Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aleena Irshad
  4. Hypersonic Missile Kya Hai?

Hypersonic Missile Kya Hai?

ہائپر سونک میزائل کیا ہے؟

28 اکتوبر کی صبح جو ہوا وہ کافی حیران کر دینے والا تھا یہ ایک ایسا خواب ہے جو حقیقت کا روپ دھار چکا ہے یعنی کہ ہائپر سونک گلائیڈ وہیکل۔ بلوچستان کے آسمان پر جو عجیب و غریب دھوئیں کے راستے اور زگ زیگ پوزیشن دیکھی گئی، دفاعی ماہرین نے اسے محض بیلسٹک میزائل کا ٹیسٹ قرار دینے سے انکار کر دیا۔ یہ پیٹرن، یہ رفتار، یہ سب اشارہ ہے ہائپر سونک گلائیڈ وہیکل کے کامیاب تجربے کی طرف۔

ناظرین HGV وہ میزائل ہے جو پانچ ماک یعنی آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ یا اس سے بھی زیادہ پر سفر کرتا ہے۔ یہاں فزکس کی ایک بنیادی سائنسی حقیقت لاگو ہوتی ہے۔

جب کوئی آبجیکٹ 5 ماک سے اوپر جاتا ہے، تو فزکس کے قوانین اسے ایک ایسی طاقت اور رفتار دیتے ہیں کہ موجودہ ریڈار سسٹمز کے لیے اسے ٹریک کرنا "ناممکن" کی حد تک مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ صرف ایک میزائل نہیں، یہ ایرودائنامکس اور گائیڈنس سسٹم کا ایسا شاہکار ہے جو وقت سے آگے ہے۔

HGV عام میزائل کی طرح سیدھا نہیں جاتا، یہ ایک بیلسٹک ٹراجیکٹری پر جانے کے بجائے، سیکنڈز کے اندر بار بار اپنی پرواز کی پوزیشن اور اونچائی بدلتا ہے۔ یہ "زِگ زیگ" حرکت اسے "ناقابلِ گرفت" بنا دیتی ہے۔

اسی لیے یہ دنیا کے ہر جدید ترین دفاعی نظام، چاہے وہ امریکہ کا THAAD تھاڈ ہو یا روس کا S-400 اور S-500، ان کو بھی ناکام بنا دیتا ہے۔ یہ ہائپر سونک ہتھیار دفاعی نظاموں کا "قاتل" ہے! یعنی کہ یہ وہ تلوار ہے جس کی زد سے کوئی دشمن نہیں بچ سکتا۔

اس ٹیسٹ کی عالمی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے کسی لمبے تجزیے کی ضرورت نہیں۔ بس ایک کردار کو یاد رکھیں: امریکی فضائیہ کا جاسوس طیارہ RC-135S کوبرا بال!

یہ طیارہ، جو خصوصی طور پر بلسٹک اور ہائپر سونک میزائل لانچز کو ٹریک کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، ٹیسٹ سے قبل ہی خلیج عرب میں آ بیٹھا۔ قطر کے العدید ایئربیس سے اُڑان بھری اور پاکستانی کوسٹل ایریا کے قریب پرواز کرکے اس ٹیسٹ کی انتہائی خفیہ مانیٹرنگ کی۔ ایک عالمی طاقت کا اتنا قیمتی اور جدید طیارہ بھیجنا ثابت کرتا ہے کہ پاکستان نے کچھ ایسا کیا ہے جس نے عالمی طاقتوں کی نیندیں اُڑا دی ہیں۔

یہ دراصل عالمی پابندیوں اور قدغنوں کا بھی منہ توڑ جواب ہے۔ امریکہ نے برسوں تک ہمارے میزائل پروگرام پر پابندیاں لگائیں، لیکن ہمارے سائنسدانوں نے اپنے دماغ کی طاقت سے ثابت کر دیا کہ "پابندیاں" صرف کاغذ پر لگائی جا سکتی ہیں، قوم کے عزم اور ذہانت پر نہیں۔

سب سے دلچسپ بات اس سارے معاملے میں یہ تھی کہ پاکستان کی کسی بھی سرکاری ایجنسی نے، آئی ایس پی آر نے بھی، اس ٹیسٹ کی باضابطہ تصدیق نہیں کی ہے اور یہ ایک بہترین سٹریٹجک قدم ہے۔

تفصیلات جاری نہ کرکے پاکستان نے دشمنوں کو ایک گہرے ابہام میں ڈال دیا ہے۔ انہیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا گیا ہے کہ پاکستان کے پاس اصل میں کیا ہے، اس کی رینج کتنی ہے اور یہ کس جگہ سے فائر کیا جا سکتا ہے۔ یہ نفسیاتی جنگ کا ایک ماسٹر سٹروک ہے۔

یہی وہ حکمت عملی ہے جو قوموں کو عظیم بناتی ہے۔ مجھے قدیم یونانی فلسفی پلوٹارک کا ایک قول یاد آتا ہے، جو کہتے تھے "دماغ کوئی ایسا برتن نہیں ہے جسے بھرا جائے، بلکہ ایک ایسی آگ ہے جسے بھڑکایا جائے!"۔

پاکستان نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ صرف ٹیکنالوجی درآمد نہیں کرتا، بلکہ اپنے جوانوں کے اندر کی اس "آگ" کو بھڑکاتا ہے اور اسی کا نتیجہ یہ ہائپر سونک شاہکار ہے۔ یہ ٹیکنالوجی خود انحصاری اور عزتِ نفس کی علامت ہے۔

اگر یہ HGV ٹیسٹ کامیاب ہے تو پاکستان ان ممالک کے "ایلیٹ کلب" میں شامل ہوگیا ہے جو اپنے دفاع کے لیے کسی پر انحصار نہیں کرتے۔ یہ کلب جہاں روس، چین اور امریکہ جیسے ممالک ہیں، آج اس میں پاکستان کا نام بھی شامل ہو چکا ہے۔

اس کامیابی کے بعد، بھارت کی تمام پرانی حکمت عملیوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جانا چاہیے۔ وہ ابھی تک جس "آپریشن سندور 2.0" کا رونا پیٹنا ڈال رہے ہیں، وہ اب غیر مؤثر ہو چکا ہے۔ پاکستان کا دفاع آج صرف مضبوط نہیں ہوا، یہ ناقابل شکست ہو چکا ہے!

اور یہ کامیابی صرف بھارت کے لیے نہیں، یہ ایک پیغام ہمارے دوسرے ہمسایہ ملک، افغانستان کی غیر ذمہ دارانہ سرپرستی کرنے والے عناصر کے لیے بھی ہے۔ جو لوگ پاکستان کی سرحدوں پر دہشت گرد بھیجنے کا سوچتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ آج پاکستان کے پاس وہ آہنی قوت ہے جو سرحدوں کو پار کرنے والے ہر فضائی خطرے کو جڑ سے ختم کر سکتی ہے۔

ویسے ایک بات واضح ہے کہ ہمارے سائنسدان اور دفاعی ماہرین ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ ہمارے فوجی سرحدوں پر جاگ رہے ہوتے ہیں، دن رات قوم کے دفاع کا قلعہ مضبوط کر رہے ہیں۔

اللہ حافظ، پاکستان زندہ باد

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari