلیج کمیٹی سسٹم صدیوں سےبہت مضبوط ہے۔ کچھ سالوں سے ڈسٹرب بھی ہے۔ جلد صحیح ہوجائے گا۔
اجتماعی شادی بیاہ مختلف شکلوں میں اب بھی موجود ہے۔ جو بہت سے مشکلات کو روکا ہوا ہے۔ پہلے تو اس کا اسٹرانگ سسٹم تھا۔ بہرحال افطاری کا پورا وقت یہی موضوع چلتا رہا۔ پڑی کے احباب کو حیرت ہورہی تھی۔