Abn Ul Hassan Abbasi (1)
ابن الحسن عباسی (1)
"اگر تم لوگ دینی مدارس کے فضلاء کے ساتھ ظلم روا نہ رکھتے تو آج مولانا ابن الحسن عباسی کا مرتبہ تمہارے ہاں بہت بلند ہوتا"۔ یہ الفاظ نامور نقاد مشفق خواجہ نے عطاء الحق قاسمی کو مخاطب کرتے ہوئے کہی تھی۔ مشفق خواجہ مرحوم کے ہاں اہل قلم و ادب کی محفل لگتی تھی۔ وہ عباسی صاحب کی ادبی خدمات کے بڑے مداح تھے۔
استاد محترم کا تعلق کے پی کے سے تھا۔ پٹھان علماء میں مولانا سمیع الحق شہید کے بعد استاد محترم ہی سب سے کمال کی اردو لکھتے تھے۔ اسلامی ادب میں استاد عباسی کا مقام بہت بلند ہے۔ ان کا اصل نام مسعود باللہ عباسی تھا مگر وہ اپنے قلمی نام ابن الحسن عباسی کے نام سے معروف تھے۔ 1993 میں جامعہ دارالعلوم کراچی سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد جامعہ فاروقیہ میں تدریس و تحقیق اور تالیف کا کام شروع کیا۔ بہت جلد ترقی کے وہ منازل طے کیے جو نوجوان فضلاء خواب میں دیکھتے ہیں۔ جامعہ میں تدریسی و تحقیقاتی کاموں کیساتھ مدارس کا سب سے بڑا نیٹ ورک وفاق المدارس العربیہ کے ترجمان میگزین ماہنامہ وفاق المدارس کے بانی ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ کشف الباری کی تحقیق و مراجعت کے ساتھ اپنی کتب کی تصنیف کا سلسلہ شروع کیا۔ بائیس سال میں دو درجن سے زائد کتب تصنیف کی۔ خواتین کے لیے حیاء ڈائجسٹ کا اجرا کیا۔ شاہ فیصل کالونی میں تراث الاسلام کی داغ بیل ڈال دی اور وہاں سے النخیل کا اجراء کیا۔ النخیل نے بہت جلد پاکستان اور ہندوستان کے اہل علم و قلم میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ استاد جی کی زندگی میں کچھ مشکلات بھی آئیں مگر وہ ان مشکلات کا مقابلہ کرتے رہے۔ وہ بہت نفیس انسان تھے۔ کھانے پینے کی چیزوں میں بھی بہت احتیاط برتتے تھے۔ طالب علمی کے زمانے میں گلگت سے جو بھی دیسی چیزیں لے آتا، ان کی تفصیلات پوچھ کر ہی استعمال کرتے۔ استاد جی کے لیے گلگت کا کڑوا دیسی گھی لایا تھا۔ اس کے متعلق ایک شاندار قصہ بھی ہے۔ جو کافی پہلے کہیں تحریر بھی کیا ہے۔ میری والدہ ماجدہ نے میرے بچپن میں ہی میری شادی کے لیے اون کا دیسی جبہ(شوکا) بنایا جو طالب علمی میں ہی استاد جی کو گفٹ کیا تھا۔ بہت خوش ہوئے تھے۔
استاد جی سے پہلا تعارف ان کی کتب اور تحریریں تھی۔ استاد جی کی تحریریں روزنامہ اسلام میں شائع ہوتی تھی۔ میرا معمول تھا کہ حفظ کے زمانے میں ہی کئی کالم نگاروں کی تحریریں مستقل پڑھتا تھا۔ اخبار کیساتھ یک گونہ لگاؤ تھا مجھے۔ 2003 میں روزنامہ اسلام تک رسائی ہوئی تو استاد محترم کے کالم بھی پڑھنے شروع کیے۔ میں جہاں بھی زیر تعلیم رہا وہاں کے قریبی چائے خانے میں چائے پینے صرف اس لیے چلا جاتا تھا کہ وہاں مختلف اخبار آتے اور مجھے کالم پڑھنے کو ملتے۔ وہی پر استاد جی کی تحاریر پڑھتا اور استفادہ کرتا جاتا۔ پھر 2004میں درجہ ثانیہ میں جامعہ فاروقیہ میں داخلہ لیا تو استاد جی کے ساتھ ربط و تعلق کا سلسلہ شروع ہوا۔ مجھے لکھنے کا جنون تب سے تھا۔ میرے قریبی احباب جانتے ہیں کہ میں اخبار کے کالموں میں گھنٹوں سر جھکائے مصروف ہوتا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ روز کئی کالم پڑھتا ہوں۔ درجہ ثانیہ کے سال استاد جی کی اکثر کتب قیلولہ سے پہلے پڑھ چکا تھا۔ روزانہ 25 منٹ دوپہر کے قیلولہ سے پہلے ادبی کتب کا مطالعہ معمول بن گیا تھا۔ درجہ رابعہ میں استاد محترم سے اچھا خاصا تعلق بن چکا تھا۔ عصر کے بعد جامعہ کے دارالتصنیف والتالیف میں ان کے پاس جانا شروع کیا تھا۔ روز جاتا تھا۔ ایک سال سالانہ چھٹیوں میں استاد جی نے دارالتصنیف کی صفائی کی ذمہ داری بھی لگائی تھی۔ میرے بھائی منصوراللہ بھی وہاں آتے تھے اکثر۔ ایک دن عرض کیا کہ استاد جی میں بھی کالم لکھنا چاہتا ہوں۔ فرمایا:"ایک صفحہ لکھ کر لے آؤ دیکھتے ہیں"۔
اگلے دن کاپی کا پورا صفحہ لکھ کر حاضر خدمت ہوا۔ استاد جی کشف الباری کے کام میں مصروف رہے۔ یوں چالیس دن گذر گئے۔ میں کاپی سمیت روز عصر کے بعد حاضر ہوتا رہا مگر استاد جی کاپی کا اکلوتا صفحہ دیکھتے ہی نہیں۔ شاید میرے شوق و جنون کا امتحان لینا چاہتے ہوں۔
میں کافی مایوس ہوا تھا مگر پھر کہا ہاں "امیرجان دکھادو۔" تھوڑا پڑھا اور اپنی بک شیلف سے سید سلیمان ندوی کی کتاب "یاد رفتگاں" عنایت کی اور کہا "اس کو بالاستیعاب پڑھ کر آنا، اس کے مندرجات پربات ہوگی۔" یہ وفیات پر ایک بے نظیر کتاب ہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے کبار اہل علم پر اپنے عالمانہ و ادیبانہ تاثرات قلمبند کیے ہیں۔ تاثرات کیا علم و ادب کا بحر بے کراں ہے۔ یہ سارے مضامین شاید معارف اعظم گڑھ میں شائع ہوئے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چوتھے دن، میں اس ضخیم کتاب کو پڑھ کر استاد جی کی خدمت میں حاضرا ہوا تھا۔ اس کتاب کے بہت سارے محاورات، ضرب الامثال، جملے اور کچھ پیراگراف میں نے اپنی مخصوص ڈائری میں نوٹ کیا تھا جو آج تک میرے پاس محفوظ ہے۔ اس ڈائری میں مشکل الفاظ و تعبیرات لکھ دیا کرتا تھا تاکہ بار بار دھرا کر ازبر کرسکوں۔
استاد جی کو یہ ساری صورت حال بتائی تو بہت خوش ہوئے اور مجھ سے کتاب پر مکالمہ بلکہ مباحثہ شروع کیا۔ فرمایا سب سے اچھا کس پر لکھا ہے۔ عرض کیا استاد جی، مولانا سلیمان ندوی نے اپنے استاد علامہ شبلی نعمانی پر سب سے مفصل اور اچھا لکھا ہے۔ کہا ہاں مگر آپ نے اس مضمون پر زیادہ غور نہیں کیا ہے جو حضرت تھانوی رح پر لکھا ہے۔ پھر کچھ اور شخصیات پر لکھے ہوئے مضامین پر بھی ایسا تبصرہ کیا کہ میں ورطہ حیرت میں رہ گیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ آج ہی کتاب مکمل کی ہے۔ عرض کیا استاد جی یہ کتاب آپ نے کب پڑھی ہے؟ فرمایا کافی سال پہلے پڑھی تھی۔ اللہ اکبر کیا غضب کا حافظہ پایا تھا۔
پھر مفتی رفیع عثمانی صاحب کی کتاب تیرے پراسرار بندے عنایت کی۔ یوں بیس کے قریب استاد جی نے مجھ سے ادب اسلامی کی کتب کا مطالعہ کراویا۔ اور ان کتب پر مجھ سے مکالمہ کرتے رہے۔ بڑوں کے سکھانے اور سمجھانے کے انداز ہی مختلف ہوتے ہیں۔ فرمایا کرتے "امیرجان تھوڑا لکھنے کے لیے زیادہ پڑھنا پڑھتا ہے، تم اردو اچھی لکھتے ہو مگر بولتے بہت غلط ہو۔ اپنی تحریر و تقریر میں تذکیر و تانیث کی درستگی کیا کریں۔ گلگتی لہجے سے نکل جاؤ"۔ اک دفعہ فرمایا "اکثر گلگتی پھول کا تلفظ ایک جیسا کرتے ہیں یعنی ادائیگی درست نہیں۔ یہ ظلم دیگر بہت سارے الفاظ کے ساتھ بھی کرتے ہیں"۔
درجہ خامسہ اور بی اے کے سال میں نے اخبار میں لکھنا شروع کیا۔ پہلا کالم ہفت روزہ چٹان گلگت میں شائع ہوا تھا۔ اس وقت تحریر کی درستگی استاد حبیب زکریا سے لینا شروع کیا تھا۔ اخبار میں چھپا پہلا کالم استاد جی عباسی صاحب کو دکھایا تو بہت خوش ہوئے پھر فرمایا "چونکہ آپ نے صحافت اور کالم نگاری کی دنیا میں قدم رکھا ہی ہے تو دو باتوں کا خیال کرنا۔ جہد مسلسل اور ربط مسلسل۔ فرمایا جہد مسلسل کا مطلب موت تک مطالعہ کرنا ہے۔ مطالعہ کا تسلسل کھبی نہیں ٹوٹنا چاہیے۔ ربط مسلسل کا مطلب لکھنے لکھانے کی مشق اور اساتذہ سے تعلق اور ذرائع ابلاغ و نشریات سے مسلسل رابطہ میں رہنا۔ ان دو باتوں پر عمل کریں گے تو جلد لکھنے میں کامیابی حاصل ہوگی اور آپ کے خیالات کا ابلاغ بھی ہوجائے گا اور حلقہ قارئین بھی بنے گا"۔
استاد جی کی یہی دو باتوں کو زاد راہ کے طور پر 2006 سے آج تک حرزجاں بنایا ہوا ہے جس کا بے حد فائدہ ہورہا ہے۔ شکر ہے چار لفظ جوڑ دیتا ہوں اور لوگ پڑھ کر توصیف و تنقید کرتے ہیں جسے مجھے مزید لکھنے کی تحریک ملتی۔ استاد جی سے میں نے خامسہ میں ہدایہ اول، سابعہ میں تفسیر بیضاوی اور دورہ حدیث میں شمائل ترمذی پڑھی ہے۔ (جاری)