سابق وزیرِاعظم عمران خان،کچھ ملاقاتیں اور یادیں
یہ تحریرکسی سیاستدان کے اندھے پیروکاروں کے لیے نہیں ہے۔ یہ اندرون اور بیرون ملک رہنے والے پڑھے لکھے، غیرمتعصب اور وطنِ عزیز کو ترجیحِ اوّل سمجھنے والے خواتین و حضرات کے لیے ہے۔ مجھے یہ پابندی اس لیے لگانا پڑ رہی ہے کہ کسی شخصیت کے اندھے پیروکاروں کے ساتھ دلائل بے اثر اور مکالمہ بے سود ہوتا ہے۔
متعصب پیروکاروں سے کسی اِشو پر بات کرنا دیوار سے سر ٹکرانا ہے، جس کا نتیجہ اپنا سر پھوڑنے کے علاوہ کچھ بھی برآمد نہیں ہوسکتا۔ سوال یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں اور متعصب جیالوں اور متوالوں میں کیسے فرق کیا جائے؟ اندھے پیروکاروں اور کھلے ذہن کے پڑھے لکھے افراد کی شناخت آسانی سے کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پراگر مختلف ذرایع سے یہ بات تواتر کے ساتھ کہی جائے کہ سب سے بڑے صوبے میں کوئی عہدہ نہ رکھنے والی ایک خاتون اتنی طاقتور تھی کہ اس کے گھر کے باہر اچھی پوسٹنگ کے خواہش مند افسران کی قطار لگی رہتی تھی اور اس کے کہنے پر تعیناتیاں ہوجاتی تھیں۔
اس کے کہنے پر ٹھیکے بھی مل جاتے تھے اور وہ کام کرانے کا معقول نذرانہ بھی وصول کیا کرتی تھیں جو کام کرانے والے حضرات بخوشی ادا کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ موصوفہ کی طاقت کا سرچشمہ اسلام آباد کی قریبی پہاڑی پر ہے، پہاڑی سے اس کا اتناگہرا قرب تھا کہ سابق وزیر ِ اعظم صاحب کا تیسرا عقد موصوفہ کے گھر پر ہوا تھا اور قبل از عقد دلہا اور دلہن کی ملاقاتیں بھی وہیں ہوا کرتی تھیں۔ باخبر حضرات کافی عرصے سے کہہ رہے تھے کہ موصوفہ جو نذرانہ وصول کرتی ہیں اس کا معقول حصہ پہاڑی پر بھی جاتا ہے۔
پارٹی کے کچھ درد مند حضرات سابق وزیرِاعظم صاحب کو بتاتے بھی تھے مگر وہ ایسی شکایات کو رد کردیا کرتے تھے۔ پارٹی کے کچھ سینئر رہنما سابق وزیرِاعظم کو یہ بھی بتاتے رہے کہ "حضور والا پنجاب میں پہلی بار ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او دو سے تین کروڑ روپے نذرانہ دیکر لگ رہے ہیں اور اُس کا کھرا بھی اسلام آباد کی طرف آتا ہے"، ان الزامات کو بھی جھٹک دیا جاتا تھا۔
اب ایسی ناقابلِ تردید باتیں پڑھ کر اور سن کر جو خواتین و حضرات لڑنے لگیں اور پہاڑی کے مکینوں کا دفاع کرنے کی کوشش کریں اور موضوع بدل کر یہ کہنا شروع کردیں کہ " زرداری نے پیسہ کہاں سے بنایا، نوازشریف نے فلیٹ کیسے بنائے؟"تو وہ جیالے اور اندھے پیروکار کہلائیں گے مگر جو لوگ ایسی باتیں سن کر اس کا دفاع کرنے کے بجائے سوچنا شروع کردیں کہ اگر ایسا ہے تو یہ بہت افسوسناک ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارا خواب ایک سراب نکلا، اِس ملک میں جس شخص کو بھی اقتدار ملا اُس نے کرپشن کا خاتمہ کرنے کے بجائے اس کی سرپرستی کی ہے۔
ہم نے جس سے بے پناہ توقعات وابستہ کرلی تھیں، وہ بھی عام سیاستدانوں کی طرح ہی نکلا ہے، اس نے دوسروں سے ذرا بھی بہتر طرزِعمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اگر اُن سے کہا جائے کہ اپنے ورکرز کو سیاسی مخالفین کے گھروں پر بھیج کر گالیاں نکلوانا بدتہذیبی ہے اور یہ کہ سیاسی مخالفین کو اوئے توئے کرنا اور انھیں جلسوں میں توہین آمیز القاب سے پکارنا دینی احکام کے خلاف ہے تو ان کے اندھے پیروکار بپھر کر کہتے ہیں، جی نہیں، یہ ایسے القاب کے ہی حقدار ہیں اور خان صاحب جو کررہے ہیں ٹھیک ہے۔
مگر ان کے باشعور اور سمجھدار حامی اس پر افسوس کا اظہار کریں گے اور یہ کہیں گے اور کچھ کہتے بھی تھے کہ یہ زبان وزیرِاعظم کے شایانِ شان نہیں ہے۔ ان کے ایک غیر متعصب حامی ایک ریٹائرڈ افسر نے سوشل میڈیا پر لکھا تھا Mind your language Mr. Prime Minister مگر ان کے حامیوں میں بہت بڑی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنھوں نے پی ٹی آئی کو ایک فرقے میں تبدیل کردیا ہے اور ان کا ایمان ہے کہ"عمران خان کا ہر قول اور ہر فعل درست ہے"۔ اس قسم کی اندھی تقلید میں تشدد بھی در آتا ہے جو معاشرے اور ملک کے لیے بے حد خطرناک ہے۔
مگر سوچنے کا ایسا انداز باشعور خواتین و حضرات کا ہرگز نہیں ہوگا۔ وہ کسی ایک شخص کے طلسم میں اس حد تک مبتلا نہیں ہوں گے کہ اس کا مقام اور مرتبہ ملک سے بھی اوپر لے جائیں۔ بیرون ممالک کچھ لوگوں نے ملک کے پاسپورٹ جلادیے اور کہا کہ عمران خان وزیرِاعظم نہیں تو (خدانخواستہ) پاکستان بھی نہیں۔ ایسی سوچ رکھنے والے کم پڑھے لکھے، نیم خواندہ، متشدد اور پست ذہنیّت کے مالک ہوتے ہیں، جو دنگا فساد تو کرسکتے ہیں لیکن تعمیرِ وطن میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کرسکتے۔ بدقسمتی سے اس وقت عمران خان صاحب کے پیروکاروں کی اکثریت اسی قسم کے لوگوں پر مشتمل ہے۔
ان کے ماننے والوں میں سوچنے سمجھنے والے اور آزاد رائے قائم کرنے اور اس میں تبدیلی کی گنجائش رکھنے والے خواتین و حضرات بہت کم ہیں۔ جناب عمران خان صاحب کی حکومت کے خاتمے کے بعد مجھے ان کے ساتھ اپنی پرانی ملاقاتیں یاد آرہی ہیں، اس لیے بہتر ہے کہ وہ واقعات قارئیں کے ساتھ بھی شیئر کیے جائیں۔
1996کی انتخابی مہم زوروں پر تھی اور اس میں تحریکِ انصاف بھی پہلی بار حصہ لے رہی تھی۔ میں اُن دنوں پشاور سے چالیس منٹ کی مسافت پر شبقدر میں فرنٹیئرکانسٹیبلری کا کمان افسر تھا۔ ایک روز فیصل آباد سے ایک عزیز کا فون آیا کہ"آج عمران خان کا یہاں جلسہ تھا، اُس نے تقریر میں آپ کا بھی ذکر کیا ہے"۔ میں نے چونک کر پوچھا"وہ کیوں! میرا سیاست سے کیا تعلق ہے؟" اُس نے کہا، عمران خان نے آپ کا بہت اچھے الفاظ میں ذکر کیا ہے، اس نے تقریر میں کہا ہے کہ "ایک پولیس افسر چیمہ نے چند مہینوں میں ضلع رحیم یار خان کو بدل کر رکھ دیا تھا، اسی طرح اگر ارادہ مضبوط ہوتو پورے ملک کو تبدیل کیا جاسکتا ہے"۔ چند دنوں بعد کچھ اور جاننے والوں کی طرف سے اسی نوعیت کے فون آئے۔
پھر لاہور کے ایک صحافی کا فون آیا "آپ کی عمران خان سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں؟" میں نے کہا "میں تو اُن سے کبھی نہیں ملا"۔ وہ کہنے لگا" میں پی ٹی آئی کی انتخابی مہم Cover کررہا ہوں، وہ اپنی تقریروں میں کئی بار کہہ چکا ہے کہ "ایس ایس پی ذوالفقار چیمہ رحیم یار خان ضلع کو تبدیل کرسکتا ہے تو ایک قومی لیڈر پورے ملک کو بھی تبدیل کرسکتا ہے"۔ کچھ دنوں بعد عمران خان کے کزن اور بہنوئی حفیظ اللہ نیازی کا فون آیا کہ"آپ جانتے ہیں کہ عمران خان آپ کا فَین ہے۔ آپ کی عمران سے ملاقات ہونی چاہیے، وہ بھی ملنے کا خواہشمند ہے، آپ جب بھی لاہور آئیں تو مجھے ضرور اطلاع دیں"۔
کچھ عرصے کے بعد میری لاہور میں عمران خان صاحب سے پہلی بار ملاقات ہوئی، وہ بڑے تپاک سے ملے۔ میں نے انھیں ملتے ہی کہا "خان صاحب میں کرکٹ کا نہیں ہاکی اور باسکٹ بال کا شوقین ہوں مگر اس کے باوجود میں آپ کا مداح ہوں کیونکہ آپ کی وجہ سے دنیا کے کئی ملکوں میں پاکستان کا نام متعارف ہوا ہے"۔ انھوں نے کہا "میں تو خود آپ کا Admirer ہوں اور آپ سے ملنا چاہتا تھا"۔ میں نے کہا"میں بھی آپ سے ملکر ایک ضروری مشورہ دینا چاہتا تھا"۔ اب عمران خان صاحب پوری طرح متوجہ ہوئے اور پوچھنے لگے "آپ بتائیں میں آپ کے مشورے کو بہت اہمیت دوں گا"۔
میں نے جو مشورہ دیا وہ خان صاحب کو بالکل پسند نہ آیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، میں نے کہا تھا "خان صاحب آپ ہمارے قومی ہیرو ہیں، آپ سیاست میں آکر متنازعہ ہوجائیں گے اور قوم ایک ہیرو سے محروم ہوجائے گی، آپ سیاست کو چھوڑیں، صحت اور تعلیم کے میدان میں سوشل سروس کا کام جاری رکھیں"۔ اس پر عمران خان صاحب نے کہا" دیکھیں وہ چند لوگ جنھوں نے مجھے inspire کیا ہے۔
ان میں سے ایک آپ بھی ہیں، میں نے پچھلے سال رحیم یار خان میں چار مختلف جگہوں پر میٹنگز کیں، ہر جگہ عام لوگوں نے کہا، "ذوالفقار چیمہ کی وجہ سے حالات بدل گئے ہیں، تو مجھے بڑی inspiration اور طاقت ملی کہ ایک پولیس افسر پورے ضلع کو transform کرسکتا ہے تو ایک قومی لیڈر پورے ملک کو تبدیل کیوں نہیں کرسکتا۔ آپ دیکھیں گے میں پورے ملک کو تبدیل کردوں گا"۔
میں سمجھ گیا کہ میرے دلائل کارگر نہیں ہوں گے، بالآخر میں نے کہا "اگر آپ نے سیاست میں آنے کا تہیہ کرلیا ہے تو پھر کسی بدنام اور کرپٹ آدمی کو پارٹی میں شامل نہ کیجیے"۔ انھوں نے پرزور انداز میں کہا، یہ میرا وعدہ ہے، میں ایسے کسی شخص کو اپنے قریب نہیں آنے دوں گا"۔ انھیں پتہ چلا کہ میری تعیناتی شبقدر میں ہے تو انھوں نے فوراً کہا "وہ جہاں دروازوں کو قید کیا گیا ہے، میں اور جمائما شبقدر ضرور آئیں گے"۔ (جاری ہے)