پارٹی از اوور
وہی ہوا جو کہا جاتا تھا کہ جس روز کفیل کا ہاتھ پیچھے ہٹ گیا، عمران خان صاحب کی حکومت ریت کی دیوار ثابت ہوگی اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔
بیساکھیاں ہٹ گئیں تو اپنے ارکان بھی ریت کے ذروں کی طرح مٹھی سے نکلنے لگے اور اتحادیوں کی نہ صرف آنکھیں بدل گئیں بلکہ انھوں نے آنکھیں دکھانا شروع کردیں، پہلے حکومت کا کھل کر ساتھ دینے سے گریز کیا، پھر اپوزیشن سے پینگیں بڑھانے لگے اور اب تو انھوں نے وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔
وزیراعظم نے چندروز پہلے ایک وزیر سے بیان دلوایا کہ"پانچ سیٹوں کے ساتھ وزیرِاعلیٰ بننا چاہتے ہو یہ تو سراسر بلیک میلنگ ہے؟" کوئی شفاف ماضی والاشخص بات کرتا تو دوسرا فریق شاید چپ رہتا مگر جن کا اپنا دامن یوٹرن اور بے اصولیوں کے داغوں سے بھرا ہوا ہو، ان کے طعنے کون برداشت کرتا، لہٰذا وزیر کو اس کا ماضی یاد دلایا گیا اور وزیرِاعظم کو بھی بتادیا گیا کہ "حضور آپ کا ریکارڈ بھی ہم سے بہتر نہیں۔
آپ جنرل مشرف کے جعلی ریفرنڈم میں اس کے چیف پولنگ ایجنٹ تھے، وزارتِ عظمیٰ سے جواب مل گیا تو اس کے خلاف ہوگئے، آپ ایم کیو ایم کو دہشت گرد اور ملک دشمن کہتے تھے، اب ان کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوگئے ہیں، آپ ہمیں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے، اب ہماری منتیں کررہے ہیں۔
حضور! اگر ہم بلیک میلر ہیں تو آپ بھی پرلے درجے کے بے اصول ہیں۔ آپ نے بھی تو اپنے مفاد اور اقتدار کے لیے قانون، ضابطہ، اقدار، اخلاق اور جمہوری روایات سمیت ہر چیزکو روند ڈالا ہے۔ " وزیرِاعظم صاحب تقریروں میں تو پنجابی فلموں والے سلطان راہی بن جاتے ہیں مگر عملی طور پر وہ اپنے مفاد کے لیے جھکنا تو کیا، مکمل طور پر لیٹ جاتے ہیں۔
اگر حکومت کے اتحادیوں نے بے وفائی کی ہے تو وزیرِاعظم نے کونسا باوقار طرزِعمل اختیار کیا ہے، اگر پرائم منسٹر " مبینہ دہشت گردوں " اور " مبینہ ملک دشمنوں " کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونے کے بجائے ٹھوس شواہد کے ساتھ انھیں بے نقاب کرتے اور جنھیں وہ پنجاب کے "ڈاکو" کہتے رہے ہیں، ان کے ترلے کرنے اور پاؤں پکڑنے کے بجائے انھیں للکارتے تو عوام شاید ان کی تحسین کرتے مگر انھوں نے تو ثابت کردیا ہے کہ اقتدار انھیں ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے۔
اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ عمران خان صاحب نے اپنے چارسالہ اقتدار میں ملک کی معیشت کوبرباد کردیا ہے، پنجاب اور کے پی کے باضمیر سول سرونٹس کہتے ہیں کہ ملک کی چوہتر سالہ تاریخ میں اس سے بری گورننس نہیں دیکھی۔ پولیس، انتظامیہ، ایف آئی اے، ایف بی آر، نیب اور اینٹی کرپشن کے اداروں کو اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کیا۔
خان صاحب کا سب سے بڑا نعرہ کرپشن کا خاتمہ تھا مگر اُن کے دور میں کرپشن کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کرپشن کے الزامات کی زد میں آنے والے وزیروں اور مشیروں کو تحفظ دیا گیا اور ان کا بال تک بیکا نہیں ہونے دیا گیا۔ آپ کی اپنی پارٹی کے ایک باکردار رکن جسٹس وجیہہ الدین نے آپ کی ایمانداری پر بھی سوال اُٹھا دیے ہیں۔ آپ نے اپنے ہر دوست کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا، اقرباء پروری اور کیا ہوتی ہے۔
خان صاحب! آپ کے دور حکومت میں پاکستانی پاسپورٹ اور روپیہ دونوں بے توقیر ہوئے، آپ نے عوام کو دکھوں اور پریشانیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ آج اس ملک کے کروڑوں لوگ اگر دو وقت روٹی کھائیں تو بجلی گیس کے بل ادا نہیں کرسکتے، بل ادا کریں تو دوائیوں کا خرچہ نہیں اُٹھا سکتے، لاکھوں ٹن گندم، چینی اور اب کھاد اسمگل کردی گئی، مگر آپ نے کسی کو پوچھا تک نہیں۔ کسان بے چارے کھاد کی تلاش میں رُل گئے۔ سابقہ دور میں پچیس سو روپیہ کی ملنے والی ڈی اے پی کھاد دس گیارہ ہزارروپے تک پہنچ چکی ہے۔ پوری قوم کو مہنگائی کے طوفان کے آگے پھینک کر اب آپ فرماتے ہیں کہ میں مہنگائی کنٹرول کرنے نہیں آیا، میں تو قوم بنانے آیا ہوں۔
آقائے ؐدوجہاں نے پیغامِ حق پھیلانے سے پہلے اہلِ مکہ کو بلا کر سب سے پہلے یہ کہا تھا کہ "آپ میرے کردار سے واقف ہیں ناں!"۔ برصغیر کے مسلمانوں نے بڑے بڑے علماء پر مغرب زدہ محمد علی جناح کواس لیے ترجیح دی کہ انھوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور کبھی جھوٹا وعدہ نہیں کیا، جو کہا اس پر عمل کر کے دکھایا۔ اسلامی جمہوریۂ پاکستان کی قیادت کے لیے ایسے ہی لیڈر کی ضرورت ہے۔ آپ کیا قوم بنائینگے۔
آپ اسپورٹس مین ہوتے ہوئے بھی اسپورٹس مین اسپرٹ سے محروم ہیں۔ سیاسی مخالفین کے لیے آپ جو لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں، اس سے پوری قوم آگاہ ہوچکی ہے۔ آپ نے سیاست میں یوٹرن لینے کو بڑے لیڈر کی نشانی قراردیا۔ موجودہ حکومت کی پالیسیاں کچھ عرصہ اور جاری رہیں تو ملک بدحالی کے سمندر میں جاگرے گا۔
آجکل وزیرِاعظم صاحب کا چہرہ اُن کے اندرونی اضطراب، گبھراہٹ اور فرسٹریشن کی غمازی کرتا ہے، ہم نے بہت سے وزرائے اعظم کو اقتدار سے محروم ہوتے ہوئے دیکھا ہے مگر انھوں نے ایک باوقار طریقے سے اقتدار چھوڑا۔ ہاؤس کی اکثریت یوسف رضا گیلانی کے ساتھ تھی مگر ایک معمولی بات پر جسٹس افتخار محمد چوہدری نے انھیں توہین عدالت پر سزا دے کر معزول کردیا اور وہ کوئی واویلا مچائے بغیر پرائم منسٹر ہاؤس سے باہر آگئے۔
میاں نوازشریف کو ایوان کی دوتہائی اکثریت حاصل تھی مگر جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہ میں سپریم کورٹ کے بینچ نے انھیں تاحیات نااہل قراردے دیا، مگر وہ پرسکون رہے اور پورے وقار اور dignity کے ساتھ اقتدار چھوڑ دیا، نہ پارلیمنٹ کا گھیراؤ کرنے کی کال دی اور نہ ہی اسپیکر کو کوئی غیر آئینی اقدام اُٹھانے پر مجبور کیا، مگر اب تو لگتا ہے خان صاحب نے حکومت اور اقتدار کو زندگی موت کا مسئلہ بنالیا ہے، سب کو نظر آرہا ہے کہ وہ ہاؤس کی اکثریت سے محروم ہوچکے ہیں، زیادہ تر اتحادی ساتھ چھوڑ چکے ہیں اور اپنے بہت سے ارکان باغی ہوچکے ہیں۔
اس صورت میں اُن کے لیے باوقار راستہ یہ تھا کہ وہ استعفیٰ دے دیتے یا مڈٹرم الیکشن کا اعلان کردیتے(اُس یورپ میں یہ اکثر ہوتا رہتا ہے جسے خان صاحب سے زیادہ کوئی نہیں جانتا)، اس سے ان کی سیاسی ساکھ اور عزت بچ سکتی تھی مگر لگتا ہے کہ وہ اقتدار سے محرومی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے، اس کے لیے وہ ہر حربہ استعمال کررہے ہیں۔ اپوزیشن اپنا آئینی حق استعمال کررہی ہے مگر پرائم منسٹر غصے اور فرسٹریشن میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ سیاسی مخالفین کی نقلیں اُتار رہے ہیں اور انھیں توہین آمیز القاب سے نواز رہے ہیں۔ اسپیکر ہمیشہ غیر جانبدار ہوتا ہے مگر ان کی غیرجانبداری پر بھی سوال اٹھائے جارہے ہیں۔
اسپیکر آئینی امور کے بارے میں دو جگہوں یعنی قومی اسمبلی کے شعبۂ قانون سازی سے اور اٹارنی جنرل سے رہنمائی لیتا ہے۔ دونوں نے اسے بتادیا ہے کہ حکومتی پارٹی کے باغی ارکان کے ووٹ لازمی کاؤنٹ ہوں گے مگر اسپیکر کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ منحرف اراکین کے ووٹ کاؤنٹ نہ کرکے ایک غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام کرے۔
اس کے علاوہ ووٹنگ سے پہلے وہ ڈی چوک کو اپنے ورکروں سے بھردینا چاہتے ہیں تاکہ وہ پارلیمنٹ کا گھیراؤ کرلیں اور ان کے کسی سیاسی مخالف کو پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر نہ جانے دیں۔ عمران خان صاحب آئین کے مطابق پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک کو ورکرز کے ذریعے پر تشدد طریقوں سے روکنا آئین، جمہوریت اور ملکی سلامتی کو بھی داؤ پر لگا سکتا ہے۔ یہ طرزِ عمل متانت، وقار اور جرأت کا عکاس ہرگز نہیں ہے۔ عمران خان صاحب جس راستے پر چل رہے ہیں وہ انارکی اور تباہی کاراستہ ہے، اس پر چل کر نہ ان کی حکومت بچے گی اور نہ سیاست۔