نجف اور کربلا کا سفر
مکّہ اور مدینہ کی کئی بار زیارت اور حاضری ہوچکی تھی، کعبۃُ اﷲ کے طواف کا اعزاز حاصل کر چکا اور روضۂ رسالت مآب ؐ پر حاضری کا شرف حاصل کرچکا تھا۔
وصال کے بعد بھی رسول اﷲﷺ کا ساتھ نہ چھوڑنے والے یارانِ نبیﷺ ابوبکر صدیقؓ اور عمرِفاروقؓ کی ابدی خواب گاہوں کے سامنے کھڑے ہوکر کئی باردعا کر چکا تھا۔ اب دل نجف اور کربلا پہنچنے کے لیے بیتاب تھا۔
نجف۔۔ حضرت علیؓ کرم اﷲوجہُ کی ابدی خواب گاہ، مغربی تہذیب کے مرکز میں رہتے ہوئے یورپ کی چکاچوند دیکھنے کے بعد مشرق کے شاعرِاعظم نے کہا تھا۔
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ ونجف
کربلا، جہاں نواسہ رسول اﷲ حضرتِ حسینؓ نے اسلام کے ایک بنیادی اصول کی پاسبانی کے لیے اپنی اور پورے خاندان کی قربانی دے دی۔
میں وہ سر زمین اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا جہاں دینِ مصطفیٰ کی بقاء کے لیے زمانے کے اعلیٰ ترین افراد کے خون سے رسمِ شبّیری ادا ہوئی، میں اس کربلا میں پہنچنے کا متمنّی تھا جس نے دینِ مصطفیٰ ؐکو تقویت دی اور نئی زندگی بخشی۔
یہ 2001 کی بات ہے، امریکا نے عراق کے صدر صدّام حسین سے ناراض ہوکر عراق پرپابندیاں لگادی تھیں اس لیے کوئی طیارہ عراق نہیں اتر سکتا تھا، مگر مسافر ہر قیمت پر کربلا اور نجف پہنچنے کا ارادہ کر چکاتھا۔ راقم اسلام آباد میں عراقی سفیر سے ملاتو اس نے کہا، "آپ شام کے دارلحکومت دمشق پہنچیں گے تو وہاں سے ویزہ مل جائے گا"۔
بغداد میں پاکستان کے نائب سفیر مراد علی میرے لاء کالج کے کلاس فیلو تھے، انھوں نے میرے ویزے کے لیے سر توڑکوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ میں دمشق میں پہنچا تو ائرپورٹ پر میرے بَیج میٹ محمد عارف (جو شام میں پاکستان کے نائب سفیر تھے) کا ڈرائیور میرا منتظر تھا، میں عارف صاحب کے گھر ہی قیام پذیر ہوا۔
دمشق میں مجھے تمام تاریخی مقامات دیکھانے کے بعد انھوں نے عراقی سفارتخانے سے رابطہ شروع کردیا مگر وہاں سے کوئی مثبت جواب نہ آیا۔ صورتِ حال سے کسی حد تک مایوس ہوکر میں اردن کے دارالحکومت عمان چلا گیاجہاں اُس وقت طارق فاطمی صاحب پاکستان کے سفیر تھے۔ میں نے سفیرِ پاکستان طارق فاطمی صاحب کے دفتر میں چائے پیتے ہوئے کہا کہ کربلا دیکھے بغیر واپس نہیں جاؤںگا،۔ ا
ن کے دفتر سے نکل کرمیں قونصلر کے دفتر پہنچا ہی تھا کہ فاطمی صاحب کو بغداد سے مراد علی کا فون آگیا۔ اس نے عراق کے انٹیلی جنس چیف سے ملاقات کرکے میرے ویزے کا بندوبست کرلیا تھا۔
ایمبیسی اسٹاف نے بتایا کہ عمان سے بغداد کے لیے علی الصبح گاڑی جاتی ہے جو گیارہ گھنٹے میں پہنچتی ہے، چنانچہ میں نے اس میں سیٹ بک کرالی اور دوسرے روز عمّان سے پانچ سواریوں والی ویگن پر بیٹھا (میرے علاوہ تین اور مسافر بھی تھے) جس نے ایک تھکا دینے والے طویل سفر کے بعد اگلی صبح ہمیں بغداد پہنچادیا، جہاں مراد علی لینے کے لیے آئے ہوئے تھے۔
انھوں نے ملتے ہی کہا "آپ کامصمم ارادہ دیکھ کر رکاوٹیں ہٹتی چلی گئیں ورنہ اِن حالات میں عراق پہنچناآسان کام نہیں ہے"۔ مراد علی کے گھر پر تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد ہم منزل کی جانب چل پڑے، مراد تجربہ کارگائیڈ کی طرح مجھے ہر چیز کی تفصیل بتاتا رہا۔
بغداد سے 45 منٹ کی مسافت پر ہم کوفہ پہنچے اور وہاں سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر نجف پہنچ گئے۔ نجف کا بورڈ دیکھتے ہی شیرِ ؓخدا کے کارنامے اور اس عظیم ہستی کا فقر ذہن میں گھومنے لگا۔ شاعرِ مشرق کے الفاظ زبان پر تھے۔
دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللّٰھی
روضہ حضرت علی مرتضٰےؓ کے سامنے کھڑا ہوا تو محسوس ہوا کہ جسم و روح بوئے اسد اللّٰھی سے معطّر ہوگئے ہیں۔
سیّدنا علیؓ المرتضیٰ کے منہ سے نکلے الفاظ آج بھی زندہ و جاوید ہیں، " میں نے اپنے رب کو ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا"کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے، ظلم کی نہیں"۔ کس کس کا ذکر کریں، لکھنے لگیں تو کتابیں بھر جائیں۔ نجف میں حیدرِ کرارؓ کا وہ گھر بھی دیکھا جہاں آپ اور حسنینؓ رہائش پزیر رہے اور جہاں پر وقتِ شہادت آپؓ کو لایا گیا تھا۔
نجف سے چالیس منٹ میں ہم کربلا پہنچ گئے جس کے بارے میں صحیح کہا گیا ہے کہ "اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد" یعنی معرکہء کربلا نے اسلام کو حیاتِ نَو بخش دی۔ کربلا، جہاں داستانِ حرم کی تکمیل ہوئی۔ کربلا کے میدان (جو پارک میں تبدیل کردیا گیا ہے) میں کھڑا ہوا تو سامنے روضہء امام حسینؓ تھا۔ ذہن صدیوں پیچھے چلا گیا۔ یہاں پر خاندانِ نبوّت کے خیمے لگے تھے۔
یہاں پیاسے معصوم بچّے پانی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے یہاں پر حضرت امام حسینؓ نے یزیدی فوج کے کمانڈروں کو سمجھانے کی کوشش کی اور پھر اس جگہ، اس جگہ شاہِ دو جہاں ؐکے محبوب ترین نواسے حسینؓ، ان کے خاندان اور معصوم بچّوں کے مقدّس جسموں میں برچھیاں گھونپ دی گئیں۔
مسافر کربلا میں روضہء حسینؓ کے سامنے کھڑا تھا اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ ذہن کلبلا رہاتھا۔ سرورِ کائنات کے خاندان کے ساتھ خدا کی زمین پر ایسا ظلم۔ زمین پھٹ کیوں نہیں گئی، آسمان ٹوٹ کر گِر کیوں نہیں پڑا۔
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتداء ہے اسمعٰیلؑ
حضرت اسمعٰیلؑ کے جذبۂ قربانی اور استقامت سے شروع ہونے والی داستان کو امامؓ الشہداء اور ان کے ساتھیوں نے کربلا میں مکمّل کردیا۔ مسافر، کربلا میں، دمشق کے بازارمیں (جہاں سے حضرت زینبؓ اور قافلہء حسین کی بچنے والی دوسری خواتین کو گزارا گیا تھا) اور مسجدِ امیّہ میں، ایک ہی سوال کا جواب ڈھونڈتا رہا۔ کہ ظالموں کے خلاف بغاوت کیوں نہ ہوگئی۔
جب اس ظلمِ عظیم کی لوگوں کو خبر ہوئی تو انھوں نے ظالم حکمرانوں کی تکہ بوٹی کیوں نہ کردی، ان کے تاج وتحت کیوں بچے رہے، اُمّت محمدؐ نے اتنی بے حسی کا مظاہرہ کیوں کیا؟ کچھ عرصہ بعد ایک صاحبِ نظر سے ملاقات ہوئی تو جواب ملا: اﷲ کی کتاب اور اﷲ کے آخری نبیؐ سے بڑی سچّائی کوئی نہیں ہوسکتی۔
کیا تمام انسانوں نے اس سچّائی کو مان لیا؟ نہیں، ا نسانوں میں دنیاوی فوائد حاصل کرنے کی رَغبت بے پناہ ہے، دنیاوی لالچ کے لیے انسانوں نے پیغمبروں کے خلاف بھی جنگیں کی ہیں اور اﷲ کے گھر خانۂِ کعبہ پر گولیاں برسائی ہیں، حق اور سچائی کے لیے دنیاوی فوائد کی قربانی دینے والے کم ہوتے ہیں مگر وہی اﷲ کے پسندیدہ بندے ہیں۔
یہی تو دنیا کا امتحان ہے جس کا نتیجہ اور فیصلہ روزِ محشر یعنی کو سنایا جائے گا۔ محسنؐ اِنسانیت ؐکے نواسےؓ اور ان کے خاندان پر جو سانحہ گزرا، اس پر کربلا کی سرزمین قیامت تک شرمندہ رہے گی۔ مسلمانوں کے لیے یہ صدمہ اتنا عظیم ہے اور جسدِ اسلام پر لگا ہوا یہ زخم اتنا گہرا ہے کہ سرورِ کائنات کے نام لیوا قیامت تک اپنے اپنے انداز میں اس کا سوگ مناتے رہیں گے۔
کسی صاحبِ دانش نے ٹھیک کہا ہے کہ اس عظیم سانحے پر جتنے آنسو بہائے گئے ہیں اور جس قدر بہائے جائیں گے انھیں اکٹھا کیا جائے تو ان کا ذخیرہ دنیا کے تمام سمندروں کے پانی سے کہیں زیادہ ہوگا۔
سوچنے اور غور کرنے کی بات مگر یہ ہے کہ مسئلہ کیا تھا؟ اِشوکیا تھا جس کے لیے خاندانِ محمدﷺ کو اتنی بڑی قربانی دینی پڑی؟ وقت کے حکمران کا مطالبہ تھا کہ حضرتِ حسینؓ اس کی بیعت کرلیں، یعنی اسے ووٹ دے دیں اور حکمران تسلیم کرلیں یعنی حقِّ حکمرانی کا فیصلہ کرنا تھا۔ قیادت کا معیار طے ہونا تھا اور قیادت کے معیا رنے ہی اسلام کے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا۔
یزید نے ووٹ مانگا تو نواسہء رسول نے انکار کردیا۔ سر کٹوا لیے گئے مگر نواسہء رسول نے وقت کے حکمران کو ووٹ دینا قبول نہ کیا۔ کیوں؟ کس لیے؟ اس کا جواب خود امام حسینؓ نے دیا ہے اور دنیا کی تمام تاریخوں میں درج ہے۔
جنابِ حسینؓ نے یزیدکو حکمران تسلیم نہ کرنے کی وجوہات بتاتے ہوئے فرمایا تھا کہ "تم حکمرانی کے اہل نہں ہو کیونکہ تم شرابی اوربدکارہو"۔ سچیّ اور آخری نبیﷺ کے خاندان نے جانیں دے دیں مگر ایک شرابی اور بدکار کی لیڈر شپ اور قیادت قبول کرنے سے انکار کردیا۔ گویا کربلا کے میدان میں نواسہء رسولﷺ نے قیادت کے پیمانے اور میعار مقررکردیے۔
خاندانِ رسالت مآب نے قیامت تک کے لیے مسلمانوں کی حکمرانی کی شرائط اپنے خون سے لکھ دیں۔ شہدائے کربلا نے اپنے لہوسے یہ فیصلہ لکھ دیا کہ قیادت کے انتخاب کے لیے، جانچنے اور پرکھنے کی چیز امیدوار کی شکل یا دولت نہیں، کردار ہے، اور جو کردار کے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتا وہ قیادت کا اہل نہیں ہے۔ اور کسی صورت میں ووٹ کا حقدار نہیں ہے۔
اب ہم اپنے طرزِ عمل کا جائزہ لیں کہ اگر ہم پاکستان میں کسی بھی سطح کے انتخابات میں کسی شرابی، بدکار، کرپٹ یا بدکردار شخص کو ووٹ دیتے ہیں تو شہدائے کربلا کے خون کی بے حرمتی کرتے ہیں اور خونِ حسینؓ سے بیوفائی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
جو ایسا کرتے ہیں ان کے بارے میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ وہ نام حسینؓ کا لیتے ہیں مگر پیروی یزید کی کرتے ہیں۔ آج کے دور میں شہیدِ کربلا، امام الشہداء حضرت حسینؓ کے لافانی پیغام پر عمل کرنے اور رسمِ شبیری نبھانے کی کہیں زیادہ ضرورت ہے، اقبالؒ اسی لیے پکارتے رہے ہیں کہ ؎
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبّیری