سید علی گیلانی کی S.O.Sکال
اپنی پوری زندگی، اپنی صحت، آرام، فیملی اور تمام صلاحیتیں اور توانائیاں کشمیر کے مسلمانوں کے حقوق اور آزادی کے لیے وقف کر دینے والے سب سے مقبول رہنما اور کشمیری کے بوڑھے شیر سید علی گیلانی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو مدد کے لیے پکارا ہے تو یقینا بات ہی ایسی ہے۔ وہاں کی صورت حال غیر معمولی ہے۔
بھارتی درندوں نے کشمیریوں پر ہر قسم کے ظلم ڈھا کر دیکھ لیا کہ وہ اب آزادی کے علاوہ کوئی بات ماننے کے لیے تیار نہیں۔ لہٰذا اب مودی اور اس کے کارندوں نے اپنے آئین اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو روندتے ہوئے کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کا خوفناک منصوبہ بنایا ہے اور اسی سلسلے میں انھوں نے کلسٹر بم گرانا شروع کر دیے ہیں۔ بھارتی درندے چاہتے ہیں کہ لاکھوں کشمیریوں کا قتل عام کیا جائے اور وہاں ہندوؤں کی اکثریت ہو جائے۔
پوری دنیا کا مسلمانوں اور خصوصاً پاکستان کے باشندوں (چاہے وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں رہتے ہوں) کا فرض ہے کہ اپنے کشمیری بھائیوں کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے انھیں جواب دیں کہ "ہم آپ کے ساتھ ہیں ہم آپ کو genocide کا شکار نہیں ہونے دیں گے۔ "
٭ اس سلسلے میں فوری طور پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے، اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر تمام سیاسی قائدین متحد ہو کر کشمیریوں کے قتل عام کے خلاف زور دار قرار داد پاس کرکے اہم ملکوں کے سربراہوں کو بھیجیں۔
٭ وزیراعظم عمران خان صاحب خود امریکا، برطانیہ، چین، روس، ترکی، جرمنی، فرانس، سعودی عرب، یو اے ای اور ملائیشیا کے حکمرانوں کو فون کرکے حالات کی سنگینی سے آگاہ کریں اور ان پر زور دیں کہ وہ بھارت کو اس بربریت سے روکیں۔
٭ امریکا اور برطانیہ میں تعینات پاکستانی سفیر وہاں بااثر پاکستانیوں کی میٹنگ بلائیں اور انھیں تیار کریں کہ وہ ان ملکوں کے اہم حکام سے مل کر انھیں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے پر آمادہ کریں تاکہ وہ بھارت کو اس شیطانی منصوبے سے روکیں۔
٭ کشمیر کا مقدمہ بہتر پیش کرنے کی صلاحیت رکھنے والے افراد پر مشتمل وفود فوری طور پر اہم ملکوں میں بھیجے جائیں تاکہ وہاں کے حکمرانوں کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے اور بے گناہ کشمیریوں کے تحفظ کے لیے انھیں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے پر قائل کیا جاسکے۔
اگر ہم کشمیری مسلمانوں کی SOS کال پر خاموش رہے تو سید علی گیلانی کے بقول ہم رب ذوالجلال کو کوئی جواب نہیں دے سکیں گے اور ہم شرمندگی کے مارے آقائے دو جہاں ﷺ کا سامنا نہیں کرسکیں گے۔